کرکٹ، ایک ایسا کھیل جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بیٹسمین کے حق میں جھکتا چلا جا رہا ہے اور اب تو ہر دوسرا نیا قانون بلّے بازوں کے بھلے کے لیے ہی بنتا ہے۔

چاہے ون ڈے کرکٹ میں دونوں اینڈز سے الگ گیندوں کا استعمال کرنے کا قانون ہو کہ جس نے 'ریورس سوئنگ' کے امکانات صفر کردیے ہیں اور بلے بازوں نے سُکھ کا سانس لیا ہے یا پھر وبائی حالات میں بننے والا نیا قانون بھی کہ اب باؤلرز گیند کو چمکانے کے لیے تھوک کا استعمال نہیں کرسکتے۔ یعنی 'برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر!'

یہی نہیں، قانون سے ہٹ کر دیکھیں تو اخلاقی دباؤ بھی صرف باؤلرز اور فیلڈرز کے لیے رہ گیا ہے۔ 'منکڈ' ہی کو لے لیں، یعنی باؤلر کا گیند پھینکنے سے پہلے نان اسٹرائیکنگ بیٹسمین کو کریز سے باہر نکلنے سے پہلے رن آؤٹ کر دینا، جو سراسر بیٹسمین کی غلطی ہے کہ اسے گیند پھینکے جانے سے پہلے اپنی کریز نہیں چھوڑنی چاہیے، لیکن پھر بھی تقاضا یہ کیا جاتا ہے کہ ‘اخلاق’ کا مظاہرہ باؤلر کرے اور اگر کوئی ڈھیٹ بن کر بیٹسمین کو آؤٹ کردے تو اسے 'شرفا کے کھیل' کی بدنامی سمجھی جاتی ہے۔

اس تمہید کا مقصد یہ تھا کہ کرکٹ کو ایک متوازن کھیل ہونا چاہیے، جس میں گیند اور بلّے کا مقابلہ برابری کی بنیاد پر ہو۔ لیکن قانون تو قانون ہے، جب تک رائج ہے اس پر عمل کرنا پڑے گا تو جس قانون کا اس وقت بہت زیادہ شور مچا ہوا ہے وہ '41.5.1' ہے، جس کے مطابق ‘اسٹرائیک پر موجود بلے باز کے گیند کا سامنا کرنے کے بعد کسی بھی فیلڈر کی جانب سے زبانی کلامی یا عملی طور پر بلے باز کا ذہن منتشر کرنا، اسے جھانسا دینا یا اس کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنا نامناسب ہے’۔

مزید پڑھیے: دھوکا دہی سے رن آؤٹ، پاکستان ٹیم مینجمنٹ نے میچ ریفری سے شکایت کردی

کرکٹ قوانین کا رکھوالا ‘میریلبون کرکٹ کلب’ (ایم سی سی) کے مطابق قانون بالکل واضح ہے کہ جھانسا دینے کی کوشش ہی غیر قانونی ہے۔ اگر امپائر سمجھتے ہیں کہ یہ کوشش کی گئی ہے تو وہ بیٹسمین کو ناٹ آؤٹ قرار دیں گے، بیٹنگ کرنے والی ٹیم کو پنالٹی کے 5 رنز دیں گے اور ساتھ ہی یہ اختیار بھی کہ وہ اپنی مرضی کے بیٹسمین کو اسٹرائیک دے۔

اب اس منظرنامے کے ساتھ پاک-جنوبی افریقہ دوسرے ون ڈے انٹرنیشنل کے آخری اوور کو دیکھیں، جس میں پاکستان کو 31 رنز کی ضرورت تھی۔ پہلی گیند پر فخر زمان نے لانگ آف کی جانب شاٹ کھیلا اور دوڑ پڑے۔ جب وہ دوسرا رن مکمل کرنے کے لیے اپنے اینڈ کی طرف دوڑ رہے تھے تو جنوبی افریقی وکٹ کیپر کوئنٹن ڈی کوک نے فخر کی طرف دیکھتے ہوئے نان-اسٹرائیکنگ اینڈ کی جانب اس طرح اشارہ کیا گویا دوسرے اینڈ پر موجود بیٹسمین رن آؤٹ ہونے والا ہے۔ فخر زمان نے بھاگتے ہوئے مڑ کر پیچھے دیکھا لیکن وہاں تو ایسا کچھ نہیں تھا۔ دراصل لانگ آف سے آئیڈن مارکرم کا پھینکا گیا تھرو انہی کے اینڈ پر آ رہا تھا اور براہِ راست وکٹوں پر جا لگا۔ لمحے بھر کی جو غفلت پیچھے مڑ کر دیکھنے کی وجہ سے ہوئی، وہ کافی ثابت ہوئی اور فخر کی اننگز رن آؤٹ کے ساتھ اختتام کو پہنچی۔

یہ کوئی معمولی اننگز نہیں تھی، 342 رنز کے ہدف کے تعاقب میں جس ٹیم کی دوسری سب سے بڑی اننگز 31 رنز کی ہو اور تیسرے نمبر پر 'فاضل بھائی' 25 رنز کے ساتھ موجود ہوں، وہاں 155 گیندوں پر 18 چوکوں اور 10 چھکوں کی مدد سے 193 رنز بنانا ناقابلِ یقین لگتا ہے۔

پاکستان یہ میچ صرف 17 رنز سے ہارا اور اگر ڈی کوک کی اس حرکت کو غیر قانونی قرار دیا جاتا تو ہوسکتا تھا کہ نتیجہ کچھ اور ہوتا۔ کیونکہ قانون کے مطابق پاکستان کو فخر کے دوڑے گئے دونوں رنز ملتے، ساتھ ہی پنالٹی کے 5 رنز اور گیند بھی دوبارہ پھینکی جاتی یعنی ہدف 6 گیندوں پر 24 رنز ہوجاتا۔

بلاشبہ مارکرم کا تھرو کمال کا تھا جو اتنی دُوری سے پھینکے جانے کے باوجود براہِ راست وکٹ پر جا لگا لیکن بار بار دیکھنے سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اگر ڈی کوک ان کی توجہ دوسری جانب مبذول کرنے کی کوشش نہ کرتے تو فخر باآسانی کریز تک پہنچ جاتے۔ گوکہ فخر نے اس معاملے کی آگ بجھانے کی کوشش کی اور میچ کے بعد کہا کہ وہ آؤٹ ہونے کو اپنی غلطی سمجھتے ہیں۔

لیکن معاملہ صرف اس رن آؤٹ تک محدود نہیں۔ 47 ویں اوور میں جنوبی افریقی کپتان تمبا باووما کے ہاتھوں فخر زمان کا ایک کیچ چھوٹا تھا۔ اسے پکڑنے کے دوران گیند ان کی ٹوپی سے لگ گئی تھی۔ کرکٹ قانون 28.2.2 کے مطابق اگر فیلڈر کے جسم سے حادثاتی طور پر گرنے والی کوئی بھی چیز جو لباس کا حصہ ہو، گیند کو چھو جائے تو پنالٹی کے 5 رنز ملتے ہیں۔

یعنی یہ میچ مکمل طور پر امپائروں علا الدین پالیکر اور مرے ایرسمس کی نااہلی، یا پھر حب الوطنی، کا شاہکار تھے۔

لیکن پاکستانی شائقین کو اصل غم میچ کی شکست کا ہے ہی نہیں۔ ضروری نہیں کہ اس کے باوجود پاکستان میچ جیت جاتا، لیکن جس کا امکان بہت زیادہ تھا وہ فخر کی ڈبل سنچری تھی۔

فخر پاکستان کے لیے ون ڈے کرکٹ میں سب سے بڑی 210 رنز کی اننگز کا ریکارڈ رکھتے ہیں اور واحد بلے باز ہیں جنہوں نے ملک کے لیے اس فارمیٹ میں ڈبل سنچری بنا رکھی ہے۔ لیکن جوہانسبرگ میں ایک مرتبہ پھر 200 رنز کا ہندسہ عبور کرتے تو ون ڈے تاریخ کے پہلے بلے باز بن جاتے کہ جنہیں دوسری اننگز میں یہ کارنامہ انجام دینے کا اعزاز حاصل ہوا۔

اب تک تمام ون ڈے انٹرنیشنل میں جتنی ڈبل سنچریاں بنی ہیں، وہ پہلی اننگز میں بنائی گئی ہیں۔ دباؤ سے پاک حالات میں، جبکہ فخر کو جس صورتحال کا سامنا تھا، وہ کہیں گمبھیر تھی۔ دوسرے اینڈ سے وکٹیں گرتی جا رہی تھیں بلکہ 120 رنز پر آدھی ٹیم واپس جاچکی تھی۔ اس صورتحال میں کسی بلے باز کا ڈبل سنچری بنانا ایک بہت بڑا کارنامہ ہوتا۔

پھر بھی حالات اور واقعات کے تناظر میں فخر کی 193 رنز کی اننگ بلاشبہ ون ڈے کرکٹ کی تاریخ کی بہترین اننگز میں شمار ہوگی۔

اس پورے معاملے کا ایک پہلو، جس پر بہت کم بات ہوئی ہے وہ پاکستان کے کھلاڑیوں کی حاضر دماغی ہے۔ آسٹریلیا، انگلینڈ اور دوسرے ملکوں کے کھلاڑی قوانین سے آگہی اور حاضر دماغی میں لاجواب ہیں جبکہ پاکستان کے کھلاڑیوں کی اس صلاحیت پر ہمیشہ سوالیہ نشان رہتا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔ بہت پہلے سے ایسا ہوتا آ رہا ہے۔ مثلاً 2003ء میں پاکستان کے دورۂ نیوزی لینڈ کا دوسرا ٹیسٹ اچھی طرح یاد ہے جس میں پاکستان کو چوتھے دن کے آخری لمحات میں جیتنے کے لیے 28 رنز کی ضرورت تھی۔

موسم بالکل ٹھیک تھا، کریز پر انضمام 57 اور محمد یوسف 73 رنز ناٹ آؤٹ پر کھیل رہے تھے۔ اضافی وقت کا فائدہ اٹھا کر اسی دن میچ کو ختم کرنا چاہیے تھا لیکن جیسے ہی دن کے اوورز ختم ہوئے تو کپتان انضمام الحق نے پویلین واپسی کی ٹھان لی، حالانکہ ٹیسٹ کے آخری روز شدید بارش کا امکان تھا۔

انضمام کو اپنی اس بھیانک غلطی کا احساس بعد میں ہوا۔ ایک بار انہوں نے بتایا تھا کہ خوف سے ساری رات انہیں نیند نہیں آئی تھی کہ اگر صبح بارش ہوگئی اور پیش گوئی کے مطابق دن بھر ہوتی رہی تو جیتا جتایا میچ اور سیریز ہاتھ سے نکل جائے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ اگلے روز انضمام نے ناشتہ تک نہیں کیا اور میدان میں اتر گئے۔ 4 اوورز بھی نہیں گزرے کہ باقی ماندہ 28 رنز مکمل کرلیے۔ یوں پاکستان نے کامیابی حاصل کرلی اور کچھ ہی دیر بعد دھواں دار بارش شروع ہوگئی۔ انضمام کی اس غائب دماغی کا پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا، بس اللہ نے بچا لیا۔

تو لگتا ہے آج بھی پاکستان کے کھلاڑی اسی اللہ آسرے پر چل رہے ہیں۔ ری پلے دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ رن آؤٹ کے باوجود ایک لمحے بھی ایسا نہیں لگا کہ فخر کو یہ خیال آیا ہو کہ ڈی کوک کی اس حرکت کے خلاف اپیل کرنی چاہیے اور امپائروں کے ساتھ ساتھ ٹیم انتظامیہ بھی سوتی رہی۔ ان سے زیادہ حاضر دماغی تو کمنٹیٹرز نے دکھائی کہ جنہوں نے فوری طور پر اس حرکت پر ردِعمل دکھایا بلکہ تمبا باووما کے کیچ والے معاملے پر بھی بات کی۔

سوشل میڈیا پر ہنگامہ تو کھڑا ہونا تھا، آخر اس میچ میں امپائرنگ ہی اتنے گھٹیا معیار کی ہوئی۔

یوں پاکستان نے اپنی غائب دماغی سے میچ کے ساتھ سیریز جیتنے کا موقع گنوا دیا۔ اگر پاکستان تیسرے اور فیصلہ کُن ون ڈے میں شکست کھا گیا، جو اب اس کی روایت بنتی جا رہی ہے، تو اس ہار کا دکھ کئی گنا بڑھ جائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں