میری جائے پیدائش ’سوات‘ ہر لحاظ سے ایک منفرد علاقہ ہے۔ یہاں بیک وقت کئی قسم کے سیاحتی مواقع موجود ہیں۔ یعنی قدرتی مناظر، تاریخی مقامات، مذہبی مقامات اور ثقافتی سیاحت سمیت آثارِ قدیمہ کی سیاحت کے مواقع بھی شامل ہیں۔

نیمو گرام کا شمار سوات کے ان علاقوں میں کیا جاتا ہے جہاں آثارِ قدیمہ کی سیاحت کے ساتھ ساتھ قدرتی مناظر کی سیاحت بھی کی جاسکتی ہے۔ باقی پاکستان کو تو ایک طرف رکھیے، خود اہلِ سوات کی ایک بڑی تعداد بھی نیمو گرام کے تاریخی حوالوں سے لاعلم ہے۔

نیمو گرام کے آثار تحصیل بریکوٹ کے علاقہ شموزی میں ایک ایسی جگہ پر موجود ہیں جہاں سے پورا علاقہ دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ ایک طرح سے بہترین اسٹریٹجک پوائنٹ ہے۔ جتنے آثارِ قدیمہ پر اب تک میرا کام ہوا ہے بیشتر آثار ایسی ہی کسی پہاڑی کی چوٹی پر قائم ہیں۔

نیمو گرام آثارِ قدیمہ سے نظر آنے والا علاقہ
نیمو گرام آثارِ قدیمہ سے نظر آنے والا علاقہ

نیمو گرام کے آثار تک کیسے پہنچا جاسکتا ہے؟

ان آثار کا شمار بلاشبہ سوات کے خوبصورت ترین آثار میں ہوتا ہے جہاں ایک ٹکٹ میں 2 نہیں بلکہ 3 مزے لیے جاسکتے ہیں۔

پہلا مزہ

پہلا مزہ دوسری اور تیسری صدی کے تاریخی آثار سے آگاہی حاصل کرنے کا ہے، جو آج بھی اچھی شکل میں موجود ہیں۔

دوسرا مزہ

دوسرا مزہ یہ کہ آثار پُرسکون جگہ پر واقع ہیں جہاں فیملی کے ساتھ پورا دن گزارا جاسکتا ہے، بشرط یہ کہ کھانے پینے کا بندوبست آپ کا اپنا ہو۔ وہاں پر کوئی ہوٹل، ریسٹورینٹ حتیٰ کہ تقریباً 2 کلومیٹر کے احاطہ میں کوئی جنرل اسٹور یا کریانے کی دکان بھی موجود نہیں ہے۔

تیسرا مزہ

تیسرا مزہ یہ کہ اگر گاڑی نیچے مین روڈ پر کھڑی کی جائے تو 2 کلومیٹر کی زبردست ہائیکنگ کا نادر موقع ضائع ہونے سے بچ سکتا ہے۔ یوں ایک پیارے اور محدود سے گاؤں اور اس میں رہنے والوں کے طرزِ زندگی اور ان کے مسائل سے آگاہی بھی حاصل ہوجائے گی۔

نیمو گرام کے آثار سکندرِ اعظم کے شہر بازیرہ (اب بریکوٹ) سے محض 40 منٹ کی ڈرائیو پر واقع ہیں۔ اس حوالے سے سوات کے آثارِ قدیمہ میں خصوصی دلچسپی لینے والے سینئر صحافی فضل خالق اپنی کتاب ’اُدھیانہ: سوات کی جنت گم گشتہ‘ کے صفحہ نمبر 79 پر رقم کرتے ہیں کہ ’یہ بریکوٹ سے تقریباً 22 کلومیٹر دُور دریائے سوات کے دائیں کنارے شموزو میں چونگی زرہ خیلہ کے علاقہ سبو خپہ میں ایک پہاڑی کے اوپر واقع ہیں‘۔

نیمو گرام میں آنے والے سوات کے ایک نجی ٹریکنگ کلب کے ممبرز تاریخی آثار پر روشنی ڈال رہے ہیں
نیمو گرام میں آنے والے سوات کے ایک نجی ٹریکنگ کلب کے ممبرز تاریخی آثار پر روشنی ڈال رہے ہیں

چھوٹے اسٹوپوں کا بیک ویو
چھوٹے اسٹوپوں کا بیک ویو

چھوٹے اسٹوپوں میں سے ایک اور اسٹوپے کا منظر
چھوٹے اسٹوپوں میں سے ایک اور اسٹوپے کا منظر

نیموگرام آثار کی تفصیل

’اُدھیانہ: سوات کی جنت گم گشتہ‘ کی ورق گردانی سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ ان تاریخی آثار کی کھدائی 68ء-1967ء میں کی گئی۔ فضل خالق اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’نیمو گرام کے آثار کی کھدائی پاکستان کے ماہرین آثارِ قدیمہ نے کی ہے‘۔

آثار کی تفصیلی کتاب کے صفحہ 79 میں کچھ یوں موجود ہے کہ ’یہ آثار ایک قطار میں شمال سے جنوب کی جانب 3 بڑے اسٹوپوں اور 56 چھوٹے اسٹوپوں پر مشتمل ایک بڑے صحن کے ساتھ مغرب کی طرف خانقاہ پر مشتمل ہیں‘۔

آثار میں نجی ٹریکنگ کلب کے ممبرز تصویر کشی میں مصروف ہیں
آثار میں نجی ٹریکنگ کلب کے ممبرز تصویر کشی میں مصروف ہیں

ایک چھوٹے اسٹوپے پر نظر آنے والا ستون نما کام
ایک چھوٹے اسٹوپے پر نظر آنے والا ستون نما کام

نیمو گرام کا مرکزی اسٹوپا
نیمو گرام کا مرکزی اسٹوپا

مرکزی اسٹوپے کا عقبی منظر
مرکزی اسٹوپے کا عقبی منظر

جب ان آثار کا بغور جائزہ لیا جاتا ہے تو آدمی 1900 سال پرانے دُور کی انجینئرنگ کی صلاحیتوں کی داد دینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اسٹوپوں کی گولائی، ان میں بنائے گئے مختلف ڈیزائنز اور سیڑھیوں کا جائزہ لینے کے بعد مجھ جیسے آرٹ کے دلدادہ حیرت میں پڑجاتے ہیں۔

کھدائی کے دوران جو سکّے ملے تھے ان سے اندازہ لگایا گیا کہ نیمو گرام کے آثار دوسری اور تیسری صدی عیسوی کے ہیں۔ ملنے والے یہ سکّے کشان دور کے تھے۔

’اُدھیانہ: سوات کی جنت گم گشتہ‘ کے صفحہ نمبر 80 پر سکّوں کے ساتھ اس دور کے مجسمے ملنے کا بھی ذکر موجود ہے۔ ’سکّوں کے علاوہ یہاں سے بڑی تعداد میں ساکا پارتھیئن دور کے مجسمے جو بدھ مت کی مختلف داستانوں کو ظاہر کرتے ہیں، ملے ہیں‘۔

نیمو گرام کے 56 چھوٹے اسٹوپوں میں سے ایک
نیمو گرام کے 56 چھوٹے اسٹوپوں میں سے ایک

ایک اور چھوٹا اسٹوپا
ایک اور چھوٹا اسٹوپا

کشان (Kushans) کون تھے؟

فضل خالق اپنے ایک مقالے ’گندھارا‘ میں اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’تقریباً 80 صدی عیسوی میں کشان نے پارتھیوں اور سیتھیوں سے گندھارا کی حکمرانی چھین کر یہاں کی باگ ڈور سنبھالی جنہوں نے ٹیکسلا میں دوسرے مقام پر نئے شہر کو آباد کرتے ہوئے اس کو ’سرسک‘ کا نام دیا۔ یہ شہر ایک بڑے فوجی اڈے کا تصور دیتا ہے جس کے اردگرد 5 کلومیٹر لمبی اور 6 میٹر چوڑی دیوار بنائی گئی تھی۔ یہ شہر بدھ مت کی سرگرمیوں کا مرکز تھا اور یہاں وسطی ایشیا اور چین سے زائرین آتے تھے۔ کشان دور میں فنِ گندھارا، طرزِ تعمیر اور ثقافت سب انتہائی اعلیٰ درجہ کو پہنچا۔ اسے تاریخ میں سنہری دور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

چھوٹے اسٹوپوں میں سے ایک جس کا انوکھا فنِ تعمیر دل کھینچنے کا سامان بنتا ہے
چھوٹے اسٹوپوں میں سے ایک جس کا انوکھا فنِ تعمیر دل کھینچنے کا سامان بنتا ہے

ایک اور چھوٹے اسٹوپے پر ہونے والا منفرد کام
ایک اور چھوٹے اسٹوپے پر ہونے والا منفرد کام

’دراصل کشان ایک قبیلہ تھا جو پہلی صدی میں وسطی ایشیا اور افغانستان سے یہاں ہجرت کرکے آیا تھا۔ کشان قبیلے نے اپنے اقتدار کے مقام کے لیے پشاور کا انتخاب کیا تھا۔ بعد میں مشرق کی طرف مرکزی ہندوستان تک اس کو وسعت دیتے ہوئے کشان سلطنت کا قیام عمل میں آیا جو تیسری صدی عیسوی تک قائم رہی۔

’تقریباً 241 صدی عیسوی میں فارس کے ساسانیوں نے شاپور اوّل کی بادشاہت میں کشانوں کو شکست دی اور اسی طرح گندھارا سلطنت، فارس کے ساتھ ملحق ہوئی لیکن ساسانی اپنی مغربی اور شمالی سرحدوں کے مسائل کی وجہ سے براہِ راست گندھارا پر حکمرانی نہ کرسکے اور یوں یہ علاقہ کشان کی اولاد کیدار کشان یعنی چھوٹے کشان کے زیرِ اثر آیا‘۔

ایک خوبصورت چھوٹے اسٹوپے کا منفرد طرزِ تعمیر ملاحظہ ہو
ایک خوبصورت چھوٹے اسٹوپے کا منفرد طرزِ تعمیر ملاحظہ ہو

دیگر اسٹوپوں کے ساتھ شان سے کھڑا چھوٹا اسٹوپا
دیگر اسٹوپوں کے ساتھ شان سے کھڑا چھوٹا اسٹوپا

ساکا پارتھیئن (Scytho-Parthians) کون تھے؟

فضل خالق صاحب کی کتاب میں ساکا پارتھیئن کو ’تورانی یا سیتھی، پارتھیائی‘ لکھا کیا گیا ہے جبکہ تفصیل کچھ یوں درج ہے کہ ’وسطی ایشیائی تورانی یا سیتھی خانہ بدوش قبیلوں کی پنجاب میں سرائیت 110 قبلِ مسیح میں شروع ہوئی تھی۔ یہ قبیلے شمالی علاقوں، جیسا کہ پکتیا پر حملہ کرنے کے عادی تھے، مگر ماضی میں ہخا منشیوں نے انہیں ایسا کرنے سے باز رکھا تھا۔ یہ قبیلے علاقہ درنجیانہ جو موجودہ ایران میں سیستان کے نام سے پہچانا جاتا ہے، میں آباد ہوئے۔ یہاں سے انہوں نے پنجاب پر قبضہ کرلیا اور آہستہ آہستہ شمالی وادیٔ سندھ سے ہوتے ہوئے آخرکار ٹیکسلا پر قابض ہوگئے۔ پہلی صدی کی پہلی سہ ماہی میں پارتھیوں نے سیتھیوں کو زیرِ اثر لاتے ہوئے گندھارا اور پنجاب پر قبضہ کرلیا اور یوں سیتھی اور پارتھی آپس میں خلط ملط ہوگئے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں