پاکستانی کرکٹ میں غیر یقینی کی صورتحال پائی جارہی ہے، اور حالیہ ناکامیوں نے اس میں کچھ مزید اضافہ کردیا ہے۔

آپ ذہن میں کچھ زور ڈالیے اور ایسے افراد کا خاکہ ذہن میں بنانے کی کوشش کریں جو قومی ٹیم کے موجودہ سیٹ اپ کا حصہ رہنے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں، اور یہ خاکہ کسی بھی طرح اچھا دکھائی نہیں دے رہا۔

اب جبکہ جنوبی افریقی ٹیم 13 سال کے طویل انتظار کے بعد پاکستان میں موجود ہے تو یہ خاکہ مزید بُری شکل اختیار کرتا ہوا نظر آرہا ہے، اتنا بُرا جس کا آپ نے شاید تصور نہ کیا ہو۔

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی کرکٹ کمیٹی کا جب نئے چیئرمین اور عمران خان کے ہم عصر وکٹ کیپر اور بلے باز سلیم یوسف کی سربراہی میں اجلاس ہوا تو مصباح الحق اور وقار یونس کو ان کی ذمہ داریوں سے ہٹایا نہیں گیا۔ ویسے بھی جنوبی افریقی ٹیم کے پاکستان آنے سے صرف 3 دن پہلے ہیڈ کوچ اور باؤلنگ کوچ کو ان کے منصب سے ہٹانا بہت معیوب لگتا۔

ٹائیگر کے نام سے مشہور سلیم یوسف یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ کورونا وائرس نے ٹیم پر منفی اثرات مرتب کیے اور اسی وجہ سے دورہ نیوزی لینڈ میں قومی ٹیم کی کارکردگی متاثر کن نہیں رہی۔ قومی ٹیم کی کارکردگی کسی بھی طور پر کین ولیمسن کی قیادت میں کھیلنے والی میزبان ٹیم کے قریب نہیں رہی تھی، وہی ولیمسن جنہوں نے 2 میچوں کی سیریز میں تقریباً 400 رنز بنا کر آئی سی سی کے ٹیسٹ بلے بازوں کی فہرست میں پہلی پوزیشن پر قبضہ جمالیا ہے۔

مزید پڑھیے: جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز اور ٹیم سلیکشن کے مسائل

اگر کسی کھلاڑی کی جانب سے کچھ مزاحمت کی گئی تو وہ فواد عالم تھے جنہوں نے اپنے مستقبل کے حوالے سے ہونے والی چہ مگوئیوں کا جواب اپنی کارکردگی سے دیا۔

35 سالہ فواد عالم نے بین الاقوامی کرکٹ میں اس صدی کی بہترین سنچریوں میں سے ایک سنچری بنائی۔ ان کی اس کوشش کی بدولت ماؤنٹ مونگانی میں کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ میچ میں قومی ٹیم کو صرف101 رنز سے ہی شکست ہوئی، لیکن کرائسٹ چرچ میں کھیلے جانے والے میچ میں ایک اننگ اور 176 رنز سے ہونے والی شکست نے ٹیم کو توڑ کر رکھ دیا۔

جنوبی افریقہ کے خلاف 2 ٹیسٹ اور 3 ٹی20 میچوں کے لیے برقرار رکھے جانے والے مصباح کا کہنا تھا کہ ’مجھے احتساب سے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن آپس میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں اعتماد، تسلسل اور وضاحت کی ضرورت ہے۔ بہتری آنے میں وقت لگتا ہے اور ہمیں اس پر ضرورت سے زیادہ ردِعمل نہیں دینا چاہیے۔ ہمارے پاس نوجوان اور غیر تجربہ کار کھلاڑی ہیں اس وجہ سے نتیجہ حاصل کرنے میں وقت لگ رہا ہے‘۔

ان کی نرم مزاجی کو دیکھتے ہوئے انہیں ہیڈ کوچ کے کردار کے لیے بہت ہی نرم دل سمجھا جاتا ہے خاص طور پر جب، تب ان کے پاس چیف سلیکٹر کا عہدہ بھی تھا۔ یہ ایک ایسا تجربہ تھا جس کے تباہ کن نتائج برآمد ہونے تھے اور جس پر ہمیشہ ایک سوالیہ نشان موجود رہا۔

اگر ہیڈ کوچ کے طور پر مصباح کے ریکارڈ کو دیکھا جائے تو اس میں ہوم گراؤنڈ میں صرف 2 فتوحات نظر آئیں گی۔ پہلی سری لنکا کے خلاف اور دوسری بنگلادیش کے خلاف۔ مصباح کی نگرانی میں کھیلے گئے 10 ٹیسٹ میچوں میں سے تقریباً نصف میں قومی ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک روزہ میچوں میں وہ ٹیم کے لیے بہتر ثابت ہوئے اور ٹیم نے 5 میں سے 4 میچوں میں فتح حاصل کی۔

رواں سال اکتوبر اور نومبر کے مہینے میں شیڈول بھارت میں منعقد ہونے والے ٹی20 ورلڈ کپ کے حوالے سے مصباح کی سربراہی میں قومی ٹیم کی تیاریاں بھی ملی جلی ہی ہیں۔ اس مختصر فارمیٹ میں ٹیم کو 7 مرتبہ فتح اور 8 مرتبہ شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جیت اپنا ایک اثر رکھتی ہے خاص طور سے پاکستان میں جہاں مداحوں کو کھلاڑیوں سے بہت امیدیں ہوتی ہیں اور اگر وہ امیدیں پوری نہ ہوں تو پھر مداح اپنے جذبات کا اظہار بھی کرتے ہیں۔

نیوزی لینڈ میں شکست کے بعد قومی ٹیم میں سنجیدہ اصلاحات کی ضرورت تھی۔ نئے چیف سلیکٹر محمد وسیم نے معاملات کو امید کے مطابق آگے بڑھایا۔ تاہم سابق چیف سلیکٹر انضمام الحق کی طرح اور بھی کچھ افراد کو محمد وسیم کے انتخاب پر تحفظات ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ انضمام کو اس لیے بھی تحفظات ہوں کہ ان کے بھتیجے امام الحق کو منتخب نہیں کیا گیا۔ امام الحق بھی بابر اعظم کی طرح دورہ نیوزی لینڈ کے دوران چوٹ لگنے کے باعث سیریز نہیں کھیل سکے تھے اور انہیں وطن واپس بھیج دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیے: آئیں 13 سال پہلے جنوبی افریقہ کے دورہ پاکستان کو یاد کریں

نئے چیف سلیکٹر کی جانب سے ہونے والی کاٹ چھانٹ ٹیم کے لیے کیسی رہے گی اس بارے میں بات کرنا ابھی قبل از وقت ہے۔ لیکن جس امر کی تعریف کی جانی چاہیے وہ یہ ہے کہ عام ذہنیت میں اب تبدیلی آرہی ہے۔ کوئی بھی اس فرق کو محسوس کرسکتا ہے کہ اب ڈومیسٹک مقابلوں کو بھی اہمیت دی جارہی ہے اور ان میں نمایاں کارکردگی دکھانے والوں کو ان کی محنت کا صلہ بھی مل رہا ہے۔ یہ ایک ایسی چیز تھی جو ماضی میں نظر نہیں آتی تھی اور اسی وجہ سے ٹیم کی سلیکشن پر ’اقربا پروری‘ اور اس جیسے دیگر لیبل لگ جایا کرتے تھے۔

ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ نووارد کھلاڑی بین الاقوامی کرکٹ کے لیے کس حد تک تیار ہیں۔ سعود شکیل، ساجد خان، نعمان علی، تابش خان، سلمان علی آغا اور حارث رؤف جیسے کھلاڑیوں کو چاہیے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے اوپر کیے گئے اعتماد پر پورا اتریں۔ اس کے علاوہ اگر ان میں سے کسی کو بھی 16 رکنی ٹیم میں شامل نہیں کیا جاتا تو انہیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، 20 رکنی اسکواڈ کے لیے منتخب ہونا ہی ایک حوصلہ افزا بات ہے۔

اس دوران کچھ نئے طرح کے چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑے گا اور ہوسکتا ہے کہ اس وجہ سے کرکٹ پر کم توجہ کچھ کم ہوجائے۔ 28 سالہ جنوبی افریقی کپتان کوئنٹن ڈی کاک نے پاکستان پہنچنے کے بعد میڈیا سے بات چیت کے دوران کہا کہ پاکستان کے خلاف کھیلنے سے زیادہ مشکل کام بائیو سیکیور ببل میں خود کو محفوظ رکھنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ’اس وبا نے سب کو ہی متاثر کیا ہے، کوئی اس سے ذہنی طور پر متاثر ہوا ہے تو کوئی جذباتی طور پر۔ لیکن ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ ہم ایک عرصے بعد پاکستان میں جنوبی افریقی ٹیم کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے بائیو سیکیور ببل ہر چیز پر حاوی ہوگیا ہے‘۔

ڈی کاک نے مزید کہا کہ ’یہاں کے حالات ہمارے ملک سے بہت زیادہ مختلف ہیں لیکن ہم جتنی ممکن ہے اتنی تیاری کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ہوم گراؤنڈ پر پاکستان ایک مشکل ٹیم ثابت ہوسکتی ہے۔ پاکستان کوئی واحد ٹیم نہیں ہے جسے نیوزی لینڈ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، ہمیں بھی وہاں کافی مشکل کا سامنا رہا۔

’ہمیں اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ نیوزی لینڈ کے دورے میں بابر اعظم دستیاب نہیں تھے اور پاکستان کو اپنے بہترین بلے باز کے بغیر کھیلنا پڑا۔ وہ ایک بہترین کھلاڑی ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس بار ہمیں ایک نئی ٹیم سے مقابلہ کرنا ہے اور ہم انہیں ہوم گراؤنڈ پر آسان ہدف نہیں سمجھیں گے‘۔

جنوبی افریقی کپتان نے اس بات کا بھی اشارہ دیا کہ ان کی ٹیم نیٹ میں غیر معمولی پریکٹس کرے گی۔ ’ہم یہاں سلو پچ پر اسپن باؤلنگ کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔ کراچی میں ہونے والے پہلے ٹیسٹ سے پہلے ہم خود کو یہاں کی پچ کے حساب سے ڈھالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہم نے ابھی ساجد خان اور نعمان علی کو تو نہیں دیکھا لیکن پاکستان جس ٹیم کا بھی انتخاب کرے ہم اس حوالے سے مطمئن نہیں ہوسکتے کیونکہ ہم جانتے ہیں بابر کتنے بہترین کھلاڑی ہیں‘۔

دورہ نیوزی لینڈ کی وجہ سے پاکستانی ٹیم کا اعتماد بحال نہیں ہے، اور پاکستان کے پاس اس سیریز میں گنوانے کے لیے کچھ نہیں ہے جبکہ تاریخ بھی یہ بتاتی ہے کہ میزبان ٹیم کو اس سیریز میں اپنی پوری صلاحیت بروئے کار لانی ہوگی۔ جنوبی افریقی ٹیم پاکستان میں اس سے پہلے 3 ٹیسٹ سیریز کھیل چکی ہے جن میں سے 1997ء اور 2007ء کی سیریز میں اسے کامیابی حاصل ہوئی۔ 1997ء میں اس کے کپتان ہینسی کرونیے اور 2007ء گریم اسمتھ تھے۔

اس سیریز میں اس وقت ایک اور تاریخ رقم ہوگی جب 132 ٹیسٹ میچوں میں آئی سی سی کے ایلیٹ امپائر بننے کا ریکارڈ رکھنے والے علیم ڈار اپنے ملک میں پہلی مرتبہ ٹیسٹ میچ کی امپائرنگ کریں گے۔

آخر میں کم از کم ایک چیز کو تو ضرور سراہنا چاہیے کہ ایک ایسے وقت میں جب ٹیمیں قرنطینہ میں وقت گزارنے کے خوف سے غیر ملکی دوروں سے اجتناب کر رہی ہیں تب ایک بڑی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Farooq Jan 25, 2021 06:00pm
بندے کے پتروں کی طرح کھیلنا ہوگا!!! That's all!!!