فائل فوٹو

گلگت: پاک فوج پہلی دفعہ گلگت سے 128 کلو میٹر دور ضلع دیامر کے ہیڈ کوارٹر چلاس کے علاقے میں داخل ہو گئی ہے جہاں اس نے سیکیورٹی آفیشل کے قتل میں ملوث افراد کے خلاف آپریشن شروع کر دیا ہے جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ مذکورہ افراد دہشت گردی کی دیگر کارروائیوں میں بھی ملوث ہیں۔

انتظامیہ کے ایک آفیشل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاک فوج کے دستے شہر میں داخل ہو گئے ہیں اور انہوں نے پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے اور ان مخصوص افراد کو ڈھونڈنے کیلیے چار علاقوں تلاشی بھی لی جا چکی ہے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ اس آپریشن کی قیادت اعلیٰ افسران کر رہے ہیں تاہم ابھی تک حتمی صورتحال کے بارے میں پولیس یا انتظامیہ میں سے کسی کو بھی علم نہیں۔

پاک فوج کے ہیلی کاپٹر بھی علاقے کی فضائی نگرانی کر رہے ہیں جبکہ شہر کے تمام داخلی اور خارجی راستے بند کر دیے گئے ہیں جس کے باعث دور دراز علاقوں سے آنے والے افراد کو اسپتال پہنچنے میں شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اس علاقے کے لوگوں نے شہر میں فوج کی بھاری نفری کے پیش نظر نماز عید کی باجماعت ادائیگی کے بعد عید گھروں کے اندر گزاری۔

ایک مقامی رپورٹر محمد اسلم نے ڈان ڈاٹ کام کو فون پر بتایا کہ یہ ایک غیر معمولی اور انوکھا واقعہ ہے لہٰذا لوگ خاصے ڈر گئے اور انہوں نے گھروں پر رہنے کو ترجیح دی کیونکہ شہر کے وسط میں آپریشن شروع کرنے کے بعد فوج نے لوگوں کی نقل و حرکت پر ویسے بھی پابندی عائد کر دی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ مارکیٹیں وغیرہ بند ہیں اور شہر میں بھی لوگوں کے آنے جانے پر پابندی عائد ہے لیکن لوگوں کو اپنے مریضوں کو علاقے کے صرف سپتال تک لیجانے کی اجازت ہے۔

علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ شام میں کچھ دکانیں تھوڑی دیر کیلیے کھلی تھیں۔

علاقے کے سب سے بڑے مذہبی رہنما مولانا محمد ایاز جنہوں نے عید کی نماز بھی پڑھائی تھی، نے غیر ملکیوں اور تین سیکیورٹی آفیشلز کے قتل میں ملوث افراد پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔

انہوں نے عوامی اجتماع سے خطاب میں کہا کہ ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ لوگ مسلمان ہیں، یہ لوگ تو انسان کہلانے کے بھی مستحق نہیں، ہم اس فعل کی سختی سے مذمت کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسے افراد کو سلاخوں کے پیچھے دھکیلے۔

انہوں نے کہا کہ ہم حکومت کے ساتھ ہیں اور ایسے لوگوں کو ضرور گرفتار کرنا چاہیے، اللہ ایسے لوگوں کو جہنم رسید کرے۔

اس کے علاوہ مغربی چلاس سے 80 کلو میٹر فاصلے پر واقع وادی دیرل کے گاؤں بروگی میں بھی فوجی دستے دہشت گردوں کی تلاش کیلیے پہنچ گئے جہاں اس آپریشن کی قیادت اے ایس پی ہیڈ کوارٹر چلاس محمد نوید کر رہے ہیں۔

وادی دیرل میں رابطہ نہ ہونے کے باعث وہاں کی صورتحال کا اندازہ نہیں ہو سکا۔

اس تمام تر کارروائی کے حوالے سے آفیشل کچھ بھی بتانے کو تیار نہیں اور انہوں نے اپنے لب سیے ہوئے ہیں جبکہ وہ ماضی کے برعکس فون کال بھی نہیں اٹھا رہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں آپریشن کی تکمیل تک کچھ بھی نہ بتانے کی سختی سے ہدایت کی گئی ہے۔

انتظامیہ اور پولیس کچھ بھی بتانے میں انتہائی ہچکچاہٹ کا شکار ہیں اور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ معلومات کیلیے مزید انتظار کیا جائے۔

ایک پولیس آفیشل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ آپ دیکھیں ہمیں بالکل کوئی آئیڈیا نہیں کہ کیا ہو رہا ہے، سرچ آپریشن جاری ہے اور لوگوں کو حراست میں بھی لیا گیا ہے لیکن ہم آپ کو قیدیوں کی تعداد کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتا سکتے، اور جب تک ہمیں خود معلوم نہ ہو جائے، ہم آپ کو بھی ان لوگوں کی شناخت کے بارے میں نہیں بتا سکتے۔

ایک اور آفیشل نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ میں آپ کو جو واحد چیز بتا سکتا ہوں وہ چاروں علاقوں کے نام ہیں، کے کے ایچ ایریا، جلیل محلہ، شاہین کوٹ اور تکیہ پوائٹ کے علاقوں میں سرچ آپریشن کیا گیا۔

لوگوں کی جانب سے اس آپریشن میں کسی بھی قسم کی مزاحمت نہیں کی گئی اور سرچ آپریشن انتہائی پرسکون انداز میں جاری ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں