آرزو کی مسلم شخص سے شادی قانون کے مطابق ہے، وکیل دفاع

آرزو نے مبینہ طور پر اسلام قبول کیا تھا اور مرضی سے سید علی اظہر سے شادی کی تھی — فائل فوٹو / اے پی
آرزو نے مبینہ طور پر اسلام قبول کیا تھا اور مرضی سے سید علی اظہر سے شادی کی تھی — فائل فوٹو / اے پی

کراچی کی مقامی عدالت کو آگاہ کیا گیا ہے کہ کم عمر مسیحی لڑکی آرزو راجا کی مسلم شخص سے شادی وفاقی قوانین اور شریعت کے عین مطابق ہے اور اس پر کوئی قدغن نہیں ہے۔

خیال رہے کہ آرزو نے مبینہ طور پر اسلام قبول کیا تھا اور مرضی سے سید علی اظہر سے شادی کی تھی۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ 13 سالہ لڑکی آرزو کے شوہر سید علی اظہر کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا جبکہ ان کے دو بھائیوں اور ایک دوست کو مبینہ طور پر 13 اکتوبر کو لڑکی کے اغوا میں ملوث ہونے پر گرفتار کرلیا گیا۔

پولیس نے سید علی اظہر کے خلاف مقدمہ درج کرکے اس کے دو بھائیوں سید شارق علی اور سید محسن علی، ایک دوست دانش کو 13 سالہ لڑکی کے مبینہ طور پر اغوا، زبردستی مذہب تبدیلی اور مسلمان شخص سے شادی کے الزام میں گرفتار کرلیا تھا۔

مزید پڑھیں: دارالامان میں آرزو راجا کی دیکھ بھال کیلئے سماجی بہبود کی نمائندہ مقرر کرنے کا حکم

پولیس نے مولوی قاضی عبدالرسول، جنید علی صدیقی اور محمود حسان کے خلاف بھی کم عمر لڑکی کی شادی کے لیے سہولت کاری کے الزام میں مقدمہ درج کرلیا تھا، تاہم ملزمان نے عبوری ضمانت حاصل کرلی تھی۔

جمعہ کو جوڈیشل مجسٹریٹ (جنوبی) محمد علی دَل کی عدالت میں معاملے کی سماعت ہوئی جہاں گزشتہ سماعت میں تفتیشی افسر کی جانب سے جمع کرائی گئی چارج شیٹ پر دلائل دیے گئے۔

وکیل دفاع نظار تنولی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل اظہر اور آرزو کی شادی میجورٹی ایکٹ 1875 کی شقوں کے مطابق قانونی ہے، جس کے تحت 18 سال یا اس سے زائد عمر والے شخص کو بالغ جبکہ اس سے کم عمر والے انسان کو نابالغ تصور کیا جاتا ہے، تاہم نابالغ کی شادی پر کوئی قدغن نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ محمدن قانون اور مسلم خاندان قوانین آرڈیننس 1961 کے مطابق بھی کوئی بھی شہری بلوغت کے بعد شادی کر سکتا ہے۔

وکیل نے کہا کہ لہٰذا آرزو اور اظہر کی شادی وفاقی اور شرعی قوانین کے مطابق قانونی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'اغوا اور مذہب تبدیل کرنے کا معاملہ': آرزو کی عمر 14سال ہے، میڈیکل بورڈ

مقدمے میں سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کی دفعات شامل سے متعلق درخواست پر ان کا کہنا تھا اس قانون کا اطلاق اس کیس پر نہیں ہوتا کیونکہ یہ صوبائی قانون ہے جس کی جگہ وفاقی اور شرعی قوانین نے لے لی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آرزو سندھ ہائی کورٹ میں اپنا بیان ریکارڈ کرا چکی ہے جس میں اس نے واضح طور پر کہا کہ اس نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور آزادانہ طور پر شادی کی۔

وکیل دفاع نے مزید کہا کہ چونکہ ان کے موکل کی آرزو سے شادی قوانین اور شریعت کے مطابق ہوئی اس لیے ان کے درمیان جنسی تعلقات بھی قانونی ہیں اور یہ کسی طور پر ریپ کا کیس نہیں ہے۔

نظار تنولی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے وکیل استغاثہ کے دلائل کے لیے یکم دسمبر سماعت کی تاریخ مقرر کردی۔

واضح رہے کہ آرزا کے والد راجا کی مدعیت میں درج ہونے والے مقدمے میں انہوں نے بتایا تھا کہ 13 اکتوبر کو وہ اور ان کی اہلیہ کام پر گئے تھے جب ان کا بیٹا شہباز اسکول گیا تھا۔

مزید پڑھیں: کراچی: مذہب تبدیل کرنے والی آرزو کی عمر کی تصدیق کیلئے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم

شکایت کنندہ نے بتایا کہ آرزو سمیت اس کی تین بیٹیاں کراچی کی ریلوے کالونی میں واقع اپنے گھر پر موجود تھیں جب اسے کسی رشتہ دار کا فون آیا جس نے اسے بتایا کہ آرزو لاپتا ہے۔

راجا نے بتایا کہ وہ گھر پہنچا اور اپنے پڑوسیوں سے رابطہ کیا لیکن اپنی بیٹی کا سراغ نہ لگا سکا، اس کے بعد اس نے فیریئر تھانے میں نامعلوم افراد کے خلاف اپنی بیٹی کے اغوا کا مقدمہ درج کیا۔

آرزو اس وقت سندھ ہائی کورٹ کی ہدایت پر شیلٹر ہوم میں مقیم ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں