پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا چھٹا سیزن کراچی میں جاری ہے۔ اس ٹورنامنٹ کے 8ویں دن 2 میچ کھیلے گئے۔ پہلے میچ میں ناقابلِ شکست لاہور قلندرز کا مقابلہ اپنے دونوں ابتدائی میچ ہارنے والی ٹیم ملتان سلطانز سے تھا جبکہ دوسرے میچ میں پشاور زلمی کا مقابلہ ٹورنامنٹ میں اپنی پہلی فتح کے لیے کوشاں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز سے تھا۔ ان دونوں میچوں کا جائزہ قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے

لاہور قلندرز بمقابلہ ملتان سلطانز

لاہور قلندرز کی غیر متاثر کن بیٹنگ

پی ایس ایل کے موجودہ سیزن میں ٹاس جیتنے والے کپتان بلا جھجک مخالف ٹیم کو بیٹنگ کی دعوت دے رہے ہیں اور اس میچ میں بھی ایسا ہی ہوا۔

پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے قلندرز کی ابتدائی 2 وکٹیں جلد گرنے کے بعد جو ڈینلی اور محمد حفیظ نے 89 رنز کی شاندار شراکت قائم کرکے اپنی ٹیم کے لیے ایک بڑا اسکور کرنے کی بنیاد رکھ دی، لیکن اننگ کے 14ویں اوور میں 106 کے مجموعی اسکور پر ڈینلی کی وکٹ کرگئی۔ اس شراکت کے ٹوٹنے کے بعد قلندرز کی وکٹیں تیزی کے ساتھ گرنا شروع ہوگئیں اور یوں قلندرز 6 وکٹوں کے نقصان پر صرف 157 رنز ہی بناسکے۔

محمد حفیظ کی شاندار فارم

پی ایس ایل کے اس موجودہ سیزن میں محمد حفیظ تسلسل کے ساتھ اسکور کر رہے ہیں اور اس میچ میں بھی ان کی فارم کا سلسلہ جاری رہا۔ ابتدائی دونوں میچوں میں ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے حفیظ نے اپنے تجربے کو استعمال کرتے ہوئے اپنی ٹیم کی جیت میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اور آج جب وہ مخالف ٹیم کو ہدف دینے کے لیے کھیل رہے تھے تو بھی انہوں نے مشکل وقت میں بیٹنگ کے لیے آنے کے باوجود بہت دلیری سے کھیلا اور جب تک وہ کریز پر موجود تھے یہ امید برقرار تھی کہ قلندرز باآسانی ایک بڑا اسکور کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

لیکن جب 17ویں اوور میں حفیظ 60 رنز کی شاندار اننگ کھیل کر آؤٹ ہوئے تو باقی آنے والے کھلاڑی اچھا فنش نہیں کرسکے اور یوں ملتان کے لیے محض 158 رنز کا ہدف ہی ہوسکا۔

شاہنواز دھنی اور کارلوس بریتھویٹ کی وکٹیں

شاہنواز دھنی لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے ایک ابھرتے ہوئے نوجوان فاسٹ باؤلر ہیں۔ ان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ انہیں پی ایس ایل میں اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقع میسر آیا جہاں پوری دنیا ان کو دیکھ رہی ہے۔

دھنی نے اب تک اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ اگرچہ وہ رنز تو دے رہے ہیں لیکن ساتھ اہم وکٹیں بھی حاصل کر رہے ہیں۔ آج بھی اس اہم میچ میں انہوں نے قلندز کے 2 جارحانہ مزاج بیٹسمین فخر زمان اور ڈیوڈ ویزے کو پویلین بھیج کر مخالف ٹیم کو کم اسکور تک محدود کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

میدان میں دھنی کے سب سے اچھے دوست ویسٹ انڈیز کے طویل قامت باؤلر کارلوس بریتھویٹ ہیں۔ دھنی کی طرح اس میچ میں انہوں نے بھی 2 اہم وکٹیں حاصل کیں اور دھنی کی باؤلنگ پر کیچ لے کر اپنے دوست کی بھی وکٹ کے حصول میں مدد کی۔

شاہین شاہ آفریدی کا ملتان پر وار

شاہین شاہ آفریدی کی شاندار باؤلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کی ٹیم پہلے بیٹنگ کرے یا باؤلنگ، شاہین شاہ ہر صورتحال میں خود کو ٹیم کے لیے ایک کارآمد کھلاڑی ثابت کر رہے ہیں۔ آج بھی جب ان کی ٹیم ایک کم اسکور کا دفاع کر رہی تھی تو شاہین نے پہلے ہی اوور میں کرس لین کی وکٹ حاصل کرکے ملتان کو ایک جھٹکا ضرور دیا۔

شاہین اب تک تسلسل کے ساتھ اچھی باؤلنگ کر رہے ہیں، اگر ان کی باؤلنگ فارم جاری رہے اور ان کو اپنے دوسرے باؤلرز کے ساتھ فیلڈرز کی مدد بھی میسر رہے تو وہ اپنی ٹیم کو اگلے مرحلے تک لے جانے کی پوری اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں۔

محمد رضوان اور صہیب مقصود کی فتح گر شراکت

اگرچہ ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے ملتان کی ابتدائی 2 وکٹیں محض 30 رنز پر گر گئیں تھیں لیکن کپتان محمد رضوان اور صہیب مقصود نے گھبرانے کے بجائے اطمینان سے اننگ کو جاری رکھا اور 110 رنز کی شراکت قائم کرکے اپنی ٹیم کی جیت کی بنیاد رکھ دی۔

اگر رضوان کی بات کریں تو وہ اپنے کیریئر کی بہترین فارم میں ہیں۔ ٹی20 کرکٹ میں اوپننگ پوزیشن پر بیٹنگ ان کو راس آرہی ہے۔ انہوں نے مختصر طرز کی کرکٹ میں اپنی گزشتہ 6 اننگز میں 89، 104، 51، 42، 71 اور 76 رنز بنائے۔

ملتان کے لیے ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ بہت عرصے سے فارم کے متلاشی صہیب مقصود بھی اچھا کھیل رہے ہیں اور اس اننگ میں انہوں نے زبردست 61 رنز بنائے۔ اگر وہ اسی طرح کھیلتے رہے تو ملتان کو یقینی طور پر اس سے بہت فائدہ ہوگا۔

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز بمقابلہ پشاور زلمی

دوسرا میچ پی ایس ایل کی 2 روایتی حریف ٹیموں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور پشاور زلمی کے مابین کھیلا گیا۔ اس میچ میں بھی قسمت کی دیوی سرفراز احمد پر مہربان نہیں ہوئی اور وہ ٹورنامنٹ میں اپنا تیسرا ٹاس ہار کر ایک مرتبہ پھر پہلے بیٹنگ کرنے پر مجبور کردیے گئے۔

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی بیٹنگ کا محور ان کے کپتان سرفراز احمد اور نوجوان اعظم خان کے مابین صرف 52 گیندوں پر ہونے والی 105 رنز کی شاندار شراکت تھی۔ اس میچ سرفراز احمد خوب فارم میں دکھائی دیے اور انہوں نے صرف 40 گیندوں پر 81 رنز کی شاندار اننگ کھیلی جبکہ ان کا بھرپور ساتھ اعظم خان نے دیا جنہوں نے 26 گیندوں پر 47 رنز بنائے۔ ابتدائی طور پر جلدی وکٹیں گرنے کے باوجود یہ انہی دونوں کھلاڑیوں کی کارکردگی تھی جس کی بدولت کوئٹہ 198 رنز تک پہنچنے میں کامیاب رہا۔

وہاب ریاض کی کیریئر کی خراب ترین باؤلنگ

اگر پی ایس ایل کے چھٹے سیزن کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو وہاب ریاض اس لیگ کے سب سے کامیاب باؤلر ہیں لیکن موجودہ سیزن میں وہ بجھے بجھے دکھائی دے رہے ہیں، اور کوئٹہ کے خلاف اس میچ میں تو ان کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی۔ خراب صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ انہوں نے اپنے 4 اوورز میں 54 رنز دیے۔ یہ ٹی20 کرکٹ میں وہاب ریاض کا سب سے مہنگا اسپیل ہے۔

ثاقب محمود کا جادوئی اوؤر

پشاور کی جانب سے اننگ کا آخری اوور ثاقب محمود نے کروایا اور کیا ہی شاندار اوور کروایا۔ اس اوور سے پہلے واضح طور پر لگ رہا تھا کہ کوئٹہ باآسانی 210 رنز تک پہنچ جائے گا، مگر ثاقب محمود کے ارادے کچھ اور ہی تھے۔ انہوں نے اپنے اس جادوئی اوور کی پہلی، دوسری اور پانچویں گیند پر وکٹیں حاصل کیں، جبکہ ان کے اس اوور میں بیٹ سے صرف 2 رنز بنے جبکہ 3 رنز ایکسٹراز کے تھے۔ یوں ثاقب اپنی کرشماتی باؤلنگ سے کوئٹہ کو 200 رنز سے کم اسکور پر محدود کرنے میں کامیاب رہے۔

پشاور کا آغاز

ایک بڑے ہدف کے تعاقب میں جب پشاور نے اپنی اننگ شروع کی تو اس کو ابتدا ہی میں کامران اکمل کا نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ دن بیٹنگ کے لحاظ سے وکٹ کیپرز کے لیے اچھا جا رہا تھا اور امید تھی کہ شاید آج کامران اکمل بھی اپنی کھوئی ہوئی فارم بحال کرلیں گے لیکن ایسا نہیں ہوسکا اور کامران اکمل صرف 3 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئے۔

حیدر علی کی شاندار بیٹنگ

حیدر علی ایک ایسے مشکل وقت میں بیٹنگ کے لیے آئے جب ٹیم کی 2 وکٹیں جلد گرچکی تھیں۔ پچھلے میچ میں اگرچہ وہ ایک دھواں دار اننگ کھیل کر اپنی ٹیم کو میچ جتوا چکے تھے لیکن آج جوش سے زیادہ ہوش سے کھیلنے کی ضرورت تھی اور خوش قسمتی سے انہوں نے اپنی اس ذمہ داری کو خوب سمجھا۔ انہوں نے پہلے امام الحق کے ساتھ تیسری وکٹ کے لیے 52 رنز کی شراکت قائم کی اور پھر شعیب ملک کے ساتھ بھی 52 رنز کی پارٹنرشپ لگائی اور صرف 29 گیندوں پر 50 رنز کی شاندار اننگ کھیل کر خود کو مین آف دی میچ کا حقدار بھی بنایا۔

شعیب ملک اور شیرفین روتھرفوڈ کی ذمہ دارانہ اننگز

اس اننگ میں شعیب ملک نے اپنے تجربے کا خوب استعمال کیا۔ انہوں نے شروع میں کوئی جلد بازی نہیں دکھائی بلکہ بتدریج اننگ کو آگے بڑھاتے رہے اور جہاں موقع ملا انہوں نے بڑے اسٹروک بھی کھیلے اور 34 رنز کی ایک اہم اننگ کھیلی۔

دوسری طرف شیرفین روتھرفورڈ نے بھی ایک اہم ترین اور فیصلہ کن اننگ کھیلی۔ اننگ کے ایک اہم موقع پر وہ خوش نصیب بھی ثابت ہوئے جب محمد نواز نے رن آؤٹ کرنے کا ایک مشکل مگر اہم موقع ضائع کردیا۔ بس پھر روتھرفوڈ نے اس غفلت کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور 4 بلند و بالا چھکوں کی مدد سے صرف 18 گیندوں پر 36 رنز کی ناقابلِ شکست اننگ کھیل کر اپنی ٹیم کو فتح دلوادی۔

وہاب ریاض نے جب باؤلنگ کی کسر بیٹنگ میں پوری کردی

وہاب ریاض کا آج گیند کے ساتھ تو دن بہت خراب رہا لیکن انہوں نے باؤلنگ کی اپنی ناکامی کی کسر بیٹنگ میں نکالی۔ 19ویں اوور کی چوتھی اور پانچویں گیند پر انہوں نے ڈیل اسٹین کو 2 فلک شگاف چھکے مار کر اپنی ٹیم کو فتح کے قریب پہنچا دیا۔ آخری اوور کی پہلی گیند پر وہ آؤٹ ضرور ہوگئے تھے لیکن اس وقت تک وہ اتنا کام کرچکے تھے کہ اب ان کی ٹیم کو فتح حاصل کرنے سے روکنا آسان نہیں تھا۔

سرفراز احمد کی کپتانی میں غلطیاں

سرفراز احمد ایک تجربہ کار کھلاڑی اور کپتان ہیں۔ اس ٹورنامنٹ میں بطور بیٹسمین وہ 2 اچھی اننگز کھیل چکے ہیں لیکن ایک کپتان کی حیثیت سے ان کے فیصلے درست ثابت نہیں ہو رہے۔

آج کے میچ میں امام الحق کے آؤٹ ہونے کے بعد جب شعیب ملک آئے تھے تو ان کو فوری طور پر ڈیل اسٹین یا حسنین میں سے کسی کو لانا چاہیے تھا لیکن انہوں نے زاہد محمود اور بین کٹنگ پر انحصار کیا۔

ایک اور غلطی عثمان شنواری پر انحصار ہے۔ اپنے ابتدائی اوورز میں شنواری کامران اکمل کی وکٹ حاصل کرکے اپنا کام کرچکے تھے اور اب ان کو مزید باؤلنگ دینے کی ضرورت نہیں تھی لیکن سرفراز نے شنورای سے پورے 4 اوور کروائے اور وہ مہنگے ثابت ہوئے۔

محمد نواز سے صرف 2 اوورز کروانا بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ نواز کو شعیب ملک کی موجودگی میں باؤلنگ کے لیے لانا شاید اچھا فیصلہ نہیں ہوتا لیکن ملک کے آؤٹ ہونے کے بعد نواز کی باؤلنگ کو آزمایا جاسکتا تھا۔ پی ایس ایل میں سرفراز کے لیے اسپنرز بہت کارآمد رہے ہیں لیکن آج میچ کے اہم لمحات پر ان کا اپنے فاسٹ باؤلرز پر اعتماد کرنا ان کے لیے اور ٹیم کے لیے نقصان کا باعث ثابت ہوا۔

ٹاس کی بڑھتی اہمیت ٹورنامنٹ کا مزا خراب کررہی ہے

پی ایس ایل کے سیزن 6 میں اب تک کھیلے گئے تمام مقابلے ہدف کا تعاقب کرنے والی ٹیمیں جیت رہی ہیں۔ دلچسپ اور حیران کن بات یہ ہے کہ یہ جیت اتنی یکطرفہ ہو رہی ہے کہ شائقین اور ناظرین کا اس امر پر بھروسہ بڑھ رہا ہے کہ ٹاس جیتنے والی ٹیم ہی میچ جیتے گی۔ ٹاس کی ہار اور جیت تو کپتانوں کے اختیار میں نہیں ہے لیکن ہدف کا دفاع کرنے والے کپتان اپنے جوش اور جذبات کو قابو رکھ کر اور ان کے کھلاڑی اچھی فیلڈنگ کرکے اس روایت کو تبدیل کرسکتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں