لکھاری مصنف ہیں۔
لکھاری مصنف ہیں۔

ایک عام پاکستانی سے سکھوں کے بارے میں پوچھا جائے تو جواب ملے گا کہ لمبے بالوں کو پگڑیوں میں باندھے ہوئے لڑنے میں مہارت رکھنے والے افراد، جو ماہر کسان بھی سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ وہ طبقہ ہے جو پنجاب کے علاقے میں اپنے وطن کے حصول کی خواہش رکھتے ہیں، جہاں سے انہیں 1947ء میں بے دخل کردیا گیا تھا۔

سکھوں نے ننکانہ صاحب، پنجہ صاحب، کرتارپورر یعنی گرو ارجن دیو کی یادگار اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی جیسے کئی مقامات پاکستان میں چھوڑ دیے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ رومن کیتھولک عیسائیوں کو ویٹیکن سے نکال دیا جائے۔

لیکن بہت کم پاکستانی ہی سکھوں کو فائبر آپٹکس کے حوالے سے یاد کرتے ہیں۔ ڈاکٹر نریندر سنگھ کپانے ایک سکھ انجینئر تھے جنہوں نے فائبر آپٹکس کی دریافت کی تھی۔ وہ بھی اس وقت کہ جب ان کے فزکس کے پروفیسروں کا خیال تھا کہ روشنی کی لہریں مڑ نہیں سکتیں۔

مزید پڑھیے: فقیر چند کوہلی: پشاور کا وہ بیٹا جو بھارت میں ٹیکنالوجی کا انقلاب لے آیا

انہوں نے اپنی دریافت کو پیٹنٹ کروایا اور ٹیکنالوجی کے آنے والے انقلاب سے خوب فائدہ اٹھایا۔ اپنی بیش بہا دولت کے ساتھ انہوں نے سکھ آرٹ اور ثقافت کے تحفظ کی کوشوں کا آغاز کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے نمائشوں، اشاعت اور لیکچرز کا انعقاد کرکے اپنے مذہبی تصورات کو بھی عام کرنے کی کوشش کی۔

1999ء میں انہوں نے لندن کے وکٹوریا اینڈ البرٹ میوزیم میں دی آرٹ آف سکھ کِنگڈمز کے نام سے ایک شاندار نمائش کا انعقاد کیا۔ وہاں مجھے معلوم ہوا کہ میرے پاس اور ان کے پاس مہاراجہ رنجیت سنگھ کی آخری بیوی مہارانی جندن کی تصاویر موجود ہیں۔ یہ تصاویر انگریز پینٹر جارج رچمنڈ نے 1860ء میں بنائی تھیں۔ میرے پاس رچمنڈ کا بنایا گیا پینسل اسکیچ تھا اور ڈاکٹر نریندر کے پاس آئل پینٹ سے بنی حتمی تصویر تھی۔

اس نمائش میں ہونے والے سیمینار میں ڈاکٹر نریندر نے نمائش کے اسپانسر ہونے کی وجہ سے کلیدی خطاب کرنا تھا۔ جیسے ہی انہوں نے اپنی سلائیڈز پر مبنی پریزنٹیشن شروع کی تو اسی وقت پروجیکٹر میں کچھ خرابی ہوگئی اور ان کی پریزنٹیشن کی سلائیڈز کی ترتیب خراب ہوگئی۔ اس کے باوجود کہ ان کی گفتگو اور ان کے پیچھے موجود اسکرین پر آنے والی تصویروں میں کوئی ربط نہیں تھا، انہوں نے اپنی تقریر جاری رکھی۔

ڈاکٹر نریندر نے جنوری 2005ء میں لاہور کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ ان کی سکھ فاؤنڈیشن کے ٹرسٹیز کو سکھوں کے ورثے کا دورہ کروایا جائے۔ میں انہیں لاہور اور شمالی علاقوں میں موجود سکھوں کے اہم مقامات پر لے گیا۔ انہوں نے بعد میں چیف سیکرٹری پنجاب، گورنر پنجاب اور وزیرِاعظم شوکت عزیز سے بھی ملاقات کی۔

ڈاکٹر نریندر نے ننکانہ صاحب میں سکھ یاتریوں کے لیے پنج ستارہ ہوٹل کے قیام اور لاہور کے قلعے میں سکھ گیلری کی تزئین نو کا منصوبہ پیش کیا، جہاں ہنگری کے ایک فنکار آگسٹ شافٹ کی 1840ء میں بنائی گئی سکھ دربار کی پینٹنگ نمائش کے لیے موجود ہیں۔ لیکن اربابِ اختیار میں وہ جذبہ موجود نہیں تھا جو ڈاکٹر نریندر کو پاکستان کھینچ لایا تھا۔

مزید پڑھیے: کراچی کی سکھ برادری کہاں ہے؟

میں نے ان کی سادگی کا مظاہرہ اس وقت دیکھا جب ہم پنجہ صاحب پر رکے۔ وہ دوپہر کے کھانے کا وقت تھا۔ ڈاکٹر صاحب اور ان کے امریکی ساتھی جو خود بھی بہت دولت مند تھے، لنگر کے لیے فرش پر بچھے دسترخوان پر بیٹھ گئے۔ کھانے میں دال، چاول اور ان میں موجود کچھ عام سی سبزیاں تھیں جسے ایک بالٹی سے نکال کر تھالیوں میں پیش کیا جارہا تھا۔

انہوں نے ہاتھ سے کھانا کھایا اور بغیر فلٹر ہوا پانی بلا جھجک پی لیا۔ یہ اخلاق اور مساوات کا ایسا سبق تھا جو سکھوں کو آپس میں جوڑے رکھتا ہے۔ میں نے ایسا ہی منظر امرتسر میں ہرمندر صاحب میں دیکھا۔ جب میں نے وہاں موجود شخص کو اپنے جوتے تھمائے تو اس نے اس کا معاوضہ لینے سے انکار کردیا۔ یاد رہے کہ وہ کوئی ٹھیکے دار نہیں بلکہ ایک نیورو سرجن تھا، جو خدمت کے لیے وہاں موجود تھا۔

ڈاکٹر نریند نے مجھے پیشکش کی کہ مجھے واشنگٹن اور نیویارک کے میوزم میں سکھ آرٹ کی تاریخ کے حوالے سے لیکچر دینے چاہئیں۔ وہ اور میں آخری مرتبہ فروری 2013ء میں ملے تھے۔ وہ سکھ خالصہ کے 300 برس مکمل ہونے پر انند پور میں وراثتِ خالصہ میوزیم کے افتتاح کے موقع پر امرتسر آئے تھے۔

مزید پڑھیے: گوتم بدھ اب ہمیں سوات میں دیکھ سکتے ہیں

ہم نے ساتھ کھانا کھایا، اور ان کا اصرار تھا کہ میں انند پور میں ان کے ساتھ رہوں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنے میزبان سے رابطہ کرنے کی خاطر فون کیا، اور کچھ منٹ بعد وہ بہت مایوس ہوکر واپس لوٹے اور کہا ’تمام کمرے بک ہیں، اور ان کے پاس کوئی اضافی بستر بھی نہیں ہے‘۔ ہم دونوں ہی کو معلوم تھا کہ ویزا ہونے کے باوجود بھی ایک پاکستانی کے لیے کمرے کیوں دستیاب نہیں تھے۔

ڈاکٹر نریندر اور میں ای میل اور فون کے ذریعے رابطے میں رہے۔ وہ چاہتے تھے کہ میں پالو آلتو (کیلیفورنیا) میں ان سے ملاقات کروں جہاں انہوں نے بے مثال سکھ نوادرات رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مجھے ان کی سکھ فاؤنڈیشن کا ٹرسٹی بننے کی بھی پیشکش کی لیکن سیاست اور دیگر مسائل آڑے آگئے۔

ڈاکٹر نریندر 3 دسمبر 2020ء کو 94 سال کی عمر میں کئی اعزازات، بے شمار دولت اور اپنی برادری میں ایک نام بنانے کے بعد انتقال کرگئے۔ وہ اپنی پوری زندگی میں بہت مثبت رہے اور کبھی کسی چیز کا افسوس ظاہر نہیں کیا۔ لیکن اگر انہیں کوئی افسوس ہوتا تو وہ یہ خواہش ہوتی کہ پاکستان میں موجود خطرے سے دوچار سکھ ورثے کا تحفظ کیا جائے۔


یہ مضمون 10 دسمبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Muhammad riaz Dec 15, 2020 09:16am
Very good