بک ریویو: اے پرومیسڈ لینڈ

اپ ڈیٹ 09 مارچ 2021
اس مرتبہ وہ امریکی سرحدوں کے اندر اور باہر قوم کی ترقی اور زوال کے ایسے موضوع پر بات کرنے کی تیاری کر رہے ہیں جس سے اکثر افراد کتراتے ہیں۔
اس مرتبہ وہ امریکی سرحدوں کے اندر اور باہر قوم کی ترقی اور زوال کے ایسے موضوع پر بات کرنے کی تیاری کر رہے ہیں جس سے اکثر افراد کتراتے ہیں۔

سابق امریکی صدر براک اوباما نے 1995ء میں ’ڈریمز فرام مائی فادر‘ کے عنوان سے اپنی یادداشتیں کتابی صورت میں شائع کی تھیں۔ اس وقت وہ شکاگو کے ایک پُرعزم سیاستدان کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور اس کتاب میں انہوں نے امریکا میں موجود ’انفرادی ترقی اور اجتماعی زوال کے دوہرے احساس‘ کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے سنجیدگی ظاہر کی تھی۔

انہوں نے یہ فیصلہ اپنے ذاتی نقصانات، نسلی امتیازات اور ہجرتوں کے باعث کیا تھا۔ اور اب کچھ عشروں اور 2 مدت صدارت کے بعد اوباما نے ایک کامیاب سیاستدان کی حیثیت سے اپنے اس سفر پر دوبارہ نظر ڈالی ہے۔ اس مرتبہ وہ امریکی سرحدوں کے اندر اور باہر قوم کی ترقی اور زوال کے ایسے موضوع پر بات کرنے کی تیاری کر رہے ہیں جس سے اکثر افراد کتراتے ہیں۔

’اے پرومِسڈ لینڈ‘ 2 کتابوں پر مشتمل سلسلے کی پہلی کتاب ہے۔ یہ کتاب بطور 44ویں امریکی صدر (2009ء تا 2017ء) اوباما کی یادداشتوں پر مشتمل ہے۔

قابلِ ستائش پیش بینی کے ساتھ لکھی گئی ان یادداشتوں میں بدلتے ہوئے امریکا میں شناخت کی سیاست کے ارتقا کے ساتھ ساتھ فوجی مداخلتوں، انسدادِ دہشتگردی کے اثرات اور سفارتی طاقت کے کھیل میں امریکا کے اثر و رسوخ قائم کرنے کی حد پر نظر ڈالی گئی ہے۔

اوباما نے کتاب میں اپنی اہلیہ مشعل کے کردار اور ان کے ساتھ اپنی ہم آہنگی کا ذکر بھی کیا ہے۔ انہوں نے ایک ایسے امریکا کی منظر کشی کی ہے جہاں سیاسی قیادت کا مستقبل ہر وقت بدلتا رہتا ہے۔

امریکی خارجہ پالیسی کا ’دوہرا رویہ‘

کتاب کے نصف اوّل میں اوباما نے امریکی خارجہ پالیسی، بڑے پیمانے پر ہونے والی فوجی مداخلتوں اور ملک کی قومی سلامتی کے قیادت کے ساتھ ہم آہنگی کی ضرورت میں شناخت کی سیاست پر گہرائی میں بات کی ہے۔

اوباما نے اپنے دورِ صدارت کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’سیاہ فام افریقی کا بیٹا جو مسلمان نام اور سوشلسٹ نظریات رکھتا ہو اور جو پوری امریکی انتظامیہ کی کمان کرتا ہو، ایک ایسی صورتحال تھی جس سے وہ (امریکی شہری) ہمیشہ سے بچنا چاہتے تھے‘۔

اوباما کا کہنا ہے کہ کئی ایشیائی اور لاطینی امریکی ممالک میں امریکی پالیسیوں کی وجہ سے جابر فوجی آمروں کو عروج حاصل ہوا۔ اوباما نے اسے امریکی خارجہ پالیسی کا ’دوہرا رویہ‘ کہا ہے اور، ان کا خیال ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے امریکا کے انتخابی حقائق کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔

اوباما نے تسلیم کیا کہ ان کی مدتِ صدارت کے دوران ان کے حامیوں نے امریکی خارجہ پالیسی کے دوہرے رویے کو ’خارجہ پالیسی کی مضبوطی‘ کی دلیل کے طور پیش کیا جبکہ ان کے مخالفین نے اسے اوباما کی کمزوری کے طور پر دیکھا اور ان کی حب الوطنی پر شک کیا۔

اوباما کے اس محتاط خیال کے پیچھے موجود حقیقت جو بائیڈن کے 46ویں امریکی صدر بننے کے بعد ہونے والے پُرتشدد مظاہروں میں سامنے آگئی۔ رواں سال جنوری میں کیپیٹل ہل میں ہونے والی کشیدگی کے بعد بائیڈن کوشش کر رہے ہیں کہ اظہارِ رائے کے حوالے سے فراہم شدہ آئینی آزادی اور امریکی نظامِ انتخاب کے باغی پُرتشدد مزاحمت کاروں کے درمیان فرق کرسکیں۔

اوباما اور بائیڈن کے آزاد خیال تجربے کا خلاصہ یہ ہے کہ جب تک امریکا میں پُرامن بقائے باہمی کے داخلی کرداروں میں ہم آہنگی نہیں ہوگی تب تک امریکی ’اثر و رسوخ کے قیام‘ کے حوالے سے غیر ملکی شکوک و شبہات برقرار رہیں گے۔

افغانستان میں فوجی مداخلت

فوجی مداخلت اور خاص طور پر افغانستان میں فوجی مداخلت کے حوالے سے اومابا کا خیال یہ ہے کہ ساری توجہ عسکریت پسندی کے خطرے کو کم کرنے پر ہونی چاہیے پھر چاہے اس کے لیے القاعدہ پر ہی نظر رکھنی ہو۔

اوباما نے خبردار کیا ہے کہ ’اگرچہ طالبان کے عزائم صرف افغانستان تک محدود تھے تاہم ان کی قیادت القاعدہ کے ساتھ رابطے میں تھی۔ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے اس بات کا خطرہ موجود ہوگا کہ افغانستان دوبارہ امریکا اور اس کے اتحادیوں پر حملے کرنے والوں کی آماج گاہ بن جائے گا‘۔

آج کی صورتحال میں یہ مشاہدہ درست بھی معلوم ہوتا ہے۔ طالبان کے مختلف گروہوں پر القاعدہ کے اثر و رسوخ کے اثرات بعد میں طالبان کی جانب سے اختیار کیے گئے پُرامن رویے پر اثر انداز ہوئے۔ اس کے علاوہ اس کے کئی جنگجو آج بھی افغانستان میں امریکی افواج پر حملوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

’القاعدہ کے خاتمے‘ کے حوالے سے اوباما کی توجہ اور اس پر اصرار کرنا کابل سے متعلق موجودہ امریکی خارجہ پالیسی میں ایک تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے, یا پھر اسے ایک تجویز بھی کہہ سکتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے رویے کی وجہ سے امریکا کو احساس ہی نہیں ہوا کہ القاعدہ طالبان گروہوں کے ساتھ بات چیت میں شریک ہے۔ یوں جانچ پڑتال کی کمی کی وجہ سے ایک سپرپاور طالبان اور القاعدہ کے جنگجوؤں کے تعلقات ختم نہ کرسکی۔

تاہم خطرات کو کم کرنے سے متعلق اوباما کی بھوک سفارتی محاذ پر ختم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ ان محاذوں میں چین کے ساتھ جاری سفارتی کشیدگی اور اسرائیل کے ساتھ اتحاد کا معاملہ شامل ہے۔

چین کے ساتھ آزاد تجارت

چین کے حوالے سے اوباما لکھتے ہیں کہ ’میں نے آزادانہ تجارت کے مخالف بیانیے کی کبھی حمایت نہیں کی۔ میرا خیال ہے کہ ہم عالمگیریت کو مکمل طور پر کبھی بھی نہیں روک سکتے‘۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ وہ لاکھوں لوگوں کو انتہائی غربت سے نکالنے کو چین کی ایک بڑی ’انسانی کامیابی‘ سمجھتے ہیں۔

لیکن اوباما کے الفاظ یہ ہیں کہ چین کے حوالے سے ان کے خیالات کو امریکا کے سیاسی حلقوں میں زیادہ پذیرائی نہیں ملی۔ انہوں نے واشنگٹن کے ایک مضبوط تھریٹ کیلکولس کا ذکر کیا جس کے مطابق عالمی اسٹیج پر چین کے عروج کی قیمت بہرحال امریکا کو ادا کرنی ہوگی۔

اوباما انتظامیہ نے چین کے ساتھ کھلی محاذ آرائی سے بچنے کے لیے ہر حربہ اپنایا۔ یوں یہ بات حیرت کا سبب تھی کہ اوباما ’نظریاتی حدود‘ سے بالاتر ہوکر شراکت داری کے ممکنہ مواقعوں سے بھی دُور رہے۔ ممکنہ طور پر دنیا کے سب سے نتیجہ خیز دو طرفہ تعلقات کے لیے اس قسم کی غلطی ٹرمپ کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کی صورت میں سامنے آتی ہے جس کا تباہ کن نتیجہ نکلتا ہے۔

امریکا - اسرائیل تعلقات

اسرائیل کے حوالے سے بات کی جائے تو اوباما کو اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے 2 ریاستی فارمولے سے کچھ زیادہ امیدیں نہیں ہیں۔ وہ ستمبر 2000ء کا ذکر کرتے ہیں کہ جب اس وقت کے ایک مقبول اسرائیلی سیاستدان (اور بعد کے وزیرِاعظم) نے 'یروشلم میں القدس کا ایک اشتعال انگیز دورہ‘ کیا تھا، مسلمانوں کے لیے اس جگہ کی ایک خاص اہمیت ہے۔ اس دورے کا مقصد انتخابی مقاصد کا حصول اور ایک بڑے علاقے پر اسرائیل کے قبضے کا اعلان کرنا تھا۔ اوباما نے یاد کروایا کہ ’امن مذاکرات کے حوالے سے اسرائیل کا رویہ بہت سخت ہوگیا تھا‘۔

یہ ایک اہم سیاسی یاد دہانی ہے۔ اسرائیلی وزیرِاعظم بن یامین نیتن یاہو مارچ میں منعقد ہونے والے انتخابات میں دوبارہ کامیاب ہونے کے لیے مقبوضہ مغربی کنارے پر نئی بستیوں کی تعمیر کی بات کر رہے ہیں۔ دوسری جانب انہوں نے عرب طاقتوں کو بھی فلسطین کے مسئلے پر خاموشی اختیار کرنے پر راضی کرلیا ہے۔

اوباما نے اس بات کا بھی اشارہ دیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ میں امریکا کی امن سے متعلق کوششیں کچھ زیادہ سود مند ثابت نہیں ہوں گی۔ اپنے جانشین کی طرح اوباما نے بھی اسرائیل کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی وقت کے ساتھ ساتھ ’منافقت اور اسرائیل کی یک طرفہ مذمت کرنے کا فورم‘ بن چکی ہے۔ یہ امریکی عہدے دار ہی تھے جنہوں نے اسرائیل کے خلاف اقوامِ متحدہ کو غیر جانبدار رکھنے کی کوشش کی اور اسرائیل کی وسیع البنیاد مخالفت کو کم کیا۔

مضبوط جذباتی بنیاد

یہ بات یاد رکھیے کہ اوباما صرف ایک قابل سیاستدان ہی نہیں بلکہ ایک لائق مصنف اور مشہور مقرر بھی ہیں جو اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو ایک مضبوط جذباتی بنیاد سے منسوب کرتے ہیں۔ یہ بات ان کی اہلیہ مشعل کے ساتھ ان کی رفاقت میں واضح ہے۔ اوول آفس کے اندر مشعل نے ہی اوباما کو ’ذہن کی جگہ دل اور تجزیہ کی جگہ تجربے سے‘ آگے بڑھنے کا فن سکھایا۔ اتفاق رائے پیدا کرنے کا یہی وہ سبق تھا جسے اوباما نے کانگریس تک اپنے صدارتی سفر کے دوران عمل کے قالب میں ڈھالا۔

اسی طرح جب مشعل نے امریکا میں جاری صنفی جدوجہد میں ایک علامت بننے سے انکار کیا، جس سے میڈیا کو بہت مایوسی ہوئی، تو اوباما نے سیکھا کہ مشعل کس طرح عوامی زندگی میں ایک نظم و ضبط برقرار رکھتی ہیں۔

اور بالآخر اپنی مدت صدارت کے دوران انہیں اس بات کا احساس ہوا کہ اس طرح کی جذباتی بنیاد سیاست میں ان کے لیے فائدہ مند تھی۔ ایک مضبوط مرکز کی وجہ سے اوباما نے آسانی سے اپنے آپ میں ایک قومی رہنما کی خوبیاں پیدا کرلیں اور اس کے علاوہ انہوں نے کامیابی سے حزبِ اختلاف کا بھی مقابلہ کیا۔ انہوں نے اپنی انتظامیہ میں پارٹی سیاست سے بالاتر ہوکر دوسری پارٹی سے بھی افراد کو شامل کیا۔

افورڈ ایبل کیئر ایکٹ، پیرس معاہدہ، ایران جوہری معاہدہ اور صنفی امتیاز کو ختم کرنے کے حوالے سے اٹھائے جانے والے آئینی اقدامات اوباما کے دورِ صدارت کے پالیسی اقدامات تھے جو کامیاب بھی رہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر قاری کو اندازہ ہوا کہ ایک صدر کو ملنے والی اس کامیابی میں ذاتی تعلقات کی کتنی اہمیت تھی۔

لیکن اگر اوباما کی خارجہ پالیسی اور سفارتی نقطہ نظر کی بات کی جائے یا قومی شناخت کے مسائل کو دیکھا جائے تو 700 صفحات پر مشتمل ان یادداشتوں میں ان کا کم ہی جواب ملتا ہے۔


کتاب کا نام: A Promised Land

مصنف: براک اوبامہ

صفحات: 768

اشاعت: 2015

ناشر: کراون پبلشنگ گروپ، امریکا

آئی ایس بی این: 978-1524763169

تبصرے (0) بند ہیں