لکھاری آرکیٹیکٹ ہیں۔
لکھاری آرکیٹیکٹ ہیں۔

کراچی میں جہانگیر پارک کی تعمیرِ نو کے بعد صدر کے ماحول میں بہتری آئی ہے۔ اربن ریسورس سینٹر کی جانب سے کیے جانے والے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ صدر کے رہائشی پارک کی تعمیر سے خوش ہیں۔

تاہم سروے میں جن افراد سے رائے لی گئی ہے ان میں سے اکثریت کا خیال تھا کہ اس پارک میں کچھ کھلی جگہ بھی ہونی چاہیے تھی تاکہ بچے کرکٹ اور فٹ بال سڑک پر کھیلنے کے بجائے پارک میں کھیل سکتے۔

دوسری جانب ماہرینِ تعمیرات اس پارک کے نقشے کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں۔ اگر پارک کی تعمیرِ نو سے پہلے ماہرینِ تعمیرات اور اہلِ علاقہ سے رائے لی جاتی تو ممکن تھا ان دونوں کے تحفظات کو دُور کیا جاسکتا۔

اسی بات کا اطلاق ورلڈ بینک کے نیبرہوڈ امپروومنٹ پراجیکٹ (Neighbourhood Improvement Project) کے تحت بننے والے پیپلز اسکوائر پر بھی ہوتا ہے۔ یہ چوک 4 تعلیمی اداروں اور نیشنل میوزیم کے درمیان واقع ہے، جو سماجی سرگرمیوں کے لیے بہترین جگہ ہے۔

اس منصوبے کے آغاز سے پہلے بچے اس جگہ پر چھٹی کے دنوں اور رمضان میں کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ اسی طرح یہاں کے رہائشی یہاں کبوتروں کو دانہ بھی ڈالتے تھے۔ ان میں سے کسی بھی چیز کو نئی تعمیرت کے منصوبے کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ اب بچے تنگ گلیوں میں کرکٹ کھیلتے ہیں جہاں پولیس انہیں تنگ کرتی ہے۔ میچ کھیلنے کے لیے انہیں ہاکس بے کے اطراف کھلی جگہوں پر جانا پڑتا ہے۔ لیکن والدین بچوں کی حفاظت کے سبب انہیں دُور بھیجنے سے ہچکچاتے ہیں۔

مزید پڑھیے: کھیلنے دو: گراؤنڈز کہاں ہیں؟

ہم بہت تیزی کے ساتھ اپنی نوجوان نسل سے ان کے کھیلنے کی جگہیں چھین رہے ہیں۔ پہلے ہم نے انہیں پولو گراؤنڈ سے باہر نکالا جہاں چھٹی کے دن 40 سے زیادہ ٹیمیں کرکٹ کھیلتی تھیں۔ پھر ہم نے انہیں آرام باغ، پرانے کلفٹن، جناح کوارٹز کے اطراف اور 150 ایکڑ پر محیط باغ ابنِ قاسم سے بھی محروم کردیا۔

باغ ابنِ قاسم میں 50 ایکڑ کا رقبہ آسانی سے کھیلوں کی سرگرمیوں کے لیے مختص کیا جا سکتا ہے۔ اس کے اطراف کی آبادیوں میں بھی بچے سڑکوں پر کھیلتے نظر آتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ گزشتہ 10 سال میں تعمیر ہونے والے اکثر پارکوں میں کھیلوں کی سرگرمیاں تو دُور کی بات، بال تک لے جانا منع ہے۔

یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ پارک بھی سیکھنے کے عمل سے گزرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کراچی کے ہل پارک کو ہی دیکھ لیں۔ یہاں میں 34 سال تک واک کے لیے جایا کرتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ پارک مختلف حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔ بچے اور فیملیز زیادہ تر جھیل کے کنارے بیٹھتے تھے، بوڑھے لوگ شمال کی جانب موجود باغ میں، نوجوان اور جوڑے پہاڑی کی جانب موجود ہوتے تھے اور پارکنگ کی جگہ جب خالی ہوتی تھی تو کھیلوں کی سرگرمیوں اور ڈرائیونگ سکھانے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔

پارک کی شمالی جانب ایک کرکٹ گراؤنڈ بھی بن گیا تھا جہاں میچ کھیلے جاتے تھے۔ پارک میں ضرورت کے تحت تھری کوائنز کے نام سے ایک کیفے بھی کھل گیا تھا جہاں ایکسر سائز کرنے کے بعد لوگ ضرور جاتے تھے۔ بعد میں سپریم کورٹ کے حکم پر غیر قانونی تعمیرات کے خلاف آپریشن میں یہ کیفے بھی ختم کردیا گیا۔ نتیجے کے طور پر یہ تمام سماجی تعلقات بھی ختم ہوگئے اور اب یہ پارک دوبارہ سیکھنے کا عمل شروع کر رہا ہے۔

یہاں مشکل یہ ہے کہ ایک آرکیٹیکٹ اپنے طور پر لوگوں کی ضروریات کو سمجھتے ہوئے کوئی منصوبہ تیار کرلیتا ہے۔ پاکستان میں ماہرینِ تعمیرات اور عوام کے درمیان تعلق نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ عوامی مقامات پر تعمیر ہونے والے منصوبوں کی نمائش عوامی جگہوں پر ہی کی جائے۔ وہاں لوگ ان منصوبوں کو دیکھیں اور ان سے متعلق اپنے مشاہدات اور تجاویز ریکارڈ کروائیں۔ اگر واقعی اس نظام کو ترتیب دے دیا گیا تو نئی تعمیرات زیادہ عوام دوست ہوں گی اور اس سے عوام کی جانب سے شہری حکومت پر بھروسے میں بھی اضافہ ہوگا۔

یہاں ان مقامات کی مثالیں دی گئی ہیں جنہیں ہم پہلے ہی کھو چکے ہیں۔ تاہم ابھی 2 مقامات ایسے ہیں جو زیرِ تعمیر ہیں۔ ان میں سے ایک ایمپریس مارکیٹ ہے جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم کہ اس کا مستقبل کیا ہوگا۔ یہ مارکیٹ اور اس کے اطراف کا علاقہ کراچی کی سماجی زندگی کا اہم حصہ ہے۔ اسی لیے یہ بات ضروری ہے کہ اس کی تعمیرِ نو کے منصوبے کو کراچی کے شہریوں کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ وہ اسے دیکھ سکیں اور اس پر رائے دے سکیں۔

مزید پڑھیے: ایمپریس مارکیٹ کو کیوں چھپا دیا گیا؟

دوسری جگہ جہاں تعمیرات جاری ہیں وہ فریئر ہال ہے۔ حال ہی میں مجھے ایک ای میل کی کاپی موصول ہوئی جس میں اس علاقے کے رہائشیوں نے ایڈمنسٹریٹر کراچی سے ان تعمیرات کے حوالے سے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے جن مسائل کا ذکر کیا ہے ان میں لائبریری سے متعلق مسئلے کے علاوہ کچی زمین پر اینوی کریٹ کا فرش ڈالنے، بینچوں کو ہٹائے جانے اور ہفتہ وار کتب میلے کے مقام اور وقت کو محدود کرنا شامل ہے۔

یہ ضروری ہے کہ اس منصوبے کے ناقدین اور اطراف کے رہائشیوں کو حتمی منصوبے، اس کے نفاذ کے عمل اور مستقبل میں یہاں ہونے والی سرگرمیوں میں ایک فریق بنایا جائے۔

کراچی کے شہری کھیل کے میدانوں کی اہمیت بخوبی جانتے ہیں۔ 1994ء میں اورنگی پائلٹ پروجیکٹ سینیٹیشن اسکیم کی نگرانی کے دوران مجھے ایک بزرگ نے بتایا کہ ’سیوریج کا نظام موجود ہونا ضروری ہے لیکن کھیلنے کی جگہوں کی موجودگی اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ اس کے بغیر ہم نشے کی عادی نسل کو دیکھیں گے‘۔ بدقسمتی سے تاریخ ان بزرگ کو صحیح ثابت کر رہی ہے۔


یہ مضمون 25 اکتوبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں