ڈیفنس ’پولیس مقابلہ‘: کراچی پولیس چیف ودیگر افسران عدالت طلب

اپ ڈیٹ 08 دسمبر 2020
پولیس نے ڈی ایچ اے میں بنگلے میں ڈکیتی کے ارادے سے داخل ہونے کے الزام میں پانچ مشتبہ افراد کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا — فائل فوٹو: اے ایف پی
پولیس نے ڈی ایچ اے میں بنگلے میں ڈکیتی کے ارادے سے داخل ہونے کے الزام میں پانچ مشتبہ افراد کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا — فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی: ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں مبینہ 'جعلی مقابلے' میں پولیس کے ہاتھوں 5 مشتبہ افراد کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے درخواست پر جوڈیشل مجسٹریٹ نے کراچی پولیس چیف اور دیگر کو نوٹسز جاری کردیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے 27 نومبر کو ڈی ایچ اے فیز 4 میں یثرب امام بارگاہ کے قریب بنگلے میں ڈکیتی کے ارادے سے داخل ہونے کے الزام میں پانچ ’مشتبہ افراد‘ کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: راؤ انوار نے جعلی انکاؤنٹر میں نقیب اللہ کے قتل کا حکم دیا، گواہ کا عدالت میں بیان

محمد ثاقب نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 174 (5) کے ساتھ ساتھ دفعہ 176، 176 (2) کے تحت درخواست دائر کی ہے جس میں پولیس کے ایڈیشنل انسپکٹر، کراچی کے سیکریٹری صحت، پولیس سرجن اور گزری پولیس اسٹیشن کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر کو نامزد کیا گیا۔

جوڈیشل مجسٹریٹ (جنوبی) نے ایڈیشنل آئی جی کراچی اور دیگر کو اپنے اپنے جوابات کے ساتھ پیش ہونے کی ہدایت کی اور معاملہ آج 8 دسمبر کو سماعت کے لیے مقرر کیا ہے۔

درخواست میں درخواست گزار نے بتایا کہ وہ عباس کا بھائی ہے جو ڈی ایچ اے کے بنگلے میں ڈرائیور کی حیثیت سے کام کرتا تھا، انہوں نے مزید کہا کہ تھانہ گزری کے عہدیداروں نے اسے 21 نومبر کو اپنے مالک کے بنگلے سے اٹھا کر اپنی تحویل میں لے لیا تھا لیکن اسے ایک انکاؤنٹر کے طور پر دکھایا گیا اور اس کے خلاف فوجداری مقدمہ بھی درج کرلیا گیا۔

درخواست گزار نے بتایا کہ اس نے گزری کے ایس ایچ او کے پاس درخواست دائر کی جس میں اس سے کہا گیا کہ وہ اس کی موجودگی میں ان کے مقتول بھائی کا پوسٹ مارٹم معائنہ کروائے، اس کیس کے تفتیشی افسر نے سول ہسپتال کراچی کے پولیس سرجن کو خط بھیجا جس میں کہا گیا کہ درخواست گزار کی موجودگی میں مقتول کا پوسٹ مارٹم کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: مبینہ جعلی پولیس مقابلے پر ایس ایچ او کو نوٹس جاری

درخواست گزار نے بتایا کہ پولیس سرجن نے صوبائی سیکریٹری صحت کو ایک خط لکھا۔

درخواست گزار کے وکیل شاہد علی سومرو نے دعویٰ کیا کہ چونکہ پولیس عہدیداروں نے درخواست گزار کے بھائی کو اس کے آجر کی رہائش گاہ سے اغوا کیا تھا اور پھر مبینہ مقابلے میں اسے ہلاک کردیا لہٰذا انہیں بچانے کے لیے اہلکاروں نے جوڈیشل مجسٹریٹ کی موجودگی میں مقتول کا پوسٹ مارٹم کروانے کے مقصد کے تحت عدالت سے رابطہ نہیں کیا جو ایک عام قانونی طریقہ کار تھا۔

انہوں نے بتایا کہ مقتول کی لاش کو چھیپا ایمبولینس سروس کے سرد خانے میں رکھا گیا اور ابھی تک پوسٹ مارٹم نہیں کرایا گیا ہے۔

لہٰذا عدالت نے کراچی پولیس چیف اور دیگر کو جوڈیشل مجسٹریٹ کی موجودگی میں عباس کے قتل کی تحقیقات اور میڈیکل قانونی طریقہ کار کی ہدایت جاری کردی۔

مزید پڑھیں: کراچی میں پولیس مقابلہ، 5 مشتبہ ڈاکو ہلاک

قبل ازیں متاثرہ ملازم کی آجر لیلیٰ پروین نے بھی سی آر پی سی کے سیکشن اے-22 کے تحت درخواست دائر کی تھی جس میں پولیس کے مبینہ جعلی مقابلے میں اپنے ڈرائیور عباس کی ہلاکت میں سپرنٹنڈنٹ (شکایات سیل) اور گزری پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او کو ہدایت کی گئی کہ وہ ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں