برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی نے برٹش۔سوئیڈش کمپنی ایسٹرازینیکا کے ساتھ مل کر ایک کورونا وائرس چاڈ آکسل این کوو 19 کو تیار کیا، جس کا استعمال 4 جنوری سے برطانیہ میں شروع کردیا گیا ہے۔

یہ ویکسین کورونا وائرس سے تحفظ کے لیے 70 سے 90 فیصد تک موثر قرار دی جارہی ہے، جس کا انحصار پہلے ڈوز کی مقدار پر ہے۔

پاکستان میں یہ کورونا وائرس کی پہلی ویکسین ہے جس کی منظوری دی گئی ہے۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کو بتایا کہ 'ڈریپ نے ایسٹرازینیکا کی ویکسین کی ہنگامی صورتحال میں استعمال کی اجازت دے دی ہے'۔

بھارت نے بھی اس ویکسین کے استعمال کی منظوری دی اور وہاں اسے کووی شیلڈ کا نام دیا گیا ہے۔

مگر یہ ویکسین کیسے لوگوں کو کووڈ 19 سے بچانے میں مدد دیتی ہے؟

کورونا وائرس کا ایک حصہ

نیا کورونا وائرس اپنے پروٹینز یا اسپائیک پروٹٰن کی مدد سے انسانی خلیات میں داخل ہوتا ہے، اسپائیک پروٹینز کو ہی ویکسینز کا ہدف بنایا گیا ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کی یہ ویکسین کورونا وائرس کے جینیاتی مواد پر مبنی ہے، مگر فائزر۔ بائیو این ٹیک اور موڈرینا کی ایم آر این اے ویکسینز کے برعکس اس ویکسین کے لیے ڈبل آر این اے کو استعمال کیا گیا۔

ایڈنووائرس کا ڈی این اے

آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین نے کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین کے جین کو ایک اور وائرس ایڈنووائرس میں شامل کیا۔

ایڈنو وائرسز موسمی نزلہ زکام یا فلو جیسی علامات کا باعث بنتے ہیں اور آکسفورڈ کی ٹیم نے ویکسین کے لیے ایک چیمپینزی ایڈنووائرس کا تدوین شدہ ورژن استعمال کیا، جو خلیات میں داخل تو ہوسکتا ہے مگر اپنی نقول نہیں بناسکتا۔

ایڈنو وائرس پر مبنی پہلی ویکسین کی عام استعمال کی منظوری جولائی میں دی گئی تھی جو ایبولا کے لیے تیار ہوئی تھی۔

اس کے مزید کلینیکل ٹرائلز دیگر امراض بشمول ایچ آئی وی اور زیکا پر بھی کیے جارہے ہیں۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کی یہ ویکسین فائزر اور موڈرینا کے مقابلے میں زیادہ سخت جان ہے اور اس کا ڈی این اے آر این اے جتنا نازک نہیں۔

ایڈنووائرس کا سخت پروٹین کوٹ اس کے اندر موجود جینیاتی مواد کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے منجمد رکھنے کی ضرورت نہیں۔

یہ ویکسین 2 سے 8 سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر فریج میں رکھنے پر کم از کم 6 ماہ تک کام کرسکتی ہے۔

خلیات میں داخلہ

جب اس ویکسین کو کسی فرد کے بازو میں انجیکٹ کیا جاتا ہے، ایڈنووائرسز خلیات کی جانب بڑھتے ہیں اور ان کی سطح پر موجود پروٹینز کو للچاتے ہیں۔

اس طرح خلیات وائرس کو اپنے اندر داخل کردیتے ہیں اور وہاں پہنچچ کر یہ خلیات کے ڈی این اے محفوظ رکھنے والے حصوں میں پہنچ جاتا ہے۔

ایڈنووائرس اپنے ڈی این اے کو اس حصے میں شامل کرتا ہے، چونکہ یہ تدوین شدہ وائرس ہے تو اپنی نقول نہیں بناپاتا مگر خلیات کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین کو پڑھنے کی صلاحیت حاصل کرلیتے ہیں اور ایک مالیکیول بناتے ہیں جسے ایم آر این اے کہا جاتا ہے۔

اسپائیک پروٹین بنانا

یہ ایم آر این اے خلیات کے ڈی این اے کے حصوں میں رہ جاتا ہے اور خلیات کے مالیکیولز اس کے سیکونس کو پڑھ لیتے ہیں اور وہ اسپائیک پروٹینزز کو بنانا شروع کردیتے ہیں۔

یہ تیار ہونے والے کچھ اسپائیک پروٹینز خلیات کی سطح پر پہنچ کر وہاں ٹک جاتے ہیں، جبکہ ویکسینیٹڈ خلیات کچھ پروٹینز کو ذرات میں بدل دیتے ہیں جو سطح پر موجود رہتے ہیں۔

اسپائیک پروٹین کے یہ ذرات مدافعتی نظام شناخت کرلیتا ہے۔

ایڈنووائرس مدافعتی نظام کو خلیات کے الارام سسٹمز کے ذریعے متحرک کرتا ہے، خلیات کی جانب سے قریب موجود مدافعتی خلیات کو متحرک ہونے کے انتباہی سگنلز بھیجے جاتے ہیں۔

اس الارم کے نتیجے میں آکسفورڈ ویکسین کے استعمال سے مدافعتی نظام اسپائیک پروٹینز کے لیے خلاف ٹھوس انداز سے ردعمل ظاہر کرتا ہے۔

حملہ آور کو شناخت کرنا

جب ویکسین والے خلیات مرجاتے ہیں، تو ان کے ملبے میں اسپائیک پروٹینز اور پروٹین کے ذرات ہوتے ہیں جو ایک قسم مدافعتی خلیے اینٹی جن میں بدل جاتے ہیں۔

ان خلیات کی سطح پر اسپائیک پروٹین کے ذرات موجود ہوتے ہیں، جب دیگر خلیات یعنی ٹی سیلز ان ذرات کو پکڑتے ہیں تو وہ الارم بجاتے ہیں، تاکہ دیگر مدافعتی خلیات کو بیماری میں لڑنے کے لیے مدد مل سکے۔

اینٹی باڈیز تیار کرنا

دیگر مدافعتی خلیات جن کو بی سیلز کہا جاتا ہے، وہ ویکسین والے خلیات کی سطح میں موجود اسپائیک یا آزاد ہوکر تیرنے والے وائرل ذرات سے ٹکراتے ہیں۔

ان میں سے کچھ بی سیلز اسپائیک پروٹینز کو جکڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اگر ان بی سیلز کو ٹی سیلز نے متحرک یا ہو تو وہ ایسی اینٹی باڈیز خارج کرنے لگتے ہیں جو اسپائیک پروٹین کو ہدف بناتے ہیں۔

وائرس کو روکنا

یہ اینٹی باڈیز کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین کو اپنی جانب للچاتی ہیں، جس کے بعد وائرس کو تباہ کرنے اور اسپائیک پروٹینز کو دیگر خلیات سے جڑنے کے عمل سے روک کر بیماری سے تحفظ فراہم کرتی ہیں۔

متاثرہ خلیات کو مارنا

اینٹی جن والے خلیات میں ایک اور قسم کا مدافعتی خلیات کلر ٹی سیلز بھی متحرک ہوتے ہیں جو کورونا وائرس سے متاثر تمام خلیات کو دریافت کرکے تباہ کرتے ہیں۔

وائرس کو یاد رکھنا

اس ویکسین کو 2 خوراکوں میں استعمال کرایا جاتا ہے جو 4 ہفتوں کے وقفے سے دی جاتی ہیں، تاکہ مدافعتی نظام کو کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے تیار ہوسکے۔

کلینیکل ٹرائل کے دوران محققین نے غلطی سے کچھ رضاکاروں کو پہلا ڈوز آدھی مقدار میں دیا۔

حیران کن طور پر کم مقدار والے پہلے ڈوز کے ساتھ مکمل دوسرا ڈوز استعمال کرنے والے افراد میں یہ ویکسین کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے 90 فیصد تک موثر دریافت ہوئی۔

اس کے مقابلے میں دونوں بار مکمل ڈوز استعمال کرنے والے افراد میں یہ شرح 62 فیصد تک تھی۔

چونکہ یہ ویکسین نئی ہے، اس لیے محققین کو علم نہیں کہ اس سے ملنے والا تحفظ کتنے عرصے تک برقرار رہ سکتا ہے۔

ایسا ممکن ہے کہ ویکسینیشن کے چند ماہ بعد اینٹی باڈیز اور ٹی سیلز کی شرح میں کمی آجائے، مگر مدافعتی نظام میں خصوصی خلیات ہوتے ہیں جن کو میموری بی سیلز اور میموری ٹی سیلز کہا جاتا ہے، جو ممکنہ طور پر کئی برس یا دہائیوں تک کورونا وائرس سے متعلق معلومات کو اپنی حد تک محفوظ رکھتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں