کلیئرنگ ایجنٹس کی ہڑتال، افغانستان کو سامان کی برآمدات تعطل کا شکار

اپ ڈیٹ 15 دسمبر 2020
کلیئرنگ ایجنٹس نے سرحدی گزرگاہ پر سہولیات کی عدم فراہمی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کام روک دیا — فوٹو: ڈان
کلیئرنگ ایجنٹس نے سرحدی گزرگاہ پر سہولیات کی عدم فراہمی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کام روک دیا — فوٹو: ڈان

خیبر: طورخم بارڈر کے راستے افغانستان میں پاکستانی سامان کی برآمد پیر کے روز رک گئی جب مقامی کلیئرنگ ایجنٹس نے سرحدی گزرگاہ پر سہولیات کی عدم فراہمی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کام روک دیا۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ جب تک حکام ان کے تمام مطالبات پورے نہیں کرتے، ہڑتال جاری رہے گی۔

مزید پڑھیں: حکومتی پالیسیوں کے خلاف ملک بھر میں تاجروں کی ہڑتال

طورخم کسٹمز کلیئرنگ ایجنٹس کے صدر حضرت عمر نے انہیں بارڈر کراسنگ پر بتایا کہ وہ سب طویل عرصے سے افغانستان کے ساتھ تیز تجارت کے لیے 24 گھنٹے کی سرحد کھولنے، ہر طرح کے برآمدی سامان کے لیے اسکیننگ کی شرط ختم کرنے اور برآمدات اور درآمدات کے سامان کی جانچ پڑتال علیحدہ علیحدہ جگہ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

انہوں نے حکام سے مطالبہ کیا کہ شام 5 بجے کے بعد تازہ اشیائے خورونوش کے سوا تمام سامان کی کلیئرنس کو روکیں اور ان کلیئرنگ ایجنٹس کے خلاف ایف آئی آر درج نہ کریں جن کی گاڑیوں میں معمولی غیر قانونی اشیا ہیں۔

حضرت عمر نے کہا کہ حکومت سامان کی منظوری کے وقت بہتر انٹرنیٹ اور بجلی کی خدمات کے وعدوں کو انجام دینے میں ناکام رہی ہے کیونکہ کسٹم ڈپارٹمنٹ نے نئے ویب پر مبنی ون کسٹم رول کے تحت برآمدی سامان کی کلیئرنگ کو لازمی قرار دے دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ زیادہ تر کسٹم کلیئرنگ ایجنٹس کے دفاتر میں بجلی فراہم نہیں کی جاتی جبکہ ڈی ایس ایل انٹرنیٹ سروس انتہائی سست اور ناقص ہے جس سے ان کا کاروبار بری طرح متاثر ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: طورخم سرحد سے 4 دن میں 20 ہزار افغان باشندوں کی وطن واپسی

مظاہرین نے اپنی پریشانیوں کے حل کے لیے کسٹم اور سیکیورٹی عہدیداروں، دونوں کے ساتھ میٹنگ بھی کی لیکن فائدہ نہیں ہوا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ اس ہڑتال سے افغانستان سے تازہ پھل اور دیگر اشیا کی درآمد بھی متاثر ہوئی اور سامان کے ساتھ لدی سیکڑوں گاڑیاں سرحد کے دونوں اطراف پھنس گئیں۔

انہوں نے کہا کہ فی الحال طورخم بارڈر کے راستے پاکستان نے سیمنٹ، تازہ سنترے اور خوردہ سامان برآمد کیا لیکن برآمدی اشیا کی کافی دیر تک جاری رہنے والی الیکٹرانک اسکیننگ کی وجہ سے افغانستان میں برآمدات بری طرح متاثر ہوئیں۔

افغانستان کو بذریعہ طورخم بارڈر برآمدات میں 30 فیصد اضافے کے سرکاری دعوے کو مسترد کرتے ہوئے مقامی کلیئرنگ ایجنٹس کا اصرار ہے کہ ماضی میں 600 سے 800 ٹرک کے مقابلے میں بھرے ہوئی ٹرکوں اور کنٹینرز کی مجموعی تعداد روزانہ صرف 100 رہ گئی ہے۔

مزید پڑھیں: پاک-افغان سرحد پر کارگو ٹرکوں کی آمدورفت بحال کرنے کا فیصلہ

پاکستان نے گزشتہ سال ستمبر میں اعلان کیا تھا کہ وہ افغانستان کے ساتھ اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لیے طورخم بارڈر کو 24/7 کھلا رکھیں گے۔

تاہم کلیئرنگ ایجنٹس نے بتایا کہ کسٹم حکام مقامی درآمد کنندگان اور برآمد کنندگان کو ضروری سہولیات فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

سرحد پر کسٹم حکام کا کہنا تھا کہ ان کے افغان ہم منصبوں کا تعاون نہ کرنا ایک اہم وجہ تھی جو 24 گھنٹے سرحدی گزرگاہ کو کھولنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مارچ میں کورونا وائرس کے پھیلنے کی وجہ سے ملک کے ساتھ افغانستان کی تمام سرحدوں کی بندش نے طورخم بارڈر پر تجارتی سرگرمیوں کو بھی متاثر کیا تھا اور مقامی تاجروں کو بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا 15 جولائی سے واہگہ بارڈر سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ بحال کرنے کا اعلان

اس کے علاوہ مقامی ٹرانسپورٹرز نے پاکستان اور افغانستان دونوں کے سیکیورٹی عہدیداروں کے خلاف شکایات کا اظہار کیا ہے کیونکہ انہیں سیکیورٹی انتظامات کے مطابق سرحد کے مخالف سمت اترنے کے لیے زیرو پوائنٹ پر اپنی گاڑیاں تبدیل کرنا پڑتی تھیں۔

ان کا مؤقف تھا کہ بھری ہوئی گاڑیوں کو تبدیل کرنے، تجارتی سامان کی لوڈنگ اور ان لوڈنگ اور خالی گاڑیوں کو واپس لانے میں کافی وقت ضائع ہوتا ہے اور یہ درآمد اور برآمدی سامان کی منظوری میں تاخیر کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں