فوجی نیلامی کے جعلی واؤچرز پر گاڑیوں کی رجسٹریشن کا میگا اسکینڈل بے نقاب

اپ ڈیٹ 09 دسمبر 2020
سال 2015 سے 2018 کے درمیان 7 ہزار 13 گاڑیاں اس طرح رجسٹرڈ کروائی گئیں—فائل فوٹو: عبدالمجید گورایا
سال 2015 سے 2018 کے درمیان 7 ہزار 13 گاڑیاں اس طرح رجسٹرڈ کروائی گئیں—فائل فوٹو: عبدالمجید گورایا

لاہور: اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) نے محکمہ ایکسائیز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب کے عہدیداران اور دیگر افراد پر مشتمل گینگ کی جانب سے کئی برسوں سے فوجی نیلامی کے جعلی واؤچرز کی بنیاد پر استعمال شدہ، اسمگلڈ اور چھینی گئی گاڑیوں کی رجسٹریشن کے میگا اسکینڈل سے پردہ اٹھایا ہے جس میں زیادہ تر ٹرک اور بسیں شامل ہیں۔

انسداد بدعنوانی کے ادارے نے اپنی تفتیش 2017 میں شروع کی تھی جس میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ 7 ہزار 13 گاڑیوں کی رجسٹریشن مشکوک ہے جس میں سے 4 ہزار جعلی واؤچرز کی بنیاد پر رجسٹرڈ ہیں جبکہ دیگر گاڑیوں کے ریکارڈ کی تصدیق نہیں ہو سکی جس سے قومی خزانے کو بلواسطہ اور بلا واسطہ 3 کھرب روپے کا نقصان پہنچا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عام طور پر جو افراد فوج کی جانب سے کھلی نیلامی میں فوجی استعمال شدہ گاڑیاں خریدتے ہیں وہ معمولی ٹیکس پر نئے رجسٹریشن نمبر اور گاڑی کے معائنے کے فٹنس سرٹیفکیٹ کے لیے اپلائی کرسکتے ہیں۔

ایکسائیز ڈپارٹمنٹ کا ایک ڈیٹا انٹری آپریٹر رجسٹریشن فیس موصول ہونے اور کیس پروسیسنگ کے بعد اسے دستاویز اور واؤچر کی تصدیق کے لیے متعلقہ سیکشن میں بھیج دیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ: سبسڈی ٹریکٹر اسکیم میں ‘بڑا کرپشن’ بے نقاب

جس کے بعد ایک ایکسائیز انسپکٹر واؤچر کی تصدیق کے لیے کیس کو فوج کے متعلقہ یونٹ ارسال کرتا ہے، بعدازاں واؤچر کی ضروری تصدیق کے بعد گاڑی کی رجسٹریشن اور نیا نمبر الاٹ کرنے کے لیے کیس کو واپس ایکسائیز ڈپارٹمنٹ بھجوادیا جاتا ہے۔

لیکن اس اسکینڈل میں اس طریقہ کار کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا، انسداد بدعنوانی ادارے کی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ سال 2015 سے 2018 کے درمیان 7 ہزار 13 گاڑیاں اس طرح رجسٹرڈ کروائی گئیں۔

اے سی ای رپورٹ کی ایک نقل ڈان کے پاس بھی دستیاب ہے جس کے مطابق تحقیقات اس وقت شروع کی گئیں جب یہ بات سامنے آئی کہ اگست 2017 کے دوران لاہور میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں استعمال ہونے والے ٹرک کو جعلی رجسٹریشن نمبر جاری کیا گیا۔

دھماکا خیز مواد سے بھرا ٹرک جس کا چیچس نمبر ایف بی-113 کے اے-14454 تھا وہ دھماکے سے قبل لاہور کے آؤٹ فال روڈ پر کھڑا تھا۔

پولیس کے انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ نے جن ملزمان کو گرفتار کیا تھا انہوں نے ایک نیٹ ورک کا انکشاف کیا تھا جس میں پرائیویٹ لوگ ایم وی ای، وہیکل فٹنس اور ایکسائیز ڈپارٹمنٹ کے حکومتی عہدیداران کی معاونت سے جعلی دستاویزات کی بنیاد پر تقریباً 3 ہزار گاڑیاں رجسٹرڈ کرواچکے تھے۔

مزید پڑھیں: ایف بی آر نے ٹیکس چوری کے مزید کیسز بے نقاب کردیے

چونکہ آؤٹ فال روڈ پر دہشت گردی کے حملے میں استعمال ہونے والا ٹرک بھی ان میں شامل تھا اس لیے سی ٹی ڈی نے مزید تحقیقات کے بعد 7 سرکاری افسران کو حراست میں لیا تھا۔

رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ پنجاب کی بڑی صنعتوں میں سے ایک بادامی باغ لاری اڈے پر ری مینوفیکچر ہونے والی دہائیوں پرانی بسوں اور ٹرکوں کو جعلی رجسٹریشن نمبرز جاری کیے گئے۔

ایک اندازے کے مطابق جعلی رجسٹریشن کی وجہ سے ان برسوں میں ہزاروں کمرشل گاڑیوں کی درآمد متاثر ہوئی جس کے نتیجے میں حکومت امپورٹ ڈیوٹیز اور دیگر فیسوں اور ٹیکسز کی مد میں 3 کھرب روپے حاصل نہیں کر پائی۔

ٹک ٹاک اسٹار کا کردار

اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کی انکوائری میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ایک ٹک ٹاک اسٹار خرم ریاض گجر جو شیروں کے ساتھ ویڈیوز بنا کر شیئر کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں ان کا بھی اس اسکینڈل میں کردار ہے اور دورانِ تفتیش ان کے اکاؤنٹس میں 4 کروڑ روپے کی ٹرانزیکشن کے شواہد بھی ملے۔

مزید کھوج میں انسداد بدعنوانی کے ادارے نے اس بات سے پردہ اٹھایا کہ گینگ ہر جعلی رجسٹریشن نمبر کے عوض 2 لاکھ روپے ادا کر کے اسے بس اور ٹرکس بنانے والوں کو 12 لاکھ روپے میں فروخت کیا کرتا تھا۔

گاڑیوں کا جعلی رجسٹریشن ریکارڈ اس کے علاوہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ پنجاب کے مختلف حصوں میں رہنے والے افراد کی مرضی کے بغیر ان کے شناختی کارڈ نمبرز کا استعمال کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: بینک اکاؤنٹس میں رقم کی غیر قانونی منتقلی کا ایک اور اسکینڈل بے نقاب

رپورٹ کے مطابق ریکارڈ سے یہ معلوم ہوا کہ 1290 گاڑیاں ایک غریب شخص کسوَر عباس کے نام پر فوجی نیلامی کے واؤچر کی بنیاد پر رجسٹرڈ کروائی گئیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے متعلقہ حلقوں سے تصدیق کی ہے کہ نجی افراد اور سرکاری عہدیداران کے نیٹ ورک نے فوجی نیلامی کے جعلی واؤچرز تیار کیے تا کہ گاڑیوں کی غیر قانونی رجسٹریشن، جعلی فٹنس سرٹیفکیٹس کے ذریعے جرم کا ارتکاب کیا جاسکے۔

اس سے نہ صرف قومی خزانے کو بھاری نقصان ہوا بلکہ ہزاروں مسافروں کے لیے بھی سیکیورٹی کے خطرات جنم لے چکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں