حالیہ عرصے میں آکسفورڈ یونیورسٹی اور ایسٹرازینیکا کی تیار کردہ کووڈ ویکسین اور خون جمنے یا بلڈ کلاٹس کے درمیان تعلق کا خیال ظاہر کیا گیا ہے۔

اب 2 تحقیقی رپورٹس میں ویکسین استعمال کرنے والے افراد میں بلڈ کلاٹ کے مضر اثر کے حوالے سے سب سے تفصیلی وضاحت کی گئی ہے۔

طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع دونوں تحقیقی رپورٹس میں محققین نے دریفت کیا کہ ویکسین استعمال کرنے والے افراد میں ایسی اینٹی باڈیز کی سطح بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جو مدافعتی نظام سے منسلک خلیات کے اجتماع کے خلاف متحک ہوتی ہیں ، جن کو جسم ویکسین کے ردعمل میں تشکیل یتا ہے۔

یہ اینٹی باڈی پلیٹلیٹ سے چپک جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں خطرناک کلاٹس کا سامنا ہوتا ہے جس سے رگوں اور شریانوں میں خون کی روانی رک جاتی ہے۔

دنیا بھر میں ایسٹرازینیکا ویکسین استعمال کرنے والے افراد کی تعداد ڈھائی کروڑ سے یادہ ہے اور مارچ میں کم عمر افراد میں بلڈ کلاٹس کے درجنوں کیسز سامنے آئے جن میں سے 18 ہلاک ہوگئے۔

بعدازاں متعدد ممالک میں ویکسینیشن کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا تاکہ اس مضر اثر کا جائزہ لیا جاسکے۔

یورپین میڈیسین ایجنسی (ای ایم اے) نے حال ہی میں ویکسین اور بلڈ کلاٹ کے درمیان تعلق کو تسلیم کرتے ہوئے کہا تھا کہ ویکسینیشن کے فوائد بلڈ کلاٹ کے معمولی خطرے سے بہت زیادہ ہیں۔

تاہم ایجنسی نے مشورہ دیا کہ 30 سال سے کم عمر افراد کو دستیابی کی صورت میں دیگر ویکسینز فراہم کی جائیں۔

ان دونوں تحقیقی رپورٹس میں ویکسین کے تحفظ کے سوالات پر کام کیا گیا اور بتایا گیا کہ اس حوالے سے کن نئی پالیسیوں کو تشکیل دیا جانا چاہیے یا لوگوں کی سخت مانیٹرنگ کرنی چاہیے۔

ایسٹرازینیکا ویکسین میں تدوین شدہ ایڈنووائرس پر انحصار کیا گیا ہے جو چیمپنزیز میں نزلہ زکام جیسی علامات کا باعث بنتا ہے۔

اس وائرس کو ایسی گاڑی کے طور پر استعمال کیا گیا جو کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین کی جینیاتی کوڈنگ جسم کو فراہم کرتا ہے۔

اسی طرح کی ٹیکنالوجی روسی ویکسین اور جانسن اینڈ جانسن کی ویکسین میں بھی استعمال کی گئی ہے۔

ای ایم اے کی جانب سے بھی 9 اپریل کو جانسن اینڈ جانسن ویکسین کی جانچ پڑتال کا اعلان کیا گیا تھا جس کی وجہ ویکسن استعمال کرنے والے 4 افراد میں بلڈکلاٹس کے کیسز سامنا آنا تھی۔

نئی تحقیقی رپورٹس میں سے ایک جرمنی اور آسٹریا میں ہوئی تھی جس میں ایسٹرازینیکا ویکسین استعمال کرنے والے ایسے 28 افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں بلڈ کلاٹس کا مسئلہ پیدا ہوگیا تھا۔

ان سب میں بلڈ کلااٹس کی مختلف اقسام کو ویکسینیشن کے 5 سے 16 دن کے بعد دریافت کیا گیا تھا اور سب میں پلیٹلیٹس کے خلاف اینٹی باڈیز بن گئی تھیں۔

ان 28 میں سے 6 افراد بلڈ کلاٹ کی پیچیدگیوں کے نتیجے میں ہلاک ہوگئے۔

دوسری تحقیق ناروے میں ہوئی جس میں ایسے 5 طبی ورکرز کو شامل کیا گیا جن کو ایسٹرازینیکا ویکسین استعمال کرانے کے 7 سے 10 دن بعد بلڈ کلاٹس کو دریافت کیا گیا۔

ان سب میں بھی پلیٹلیٹس سے تمعلق اینٹی باڈیز کی زیادہ شرح کو دریافت کیا گیا جبکہ 3 ہلاک ہوگئے۔

محققین کا کہنا تھا کہ یہ بلڈ کلاٹس ایسے مدافعتی ردعمل سے ملتے جلتے نظر آتے ہیں جو ایسے مریضوں میں نظر آتا ہے جو خون پتلا کرنے والی ایک دوا کا استعمال کرتے ہیں۔

ناروے کی تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ بلڈ کلاٹنگ کے کیسز کی شرح ویکسین استعمال کرنے والے افراد میں انتہائی کم ہے۔

یورپین میڈیسین ایجنسی (ای ایم اے) نے 7 اپریل کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ طبی ماہرین اور ویکسین استعمال کرنے والے افراد کو بلڈ کلاٹس کی ایک نایاب قسم کے امکان کی یاد دہانی کرانا ضروری ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ اب تک زیادہ تر کیسز 60 سال سے کم عمر خواتین میں ویکسینیشن کے 2 ہفتے کے اندر رپورٹ ہوئے، تاہم اس وقت دستیاب شواہد سے خطرے کا باعث بننے والے عناصر کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسین اور بلڈ کلاٹس میں کوئی تعلق ثابت بھی ہوجائے تو بھی عام آبادی کے لیے یہ خطرہ کووڈ 19 سے لاحق ہونے والے خطرات سے بہت کم ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں