سابق ڈی جی آئی ایس آئی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر حکومت سے جواب طلب

21 نومبر 2020
سابق سربراہ آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی—فائل فوٹو: الجزیرہ
سابق سربراہ آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی—فائل فوٹو: الجزیرہ

اسلام آباد ہائیکورٹ نے انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے سے متعلق درخواست پر وزارت داخلہ سے جواب طلب کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے گزشتہ سال اسد درانی کی نمائندگی کا فیصلہ کرنے کے لیے وزارت داخلہ کو ہدایت جاری کی تھی۔

تاہم اکتوبر میں وزارت داخلہ نے نمائندگی کو مسترد کردیا تھا، مزید یہ کہ اسد درانی نے ای سی ایل پر اپنے نام کے خلاف ایک اور درخواست دائر کی تھی۔

مزید پڑھیں: سابق ڈی جی آئی ایس آئی سے متعلق جی ایچ کیو کی رپورٹ طلب

اس سلسلے میں ہونے والی حالیہ سماعت میں اسد درانی کے وکیل نے اعتراض اٹھایا کہ حکومت نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کا نام بھارتی خفیہ ایجنسی را (ریسرچ اینڈ انالائسز ونگ) کے سابق سربراہ کے ساتھ ایک کتاب لکھنے سے متعلق ہونے والی انکوائری کے تناظر میں ای سی ایل میں ڈال دیا تھا۔

انہوں نے نکتہ اٹھایا کہ اگرچہ انکوائری مکمل ہوچکی ہے اور اسد درانی کو اس کے مطابق سزا بھی دی جاچکی ہے تاہم ان کا نام ابھی تک ای سی ایل پر برقرار ہے۔

اس پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ حکومت پہلے ہی اسد درانی کی پینشن اور ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی مراعات کو روک چکی ہے، ساتھ ہی انہوں نے تعجب کا اظہار کیا کہ (حکومت) ان کا نام پرواز نہ کرنے والوں کی فہرست میں رکھ کر کیا حاصل کرنا چاہتی ہے۔

جسٹس محسن اختر نے ریمارکس دیے کہ ’اگر آپ نے انہیں سلاخوں کے پیچھے بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ ایک مختلف کیس ہوگا’۔

اس موقع پر انہوں نے وزارت داخلہ کو ہدایت دی کہ وہ خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ کا نام ای سی ایل میں رکھنے کے لیے وجہ بیان کریں۔

دوران سماعت ایڈیشل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے عدالت کو بتایا کہ وہ وفاقی حکومت سے ہدایات لے کر آئندہ سماعت پر عدالت کو آگاہ کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: کتاب پر پوزیشن واضح کرنے کیلئے اسد درانی کو طلب کرلیا،آئی ایس پی آر

بعد ازاں عدالت نے مذکورہ معاملے کو 4 دسمبر تک ملتوی کردیا۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ سال 2018 میں ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) نے وزارت داخلہ کو لکھا تھا کہ وہ را کے سابق سربراہ ارم جیت سنگھ دولت کے ساتھ جاسوسی سے متعلق ایک کتاب لکھنے پر اسد درانی کا نام ای سی ایل میں شامل کرے۔

علاوہ ازیں 28 فروری 2019 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ ان کا نام ای سی ایل میں رکھنے کے فیصلے پر نظرثانی کے لیے وزارت داخلہ کے سامنے زیر التوا ان کی نمائندگی سے متعلق فیصلہ کرے۔

تبصرے (0) بند ہیں