لکھاری صحافی ہیں۔
لکھاری صحافی ہیں۔

سگریٹ کے پیکٹ کی طرح اب ٹوئیٹس پر بھی خبردار کرنے والے پیغامات نظر آنے لگے ہیں۔

مئی کے مہینے میں ٹوئٹر نے پہلی مرتبہ امریکی صدر ٹرمپ کی ان 2 ٹوئیٹس پر خبردار کرنے والا پیغام شامل کیا تھا جن میں صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ پوسٹل بیلیٹ جعل سازی کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ صدر ٹرمپ کی ٹوئیٹ کے نیچے ٹوئٹر نے ایک لنک آویزاں کیا تھا، جس میں ٹرمپ کے دعوے کی تردید کی گئی تھی۔

اس کے بعد نومبر کے اوائل میں انتخابات سے کچھ ہی دن پہلے ٹرمپ کی جانب سے کی گئی ٹوئیٹس میں سے آدھی ٹوئیٹس پر ٹوئٹر کی جانب سے ’گمراہ کن‘ ہونے کا لیبل لگا دیا گیا، جو یہ کہنے کا مہذب طریقہ ہے کہ آیا وہ کم علم ہیں یا پھر جھوٹے، یا پھر دونوں۔

غصے میں آکر ٹرمپ نے ایک صدارتی حکم نامہ جاری کیا جس کا واضح ہدف ٹوئٹر تھا۔ اس حکم نامے کے تحت سوشل میڈیا کمپنیوں کو حاصل قانونی تحفظ کو کچھ کم کردیا اور اس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ ان کمپنیوں کو صارفین کی آرا میں ترمیم کرنے کے لامحدود اختیارات حاصل ہیں۔ ٹوئٹر اس اقدام سے بالکل بھی نہیں ڈرا اور اس نے انتخابات کے 2 دن بعد ٹرمپ کی 9 ٹوئیٹس پر انتباہ کا لیبل لگایا۔

ٹوئٹر ایک امریکی کمپنی ہے اور امریکی صدارتی انتخابات پوری دنیا کے لیے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں امریکی صدر کی جانب سے دی جانے والی گمراہ کن معلومات یقیناً خطرناک ہیں۔ لیکن یہاں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ٹوئٹر کا ایہ اقدام صرف امریکا اور صدر ٹرمپ تک ہی محدود ہے یا پھر یہ وسیع پیمانے پر غلط معلومات کے خلاف اقدامات کا آغاز ہے؟

اس سوال کا جواب بھی ہمیں مل گیا ہے۔ ٹرمپ کے بعد ٹوئٹر کی جانب سے ایک اور شخصیت کی ٹوئیٹس کو بھی چیلنج کیا گیا ہے، اور یہ شخصیت کوئی اور نہیں بلکہ بھارتی حکمراں جماعت بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کے آئی ٹی سیل کے ذمے دار امیت مالویا تھے۔

بھارت میں جاری کسانوں کے احتجاج کے دوران کانگریس رہنما راہول گاندھی نے وہ مشہور تصویر ٹوئیٹ کی جس میں ایک پولیس والا بزرگ سکھ کسان پر لاٹھی برسانے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس کے جواب میں مالویا نے ’پراپیگنڈا یا حقیقت‘ کے عنوان سے ایک پوسٹ کی جس میں اس واقعے کی ترمیم شدہ ویڈیو اپلوڈ کی گئی، اور اس میں دکھایا گیا تھا کہ اس بزرگ کسان کو لاٹھی نہیں ماری گئی۔ ٹوئٹر نے فوراً ایکشن لیتے ہوئے اس ویڈیو پر ترمیم شدہ ویڈیو کا لیبل لگا دیا اور یوں مالویا یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے بھارت بن گئے۔

تادمِ تحریر ایک بھارتی فلم ساز ویویک اگنی ہوتری جو اپنی فلم سازی کے بجائے ہندوتوا نظریات کی وجہ سے جانے ہیں جاتے ہیں، دوسرے ہندوستانی بن گئے ہیں جن کی ٹوئیٹ پر ٹوئٹر کی جانب سے ترمیم شدہ مواد کا لیبل لگایا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس ٹوئیٹ پر یہ ردِعمل آیا ہے وہ اگست کے مہینے کی ٹوئیٹ ہے جس کا مطلب ہے کہ ٹوئٹر صرف نئی ٹوئیٹس کی ہی چھان بین نہیں کررہا۔

اگر یہ بات صحیح ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ٹوئٹر کا کام مشکل ہوجائے گا کیونکہ فیک نیوز تو سنگھی (آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے) معلومات کے نظام میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔

امیت مالویا بھی اپنے آپ میں جھوٹوں کے قبیلے کے سردار سے کم نہیں ہیں۔ اس قبیلے کو عام طور پر بی جے پی کا آئی ٹی سیل کہا جاتا ہے۔ یہ وہی سیل ہے جس کے بارے میں امیت شاہ بہت فخر سے کہتے تھے کہ یہ سیل ’پیغامات کو وائرل کرسکتا ہے، چاہے وہ سچے ہوں یا جھوٹے، کڑوے ہوں یا میٹھے‘۔

ظاہر ہے کہ یہ غلط فہمی کے سوداگروں اور جعل سازوں کے لیے روز کا کام ہے۔ سوشل میڈیا پر بدنیتی پر مبنی مہمات کا آغاز کیا جاتا ہے جسے ان کے حمایتی خوب پھیلاتے ہیں پھر اس کو مزید بڑھاوا الیکٹرانک میڈیا میں بیٹھے شرپسند عناصر دیتے ہیں۔

اس طرح جھوٹ کی ایک ساکھ قائم کی جاتی ہے، کیونکہ اب تک ان باتوں کی کئی جگہوں سے تصدیق ہورہی ہوتی ہے اور اسے لاکھوں صارفین دیکھ رہے ہوتے ہیں جس سے ان صارفین کے پہلے سے قائم شدہ نظریات کی تصدیق ہوتی ہے۔ معاشرے پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں جو ہمیں تشدد اور ہنگامہ آرائی اور ’لَو جہاد‘ کے حوالے سے پاس ہونے والے بل کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ ان تمام واقعات کی بنیاد اس نظام کے تحت پھیلائے گئے جھوٹ میں نظر آتی ہے جو سوشل میڈیا اور واٹس ایپ کے ذریعے پھیلائے جاتے ہیں۔

آسانی کے ساتھ ملنے والی کامیابیاں کاہلی پیدا کردیتی ہیں۔ اس وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ بھارتی میڈیا کو کراچی میں ہونے والی خانہ جنگی اور بالاکوٹ حملے کے بعد گرائے جانے والے پاکستانی طیاروں کی دریافت پر عالمی سطح پر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔

اس وجہ سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ بھارتی میڈیا کی دوسرے ممالک میں پروپیگنڈا کرنے کی کوششیں مضحکہ خیز ہیں۔ حال ہی میں ای یو ڈِس انفو لیب نے 65 ممالک میں کام کرنے والی 265 ویب سائٹس کے ایک نیٹ ورک کی نشاندہی کی جنہیں ایک بھارتی کمپنی سری واستا گروپ کی جانب سے چلایا جارہا تھا۔ ان ویب سائٹس کا مقصد عوامی آرا پر اثر انداز ہونا تھا۔

یہ بات خطرناک تو لگتی ہے لیکن ان ویب سائٹس کا سرسری جائزہ لینے سے معلوم ہوا کہ انہیں کس مضحکہ خیز انداز میں چلایا جارہا ہے۔ ان پر پروپیگنڈا مواد کو اس بے ڈھنگے انداز میں ڈالا گیا تھا کہ کوئی بھی ذی شعور شخص اس پر توجہ نہیں دے گا۔

اس طرح کی حرکتوں کی حدود کو کسانوں کے احتجاج کے دوران دیکھا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اس دفعہ ان حرکتوں کا ہدف بننے والے لوگ اس کا بھرپور جواب دے رہے ہیں۔ شاید اس دفعہ جھوٹوں کے سردار نے اپنے قد سے بڑے دشمن سے پنگا لے لیا ہے۔


یہ مضمون 7 دسمبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں