اقوام متحدہ کے پینل نے پاکستان میں میڈیا پر پابندیوں کو تشویشناک قرار دے دیا

اپ ڈیٹ 28 مارچ 2021
پینل نے اسلام آباد کو بتایا ہے کہ انہیں چند صحافیوں کے خلاف 'مبینہ طور پر بے بنیاد الزامات' کے سلسلے میں معلومات موصول ہوئی ہیں۔ - فائل فوٹو:اے ایف پی
پینل نے اسلام آباد کو بتایا ہے کہ انہیں چند صحافیوں کے خلاف 'مبینہ طور پر بے بنیاد الزامات' کے سلسلے میں معلومات موصول ہوئی ہیں۔ - فائل فوٹو:اے ایف پی

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ایک پینل نے پاکستان میں آزادی اظہار رائے پر 'پابندیوں کی خطرناک صورتحال' پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے صحافیوں کو ان کے حق کو استعمال کرنے کی اجازت دینے پر زور دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومتِ پاکستان کو ارسال کردہ دو دستاویزات میں پینل نے اسلام آباد کو بتایا کہ انہیں چند صحافیوں اور انسانی حقوق کے رضاکاروں کے خلاف 'مبینہ طور پر بے بنیاد الزامات' کے سلسلے میں معلومات موصول ہوئی ہیں۔

اقوام متحدہ کے منتخب نمائندوں آئرین خان، ایلینا اسٹینیرٹ اور مریم لاؤلر کے دستخط کردہ دستاویزات دو ماہ قبل حکومت پاکستان کے ساتھ شیئر کیے گئے۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں گزشتہ سال 10 صحافی قتل، متعدد گرفتار ہوئے، سی پی این ای

ان میں کی گئی شکایات میں ایسے مقدمات شامل ہیں جن کو پاکستان کی عدالتوں نے مسترد کردیا اور ساتھ ہی وہ مقدمات بھی شامل ہیں جن میں قانونی چارہ جوئی یا تفتیش جاری ہے اور چند ایسے کیسز ہیں جن میں صحافیوں سے پوچھ گچھ کی گئی یا دھمکیاں دی گئیں لیکن ان کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔

ایک صحافی گل بخاری کے خلاف مبینہ دھمکیوں کے خدشات کو سب سے پہلے 16 جولائی 2018 کو حکومت کو بتایا گیا تھا اور حکومت نے 5 اکتوبر 2018 کو ان شکایات کا جواب دیا تھا۔

دستاویز سے منسلک ایک نوٹ میں کہا گیا کہ 'نئے الزامات پر ہم ان کی صورتحال کے حوالے سے اب بھی تشویش کا شکار ہیں'۔

اس کے علاوہ ایک اور صحافی اسد علی طور کا معاملہ بھی اجاگر کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: صحافی، اشتہاری مجرمان کی تقاریر نشر کرنے پر پیمرا کی پابندی کے خلاف ڈٹ گئے

اسد علی طور، جو اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی ہیں، پر ہتک عزت اور غیر قانونی مواد شائع کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

حکومت نے کبھی بھی الزامات کی تفصیلات فراہم نہیں کیں اور بعدازاں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نے انہیں کلیئر قرار دیا تھا۔

حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے والی ایک رپورٹ کے بعد سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی عجیب علی لاکھو پر غیر قانونی تجارت اور ایرانی ڈیزل کی اسمگلنگ کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

2019 میں عجیب علی لاکھو نے تمام 21 مقدمات میں ایک درخواست جمع کروائی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ تمام الزامات 'جھوٹے اور غیر سنجیدہ ہیں'۔

درخواست کی جانچ پڑتال کے بعد سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ نے متعلقہ عدالتوں کو میرٹ پر فیصلہ کرنے کی ہدایت کی اور عجیب علی لاکھو کو بالآخر تمام الزامات سے بری کردیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں