ڈی ایچ اے کراچی میں خواتین کی پہلی ریس

اپ ڈیٹ 08 دسمبر 2020
ریس میں شامل ہونے والی خواتین کی تعداد 50 سے زائد تھی جن کی عمریں 13 سے 50 برس کے درمیان تھیں—فوٹو: شازیہ حسن
ریس میں شامل ہونے والی خواتین کی تعداد 50 سے زائد تھی جن کی عمریں 13 سے 50 برس کے درمیان تھیں—فوٹو: شازیہ حسن

کراچی میں بورن ٹو رن پاکستان کے تحت خواتین کی پہلی 5 کلومیٹر ریس 'ویمن پاور رن' کا انعقاد کیا گیا جو شرکا اور ان کا ساتھ دینے والوں کے لیے ایک اچھا آغاز ثابت ہوئی۔

اتوار (6 دسمبر) کی صبح 6 بجے بھی اس وقت کافی اندھیرا تھا جب شرکا ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) فیز-8 پہنچا شروع ہوئے جہاں رمادا کریک سے سیور اور وہاں سے واپس رمادا کریک کی ریس ہونی تھی۔

شرکا نے پہنچنے کے بعد ریس سے قبل سڑکوں یا خالی پلاٹوں پر وارم اپ کرنا شروع کیا۔

اس نوعیت کی پہلی ریس میں شامل ہونے والی خواتین کی تعداد 50 سے زائد تھی جن کی عمریں 13 سے 50 برس سے زائد کے درمیان تھیں۔

—فوٹو: شازیہ حسن
—فوٹو: شازیہ حسن

اس ریس میں شریک ہونے والی خواتین خوش قسمت تھیں جنہیں سہیل سردار سے مفت میں ٹریننگ حاصل کرنے کا موقع ملا۔

خیال رہے کہ سہیل سردار 3 سالوں تک تنہا دوڑ لگاتے تھے جس کے بعد انہوں نے مردوں، خواتین اور بچوں کو مفت تربیت دینا شروع کی تاکہ وہ ان کے ساتھ ریس کا حصہ بنیں۔

کوچ نے ڈان کو بتایا کہ صبح سویرے کا وقت دوڑنے کے لیے بہترین ہوتا ہے، اس سے آپ کو دن کا اچھا آغاز کرنے میں مدد ملتی ہے۔

سہیل سردار نے کہا کہ 'میں کافی عرصے سے رنرز کی تربیت کر رہا ہوں لہٰذا میں نے تمغوں اور انعامات کے ساتھ مسابقتی ایونٹ منعقد کرکے فٹنس کے سفر میں ان کی مزید حوصلہ افزائی کرنے کا فیصلہ کیا'۔

انہوں نے کہا کہ 'میں کسی اسپانسر کے بغیر ہر چیز خود کر رہا ہوں۔

اس کے بعد انہوں نے ریس کے آخری مقام سے قریب رکھی گئی میز پر گولڈ پلیٹڈ میڈلز اور دیگر انعامات و تحائف دکھائے۔

رنرز بھی چیلنج کے لیے تیار تھے۔

ان میں سے ایک خاتون شہرِزاد سمیع الدین جو اپنی 13سالہ بیٹی دینا کے ساتھ وہاں موجود تھیں، انہوں نے کہا کہ وہ 2 برس سے دوڑ رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں پہلے واک کرتی تھی لیکن میں نے سہیل سردار کے ساتھ اس پارک میں دوڑنا شروع کیا جہاں میں واک کیا کرتی تھی۔

شہرِزاد سمیع الدین نے کہا کہ سہیل سردار وہاں لوگوں کو دوڑنے کی ترغیب دینے کے لیے موجود تھے اور میں نے اس کے بعد ان کے گروہ کے ساتھ باقاعدگی کے ساتھ دوڑنا شروع کیا۔

علاوہ ازیں عائشہ نامی خاتون نے کہا کہ انہوں نے دوڑنا شروع کیا کیونکہ وہ وزن کم کرنا اور فٹ رہنا چاہتی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ اب میں مارشل آرٹس اور سائیکلنگ سمیت دیگر کھیلوں میں حصہ لیتی ہوں۔

اسما خان، جن کے بارے میں سب کہہ رہے تھے کہ وہ بہت زیادہ رفتار سے دوڑتی ہیں، انہوں نے بتایا کہ انہوں نے لگ بھگ 2 ماہ قبل ہی دوڑنا شروع کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے دوڑنا شروع کیا کیونکہ میں کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دوران گھر بیٹھے تھک گئی تھی، مقابلہ جیتنے کے مقابلے اپنی ذاتی کوشش کرنا اب میرے لیے زیادہ اہم ہے۔

پھر جیسے جیسے ریس کا آغاز ہوا تو واقعی کچھ تیز رنرز اور کئی سست بھی تھیں، ان میں سے جب کچھ تھکنا شروع ہوئیں تو توانائی کی بچت کے لیے رفتار میں کمی کی اور پھر دوبارہ اسپیڈ میں تیزی لائیں۔

علاوہ ازیں کچھ دوڑتے ہوئے ہیڈفونز سے میوزک سنتی بھی دکھائی دیں۔

فائزہ نے کہا کہ وہ ہیوی میٹل میوزک سن رہی تھیں اور ماہ نور نے کہا کہ وہ فاسٹ میوزک سن رہی تھیں۔

سہیل سردار نے سب سے آخر میں ریس کرنے والی خاتون اریبہ کو بھی انعام دیا، انہوں نے کہا کہ میرا کام آپ کو دوڑنے کی ترغیب دینا ہے تاکہ آپ اس میں مزید بہتر ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ' آپ کا جوش و خروش دیکھنا، آپ کا یہاں آنا اور دوڑنا میرے لیے انعام ہے'۔

سب سے زیادہ دوڑنے وال ہانی مزاری نے ریس جیتی، انہوں نے کہا کہ انہیں احساس ہی نہیں ہوا کہ وہ دوڑتے ہوئے سب سے آگے تھیں۔

انہوں نے کہا کہ 'میرا دھیان تھوڑا ہٹ گیا تھا اور یہاں تک کہ میں نے غلط ٹرن بھی لے لیا تھا لیکن پھر مجھے صحیح راستہ بتایا گیا تھا، میرے آگے کوئی نہیں تھا تو میں سمجھی کہ شاید میں سب سے آخر میں ہوں'۔

دوسرے نمبر پر آنے والی سدرہ خالد خان نے کہا کہ وہ اچھے سے جانتی تھیں کہ وہ دوسرے نمبر پر آئیں گی کیونکہ وہ ہانی کو سب سے آگے دوڑتے دیکھ رہی تھیں۔

دوسری رنر اپ شیزا ثاقب نے کہا کہ انہیں بھی معلوم تھا کہ وہ تیسرے نمبر پر ہیں۔


یہ خبر 7 دسمبر، 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں