لکھاری اسلام آباد میں ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔
لکھاری اسلام آباد میں ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔

ایک عجیب سی بے چینی ہے جس کا خاص تعلق نااہلی کے ساتھ جڑا ہے۔

جمعرات کی شب یہ بے چینی کراچی کے حلقہ این اے 249 کی گلیوں میں سرایت کرگئی تھی۔ سب کی نظروں کا مرکز بننے والا یہ الیکشن انتخابی انتظام کاری اور انتخابی اصلاحات پر جاری زبردست قومی مباحثے کے پس منظر میں ہو رہا تھا۔ مگر جیسے جیسے کراچی کا سست دن اور گرم موسم تسکین بخش شام میں ڈھلتا گیا ویسے ویسے حلقے سے وہی شناساں ناخوشگوار مناظر دکھائی دینے لگے۔

سست روی کا شکار ووٹوں کی گنتی کا عمل، فارم 45 پر کنفیوژن، ناقابلِ رابطہ پریزائیڈنگ افسران، ریٹرننگ افسر کے ہاں پارٹی کارکنوں اور رہنماؤں کا جمع ہونا، ہمیشہ کی طرح دھاندلی کا رونا، مخالفین کے مابین بیانات اور تقاریر کے ذریعے تنقید کے نشتروں کی برسات اور پھر صبح کے ابتدائی پہروں میں حتمی نتائج کا سامنے آنا، پورا انتخابی عمل توقعات کے عین مطابق، نہایت ناخوشگوار اور انتہائی نااہلی کے ساتھ تمام ہوا۔

پڑھیے: ڈسکہ کے ضمنی انتخاب کا آنکھوں دیکھا حال

بعداز مقابلہ تجزیوں اور تبصروں میں جو موضوعات زیرِ بحث آئے ان میں

  • تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے حلقے میں ابھار،
  • پیپلزپارٹی کی خلافِ توقع کامیابی کہ جس کے پیچھے شاید اس کی صوبائی حکومت کا اثر و رسوخ کارفرما ہو،
  • پھر ہر سطح پر اقتدار سے محروم پارٹی کی بیساکھیوں پر الیکشن لڑنے کے باوجود مفتاح اسماعیل کی مضبوط حمایت اور
  • پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے جس حلقے کی نشست 3 سال قبل اپنے نام کی تھی وہاں اس کے امیدوار کی بدترین ناکامی شامل ہیں۔

یہ تجزیے اپنی جگہ ٹھیک ہیں لیکن ایک جو سب سے اہم نکتہ چھوٹ رہا ہے وہ اس سوال میں پنہاں ہے کہ جب ہمیں پتا ہے کہ کچھ چیزیں خراب ہیں تو پھر ہم انہیں ٹھیک کیوں نہیں کرسکتے؟

یہی وہ سوال ہے جو نااہلی کا تصور آشکار کردیتا ہے اور یوں اس کا جائزہ لینا بھی آسان ہوجاتا ہے۔

اگر آپ کو اپنے کام کا پتا ہی نہیں ہے تو یہ نااہلی کہلائے گی۔ اگر آپ کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کو اپنے کام کا پتا ہی نہیں تو پھر یہ اونچے درجے کی نااہلی ہے، اور اس بات کو نارمل یا عام بات تصور کرنا تو اگلے درجے کی نااہلی ہے۔

پھر ریاست کے کام کرنے کے پورے طریقہ کار اور کام کرنے والوں کو اس پست درجے پر پہنچانا جہاں انتظامی ڈھانچے اور اس کی باگیں سنبھالنے والے چاہ کر بھی اس آفت کو سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں جو اس بات کو نارمل تصور کرواتی ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر آپ کو یہ پتا نہیں کہ آپ کا کام کیا ہے تو یہ حد درجے کی سوچی سمجھی نااہلی ہے۔

اس پیمانے پر ہم کہاں کھڑے ہیں؟

شواہد بے تحاشا ہیں اور ہر طرف سے ہر شکل و صورت میں دستیاب ہیں۔ 1970ء کے بعد سے ہم آج تک کوئی ایک ایسا الیکشن کروانے میں کامیاب نہیں ہوسکے جسے سب نے تحفظات کے بغیر قبول کیا ہو۔ 51 سال سے مسلسل جاری ناکامی کے اس سلسلے کو تو اب ایک حل طلب مسئلے میں ڈھل جانا چاہیے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں بے ایمانی نااہلی کا اضافی جزو ترکیبی بن جاتی ہے۔

اسٹیبلشمنٹ انتخابات میں دھاندلی کرواتی ہے؟ بالکل، ہم سب سرگرشیوں میں یہ باتیں کرتے ہیں۔ برسرِ اقتدار حکومتیں انتخابات میں دھاندلی کرواتی ہیں؟ جی ہاں، اس بات سے کون انکار کرے گا؟ انتظامی مشینری یعنی چیف سیکریٹریز، کمشنرز، ڈی سی اوز، پولیس کے انسپیکٹر جنرلز، ڈی پی اوز، یہ سارے انتخابات میں کسی پشیمانی اور ضمیر پر خراش آئے بغیر دھاندلی کرواتے ہیں؟ یقیناً، افسوس کا مقام ہے لیکن حقیقت ہے۔ مگر ایک بات تو ضرور ہے کہ بے ایمانی ہمیں کھلے عام ان باتوں کا اظہار کرنے سے روکتی ہے۔

پڑھیے: الیکشن کمیشن کو اب یہ سوچنا ہوگا کہ عوام اس پر اعتماد کیوں نہیں کرتے!

آپ کو ڈسکہ کا قصہ بھی سمجھ آگیا ہوگا۔ جس طریقے سے پوری ڈھٹائی، بے دردی کے ساتھ ہونے والی انتخابی ساز بازی نے اس ضمنی انتخاب کو پٹخ کر رکھ دیا اور پنجاب حکومت اور اس کی انتظامیہ کو شرمساری سے دوچار کردیا گیا، اس کے بعد تو اس شہر کے نام کو ہی ایک اصطلاح کی حیثیت مل گئی ہے کہ جب جب تاریخ میں اس ملک کے شہری انتخابی عمل کے ساتھ ساتھ انتخابی عملے کو چرانے سے جُڑی کہانیوں کو مزے لے کر بیان کریں گے تب تب اس شہر کا نام گونجے گا۔

قصہ ڈسکہ کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کڑے اقدامات اٹھانے اور حلقے میں دوبارہ الیکشن کروانے کا حکم دیا تو اس ادارے کی واہ واہ ہوئی جس کا یہ مستحق بھی ہے لیکن حلقہ این اے 249 میں بروقت ووٹوں کی گنتی کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے اسی الیکشن کمیشن کے پاس کوئی میکینزم نہیں تھا، آخر کیوں؟ اس آفت کو سمجھنے کی قابلیت سے محرومی بلاشبہ ڈراؤنی ہوسکتی ہے جو اس بات کو نارمل تصور کروائے کہ اگر آپ کو اپنے کام کا پتا نہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

22 کروڑ لوگوں پر مشتمل جمہوری نظام کے ایک، صرف ایک حلقے میں ہونے والے انتخابات میں اس قدر خراب کارکردگی کی اور کیا وجہ ہوگی؟ جہاں ایک طرف پوری قوم گنتی میں تاخیر کے پُراسرار معاملے پر سوچ رہی ہے وہیں دوسری طرف الیکشن کمیشن کی مکمل خاموشی کی اور کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ کیوں الیکشن کمیشن کا کوئی افسر سامنے نہیں آیا اور کسی قسم کا بیان نہیں دیا، جو جمہوری روایتوں کا ایک عام اصول ہے، اور کوئی ٹھوس وضاحت پیش کرتے ہوئے تمام شکوک و شبہات کا خاتمہ نہیں کیا؟ قوم کو ہی ایک نئی افراتفری، ایک نئے تنازع اور ایک نئے بحران کو برداشت کیوں کرنا پڑتا ہے؟ اس سوال کا جواب ایک ایسی عجیب جگہ میں کہیں چھپا ہے جہاں نااہلی ایک مخصوص ناکامی کو قابلِ قبول طرزِ زندگی میں بدل دیتی ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ادارہ واضح طور پر خود کو اعلیٰ معیار کے پیمانے پر ناپنا نہیں چاہتا۔ ڈسکہ میں پنجاب حکومت نے ایک الیکشن چرانے کی کوشش کی۔ وہ اس میں کامیاب ہوجاتی اگر انتخابی دھاندلی میں نااہلی کا مظاہرہ نہیں کرتی۔ مگر کراچی میں ہونے والی گڑبڑ کا ذمہ دار کون ہے؟ اگر الیکشن کمیشن ذمہ دار نہیں ہے تو پھر اتنا تو بتا سکتی ہے کہ کس پر الزام دھرا جائے۔ مگر الیکشن کمیشن کو ہی ذمہ دار کیوں ٹھہرایا جائے کہ جب ہم جانتے ہیں کہ نااہلی ایک قابلِ قبول برائی بن چکی ہے؟ یا اسے اب ایک خوبی ہی پکارا جائے؟

پڑھیے: وزیرِ خزانہ کے عہدے پر رسہ کشی کا ماجرہ کیا ہے؟

مگر الیکشن کمیشن کو ہی کیوں الزام دیا جائے کہ جب ہم جانتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے انتخابی اصلاحات سے متعلق تمام تر باتیں محض باتوں تک محدود رہیں گی۔ یہ محض دوسرے پر سبقت پانے کا ایک فن ہے اور کچھ نہیں۔ اگر حکومت حقیقی طور پر، پورے خلوص کے ساتھ اور پوری ایمانداری سے انتخابی نظام کو سدھارنے میں دلچسپی رکھتی تھی تو پھر اسے سب سے پہلے حقیقی طور پر، پورے خلوص کے ساتھ اور پوری ایمانداری سے یہ واضح کرنا ہوگا کہ اس نے ڈسکہ میں ڈسکہ کیوں کیا۔

مگر بے ایمانی اور نااہلی کے لیے اکیلی حکومت کو کیوں مورد الزام ٹھہرایا جائے؟ کیا کسی دوسری جماعت نے حقیقی طور پر یہ مطالبہ کیا کہ جنہوں نے ڈسکہ چرانے کی کوشش کی ان کا احتساب ہونا چاہیے؟ کیا 22 کروڑ شہریوں کی اس جمہوریت میں کسی دوسرے شخص نے یہ پتا لگانے کے لیے تحقیقات کروانے پر زور دیا کہ کس نے ڈسکہ پلان کیا تھا؟ کس نے ڈسکہ کی منظوری دی؟ کس نے ڈسکہ پر عمل کیا؟ اور ڈسکہ کی ذمہ داری کسے قبول کرنی چاہیے؟

نااہلی خود نااہلی کو قبول کر رہی ہے اور نااہلی سے سوال نہیں کر رہی ہے۔ ہم سب ہی اس جرم کے ذمہ دار ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک۔ اس بات سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ جمعرات کی اس تسکین بخش شام کو کراچی کی گلیوں میں پھیلی بے چینی پر مزید بے چینی کا اظہار کیوں نہیں کیا گیا۔

سب چلتا ہے۔


یہ مضمون یکم مئی 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Martin Masih May 04, 2021 12:11am
17 تا 19 فیصد ووٹر ٹرن آؤٹ کے بعد کراچی ضمنی انتخابات کی کیا ساکھ رہ جاتی ہے؟ 81 فیصد رجسٹرڈ ووٹرز نے تو سب ہی کو مسترد کر دیا ہے۔