Dawnnews Television Logo

اسکوبا ڈائیونگ اور پاکستان کے پانیوں میں زندگی کے رنگ

آج کی غوطہ خوری بہت خاص ہے۔ مجھے بالآخر اس مقام پر جانے کا موقع مل رہا تھا جو ہماری غوطہ خور برادری کیلئے ایک اعلیٰ حیثیت رکھتا ہے
شائع 08 جون 2021 05:43pm

صبح 5 بجے الارم بجنے کے ساتھ ہی میں نیند سے جاگ کر حرکت میں آگئی۔ آج کی اسکوبا ڈائیو کا مقام کراچی سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو اور تقریباً 40 منٹوں کی بذریعہ اسپیڈ بوٹ کشتی رانی کی مسافت پر واقع تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں علی الصبح سے پہلے پہلے نکلنا اور ٹھیک طلوع آفتاب کے وقت وہاں پہنچنا تھا، اور ہاں اس دوران ہمیں ناشتے کے لیے ایک جگہ ٹھہرنا بھی تھا۔

میں نیند سے بیدار تو جلدی ہوگئی تھی لیکن پھر بھی وقت ہاتھوں سے ریت کی مانند تیزی سے نکلتا جا رہا تھا۔

اس مرحلے پر ہمیشہ وقت کی رفتار سے مقابلہ کرنا ہی پڑتا ہے اور یہ آسان کام نہیں ہوتا۔ اسکوبا ڈائیونگ یا غوطہ خوری کے لیے بہت سارے ساز و سامان کی ضرورت پڑتی ہے اور اگر کوئی ایک چیز بھی پیچھے چھوٹ جائے تو بڑی مشکل پیدا ہوسکتی ہے۔ لہٰذا ہمیں تمام سامان کی موجودگی یقینی بنانی تھی۔

آپ کو کمپریسڈ ہوا کے بہت سارے بڑے (فی غوطہ خور 2 سے 3) سلنڈرز، اسکوبا کے ضروری ساز و سامان سے بھرا ایک معقول سائز کا بستہ، احتیاطاً اضافی سامان اور کیمرا سے جڑی چیزوں کا اضافی بستہ، ویٹ بیلٹ یا وزن دار پٹے اور اس کے اضافی ویٹ، ذاتی چیزوں کو گیلا ہونے سے محفوظ رکھنے والا ایک ڈرائی بیگ کہ جو پانی میں بھی چیزوں کو گیلا ہونے سے بچائے رکھتا ہے، تولیے اور کھانے پینے کی اشیا سے لدا ہوا آئس باکس ساتھ لے جانا ہوتا ہے۔

میں نے 2 بار سامان کی فہرست کا جائزہ لیا اور پھر نکل پڑی۔ میں نے گاڑی میں سوار ہونے کے ساتھ ہی ایک پل کے لیے اس لمحے کی عظمت سے خود کو سرشار کیا۔ غوطہ خوری میرے لیے ہمیشہ سے ہی ایک روحانی تجربہ رہی ہے کیونکہ یہ آپ کو فطرت کے قریب لے جاتی ہے۔ آپ سورج، ہوا اور سمندر کے مزاج کی نشانیوں کو پڑھنا سیکھتے ہیں۔ پانی کے اندر موبائل فون تک رسائی نہیں ہوتی۔ آپ اپنی فکروں سے منقطع اور فطرت سے رابطے میں آتے ہیں۔ ہر غوطہ اپنی عمدہ خوبصورتی آشکار کرتا ہے۔

گہرے پانی سے ملنے والے متروکہ مچھلی کے جالوں کو سطح تک پہنچایا جا رہا ہے— تصویر بشکریہ محمد اقبال
گہرے پانی سے ملنے والے متروکہ مچھلی کے جالوں کو سطح تک پہنچایا جا رہا ہے— تصویر بشکریہ محمد اقبال

مگر آج کی غوطہ خوری بہت خاص ہے۔ مجھے بالآخر اس مقام پر جانے کا موقع مل رہا تھا جو ہماری چھوٹی سی غوطہ خور برادری کے لیے کسی حد تک ایک اعلیٰ حیثیت رکھتا ہے۔

ہم پیار سے اس نایاب ملبے کو سینئر غوطہ خور ماسٹر محمد اقبال کے نام سے منسوب کرتے ہوئے اقبال ریک پکارتے ہیں، کیونکہ وہ ہم میں سب سے پہلے یہاں تک پہنچنے والے غوطہ خور تھے۔ دیگر افراد بشمول مقامی مچھیروں کے چند ارکان کو اس کی موجودگی کا علم تو تھا لیکن وہ اس سے متعلق ہماری دلچسپی سے واقف نہیں تھے۔

اقبال ریک پر غوطہ خوری کا موقع ملنا میرے اور دیگر ساتھیوں کے لیے دنیا کے کسی عظیم اعزاز سے کم نہیں ہے۔ ہماری برادری چھوٹی ہے اور مشکل سے کراچی کے 20 متحرک غوطہ خوروں پر مشتمل ہے (یاد رہے کہ اس تعداد میں ان متعدد افراد کو شامل نہیں کیا جاسکتا جو سال در سال سند حاصل کرتے ہیں لیکن مستقل مزاجی کے ساتھ یہ کھیل نہیں کھیلتے)۔ تاہم اس مضبوط برادری میں بھی کسی 'خفیہ مقام' کا انکشاف کرنے سے برسہا برس پرانی اور سیکڑوں مشترکہ خوطوں پر مشتمل دوستیاں ٹوٹ سکتی ہیں۔

یہ طرہ چمگادڑ مچھلیاں (ٹیارا بیٹ فش) بہت ہی دوستانہ مزاج تھیں—تصویر بشکریہ لکھاری
یہ طرہ چمگادڑ مچھلیاں (ٹیارا بیٹ فش) بہت ہی دوستانہ مزاج تھیں—تصویر بشکریہ لکھاری

سطح سمندر کے نیچے کیا ہے اس حوالے سے اگر کسی قسم کی تحریری دستاویز موجود بھی ہے تو یہ عوام کے لیے آسانی سے دستیاب نہیں۔ شاید اسی وجہ سے جب ماہر غوطہ خوروں کو منفرد زیرِ آب ڈھانچے یا پھر جنگلی حیات سے بھرپور کوئی مقام اتفاقاً مل جائے تو وہاں تک رسائی کے نقشے کو اپنے پاس محفوظ رکھتے ہیں۔

رازداری کی ایک اور بڑی وجہ ان مقامات کو سیاحوں اور غوطہ خوروں کے رش سے بچانا بھی ہے۔ ہمارے ہاں ساحلی سیاحت کا زیادہ رجحان نہ ہونے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ ہمارے سمندر اس کوڑے سے محفوظ رہتے ہیں جو زیادہ لوگوں کی آمد کے باعث پیدا ہوتا ہے۔ رازداری سے ان مقامات کو زیادہ توجہ نہیں ملتی ورنہ بعض اوقات وہاں ہمارا داخلہ ہی ممنوع قرار دے دیا جاتا ہے جس طرح مختلف حکومتی اداروں نے ہمیں کچھ مقامات پر جانے سے روکا ہوا ہے۔

پاکستان اسکوبا غوطہ خوروں کے لیے ایک مشکل ملک ہے لیکن اگر قسمت اور مادر فطرت ساتھ دے تو آپ کو یہاں اس کا بھرپور صلہ بھی مل سکتا ہے۔

ایک مقامی لیکن بہت کم دیکھی جانے والی شیر مچھلی (لائن فش)
ایک مقامی لیکن بہت کم دیکھی جانے والی شیر مچھلی (لائن فش)

یہاں غوطہ خوری کے وقت آپ کو اپنی برادری کی ضرورت پڑتی ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران ہم نے آپس میں ایک تعلق قائم کرلیا ہے جو زیرِ آب زندگی کے ایسے نظاروں کی دین ہے جو ہمارے اردگرد بہت سے لوگ کبھی دیکھ نہیں پائیں گے۔ یہ ایک ایسا تعلق ہے جو نہ صرف ہمیں ایک دوسرے سے جوڑے رکھتا ہے بلکہ سمندر اور اس میں رہنے والے جانداروں کے بھی قریب لاتا ہے۔

غوطہ خوری کے مقصد کے لیے ہم بلوچستان یا اس کے قریب واقع جگہوں پر جاتے ہیں، جہاں پانی نسبتاً صاف شفاف اور مقامات اَن چھوئے ہوتے ہیں۔ اسی لیے تو بلوچستان میں غوطہ خوری کا تجربہ جوش و خروش سے بھرپور ہوتا ہے۔ آپ کبھی بھی مکمل طور پر یہ اندازہ نہیں لگاسکتے کہ آپ کو وہاں کیا دیکھنے کو ملے گا۔ کسی نئے مقام پر غوطہ ایک بے خبر جہاں اجاگر کرتا ہے۔

مگر غوطہ خوری کے مقام سے متعلق یہ ابہامی کیفیت غوطہ خوری کے لیے موزوں مقامات پر معلومات جمع کرنے میں دشواری پیدا کرسکتی ہے، کہ پانی کی گہرائیوں میں پتھر، ریفس یا مرجانی چٹانیں اور ملبے کیسے اور کہاں واقع ہیں۔ یہاں پھر اس امید کے ساتھ مقامی مچھیروں سے تعلقات قائم کرنے کی ضرورت پڑتی ہے کہ وہ ہمیں بتائیں گے کہ کن جگہوں پر مچھلیوں کی کثیر تعداد پائی جاتی ہے۔ کبھی کبھار پرانے 'ریٹائرڈ' غوطہ خوروں (جن کی تعداد اتنی کم ہے کہ انہیں انگلیوں پر ہی گنا جاسکتا ہے) سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے، تو کبھی کبھار خود کو ہی کھلے سمندر میں مچھلیوں کے کھوجی (ایک ایسا اسکیننگ آلہ جو زیرِ آب حرکات کا پتا لگا لیتا ہے) کی مدد سے امیدوں کا دامن تھامے نکل جانا پڑتا ہے۔

مہم کا آغاز

غیر محفوظ ملبے میں داخل ہونا خطرناک ہوسکتا ہے۔
غیر محفوظ ملبے میں داخل ہونا خطرناک ہوسکتا ہے۔

8 بج کر 25 منٹ ہوئے ہیں اور جھلسا دینے والا سورج طلوع ہوچکا ہے۔ ہم گڈانی کے قریب ساحل پر کھڑے ہیں۔ کشتی کی دُوری دیکھ کر میں ریت پر چلتے ہوئے کئی بار بھاری سلنڈروں، بھاری بوجھ اور ساز و سامان کو ایک سے دوسری جگہ لے جانے کا خیال تصور میں لاتے ہوئے گھبرانے لگتی ہوں۔ مجھے تسلی دی گئی کہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔

میں پیچھے مڑی اور دیکھا کہ دیگر غوطہ خور سلنڈروں کو گدھے گاڑیوں پر لاد رہے ہیں۔ شکر ہے کہ سارا سامان ہمیں نہیں اٹھانا تھا! میں نے سکون کا سانس لیا (مجھے گدھوں پر رحم آ رہا تھا لیکن میں خود بھی مجبور تھی)۔ میرے برعکس گدھے حالات کے بارے میں زیادہ نہیں سوچتے۔ وہ سیدھے پانی میں کھڑی ہماری کشتی پر پہنچ گئے اور یوں سارا سامان بھی کشتی پر منتقل ہوگیا۔

اور ہمارا سفر شروع ہوا۔

ہم جس کشتی پر سوار تھے ویسی چھوٹی اسپیڈ بوٹس بہت تیز دوڑتی ہیں، لیکن ساتھ وہ سمندری لہروں سے بہت زور سے ٹکراتی بھی ہیں۔ جب بھی کشتی لہر سے ٹکراتی ہے تو آپ کو اپنی جگہ سے اوپر اچھال دیتی ہے لہٰذا ہر وقت خود کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ضروری ہے۔

غوطہ خوری کا سامان کشتی تک پہنچایا جا رہا ہے
غوطہ خوری کا سامان کشتی تک پہنچایا جا رہا ہے

ہم ساحل سے دُور جانے لگے تو ایک طرف ہم نے گڈانی کے شپ بریکنگ یارڈ پر بڑے بڑے بحری جہازوں کو کھڑے دیکھا۔ دنیا کے مختلف حصوں سے آئے یہ دیوہیکل بحری جہاز چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کٹنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ چند گہرے پانیوں پر کھڑے جہاز لوہے کے اس قبرستان میں اپنی آخری رسومات کا انتظار کررہے تھے۔ سمندر پر دہائیاں گزارنے کے بعد ان کا سفر گڈانی کے مقام پر ختم ہوا ہے۔

مگر ہمارا سفر تو ابھی شروع ہی ہوا ہے۔

گڈانی پر کھڑے جہاز نطروں سے دُور ہوئے اور ہم ملبے کی طرف بڑھنے لگے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وہ ملبہ کب سے پانی میں ہے (میرے چند ساتھی غوطہ خوروں کے اندازے کے مطابق یہ ایک دہائی پرانا ہے)، یا ناجانے کن حالات میں یہ ڈوبا تھا۔ مگر ہم یہ ضرور جانتے تھے کہ یہاں ہم زندگی بھر ساتھ رہنے والا تجربہ حاصل کرنے والے ہیں۔

جب کشتی بان نے ایک جگہ پر کشتی روکی تو ہمیں لگا کہ منزل آگئی، اس وقت ایک ساتھی غوطہ خور نے مجھ سے پوچھا کہ 'تم نے کچھ دیکھا؟' میں نے کشتی سے باہر جھانکا اور پانی کا جائزہ لیا کہ کچھ پتا چل سکے کہ نیچے کیا ہے۔ تیز ہوائیں نہیں تھیں اور سمندر پُرسکون تھا، مطلب زیرِ آب چیزوں کو دیکھنے کے لیے اچھے حالات تھے۔

ابتدائی طور پر تو مجھے صرف ایک لمبا سایہ ہی نظر آیا۔ بغور جائزہ لینے کی کوشش کی تو ایک ہلکے نقرئی رنگ کا سایہ نظر آیا۔ کشتی بان کے بیٹے نے چیخ کر کہا، 'وہیل شارک!' جس پر میں نے کہا، 'نہیں، یہ بے حرکت ہے۔ یہ ملبہ ہے‘۔

میں ایسا ملبہ دیکھ رہی تھی جو سطح سمندر سے 7 میٹر نیچے شروع اور 27 میٹر زمین کو چُھو رہا تھا، مطلب یہ کہ اس کا زیادہ تر حصہ سیدھا کھڑا تھا، مگر پاکستان میں یہ ایک ان سنی سی بات ہے۔ اتنی اچھی نموداری شاذ و نادر ہی نصیب ہوپاتی ہے۔

بائیں سے دائیں: محمد اقبال، سبحان ٹن والا، امیر بازل خان اور عثمان قیض
بائیں سے دائیں: محمد اقبال، سبحان ٹن والا، امیر بازل خان اور عثمان قیض

ہم نے جلدی سے اپنے سامان کو اسمبل کرنا شروع کردیا۔ مقامی طور پر بنائی گئی قدرے بڑی 'ڈونڈا' کشتیاں، جنہیں اکثر مبارک گوٹھ اور سنہرا ساحل جیسی جگہوں پر استعمال ہوتے دیکھا جاسکتا ہے، اپنی گنجائش اور ڈھانچے کے باعث پانی میں زیادہ ہچکولے نہیں کھاتی ہیں، اس لیے یہ کام زیادہ آسانی سے ہوجاتا ہے۔ مگر ان چھوٹی تیز رفتار کشتیوں پر ایسا لگ رہا تھا کہ ہم کسی تھیم پارک کے ایک بڑی مشینی جھولے پر سوار ہو رہے ہیں۔ جیسے ہمارے پیروں کے نیچے زمین اور آسمان اوپر نیچے اور آگے پیچھے ہو رہے تھے۔

ہچکولوں اور سر کے اوپر آچکے سورج کی تیز دھوپ سے سفری متلی کا آنا عام بات ہے۔ مجھ سمیت چند ساتھی اس کا شکار بنے سو ہم اس امید کے ساتھ کشتی سے منہ باہر نکال کر جھک کر بیٹھ جاتے کہ ہمارا ناشتہ اندر ہی رہے۔ مگر ہم رُکے نہیں۔ ہم اپنی بگڑی طبیعت کے باوجود ویٹ سوٹ پہننے اور غوطے کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ سفری متلی کا علاج یا تو کشتی میں سیدھا لیٹنا ہے یا پھر پانی میں کود جانا ہے۔

ایک ہاتھ ماسک اور دوسرا اپنے بیلٹوں پر رکھ کر، ریگولیٹروں کو اندر کیا، ٹانگ پر ٹانگ رکھی اور فنز تیار کیے اور پانی کی طرف پیٹھ کرکے غوطہ لگا دیا۔ جب تھوڑا پانی میرے ماسک میں داخل ہوا تو میری آنکھوں میں چبھن محسوس ہوئی اور میں اس وقت سمندر کا نمکین پانی چکھ پا رہی تھی۔ مگر میں لمحہ بھر میں ہی اچھا بھلا محسوس کرنے لگی تھی۔

اس ملبے میں سمندری حیات کی بہتات ہے۔ یہ بنیادی طور پر ان کی نرسری ہے
اس ملبے میں سمندری حیات کی بہتات ہے۔ یہ بنیادی طور پر ان کی نرسری ہے

ہم اب دیگر غوطہ خور ساتھیوں کے منتظر تھے تاکہ ان کے ساتھ مل کر گہرائی میں جاسکیں۔ ساتھی غوطہ خور اور میرین آرکیالوجسٹ اور میری ٹائم آرکیالوجی اینڈ ہیریٹج انسٹی ٹیوٹ (MAHI) نامی ایک غیر منافع بخش تحقیقی تنظیم کے ڈائریکٹر امیر بازل خان نے کہا کہ، 'اپنے سر کو پانی میں ڈباؤ اور نظارہ دیکھو‘۔

میں نے ایسا ہی کیا۔ پھر میرے سامنے ایک نظارہ تھا۔ مجھے ملبے کا بالائی حصہ نظر آیا۔ A کی شکل کے بہری جہازوں پر نصب لفٹنگ گیئر نرم بھورے مونگوں میں لپٹا ہوا تھا جبکہ جہاز کی گہرے نارنگی رنگ کی سنگ آلود سطح اندر داخل ہورہی سورج کی روشنی سے چمک رہی تھی۔ ملبے کے اردگرد رنگین مچھلیاں بھی نظر آئیں جو اپنی خوراک کھا رہی تھیں۔

شاندار نظارہ تھا۔ میں گہرائی میں جانے کا بے صبری سے انتظار کر رہی تھی۔

تھوڑی دیر بعد وہ وقت آ ہی گیا۔ ہم نے سطح سمندر پر مختصر سیفٹی بریفننگ لی۔ میرے جوڑی دار میرے شوہر عبداللہ بنے جو ایک اسکوبا غوطہ خور ہیں اور جن سے میری پہلی ملاقات سمندر پر ہی ہوئی تھی۔ ہم بالآخر گہرائی کی جانب بڑھے۔ ہم نے رسی تھامی اور نیچے جانا شروع کردیا۔

زیرِ سمندر

جال سے مچھلی کو آزادی دلاتے ہوئے
جال سے مچھلی کو آزادی دلاتے ہوئے

میں نے ملبے کا جائزہ لینے سے پہلے مچھلی پر توجہ مرکوز کی۔ ان مچھلیوں نے میری توجہ اپنی طرف اس لیے مبذول کروائی کیونکہ مرجانی چٹانوں یا پتھر سے دُور سطح کے قریب اس قدر رنگین مچھلیوں کا ہونا خلافِ معمول تھا۔ مگر یہ طرہ چمگادڑ مچھلیاں کافی دوستانہ مزاج کی تھیں، جن کے فنز (مچھلی کے پروں) لمبے تھے، ان کے سفید و سیاہ پٹوں والے جسم کا رنگ سرمئی تھا، جن میں آگے کی طرف ایک چھوٹا پیلے رنگ کا فِن موجود تھا۔

میں جب مزید گہرائی میں گئی تو ملبے کا مکمل نظارہ میرے سامنے آگیا۔ تمام ملبہ مرجان میں لپٹا ہوا تھا جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ اسے یہاں پڑے ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے۔ ایک طرف جہاز کا ڈیک موجود ہے اور A شکل کے فریم کی سطح کے قریب ہمارے پانیوں کا ایک مقامی جانور چھپا تھا مگر جسے میں نے پہلے کبھی غوطہ خوری کے دوران نہیں دیکھا تھا۔ وہاں ایک ریڈ لائن سرخ شیر مچھلی موجود تھی۔

اپنے سر اور جسم پر نارنگی، سرخ اور سفید پٹے لیے یہ عمدہ مچھلی اپنی آنکھوں کے اوپر اور اپنے منہ سے نیچے چمکدار لمبے بازو (Tentacles) رکھتی ہیں۔ ان کی چھاتی کے فنز لمبے اور پنکھے جیسے ہوتے ہیں اور ریڑھ کی 13 لمبی ہڈیاں ان کے پچھلے حصے کے فن کو علیحدہ کرتی ہیں۔ جب وہ اپنے آس پاس خطرہ محسوس کرتی ہیں تب وہ اپنے پچھلے حصے اور چھاتی کے فنز کو ابھار دیتی ہیں تاکہ وہ خود کو بڑا محسوس کروا کر دیگر مچھلیوں کو ڈرا سکیں۔

یہ مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں اور بے موہرہ جانداروں کو کھاتی ہیں اور بعض اوقات اپنی ہی نسل کے چھوٹے ارکان کا شکار کرتی ہیں۔ اگرچہ شیر مچھلی ہمارے پانیوں کی مقامی مچھلی ہے لیکن بحرالکاہل میں انہیں حملہ آور نسلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ شاید یہ وہ واحد مچھلی ہے جن کی تلاش کے لیے اسکوبا غوطہ خوروں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کیونکہ اسے ایک ایسا شکاری تصور کیا جاتا ہے جس نے اپنے غیر مقامی جانداروں کے وجود پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ جگہ اور خوراک کے لیے یہ سیدھا گروپرز اور اسنیپرز جیسی مقامی شکاری مچھلی سے مقابلہ کرتی ہیں۔

متروکہ مچھلی کے جالوں کی موجودگی کا پتا لگانا مشکل ہوسکتا ہے اور یہ جال بہت سے غیر محتاط سمندری جانداروں کے لیے مہلک ثابت ہوسکتے ہیں۔
متروکہ مچھلی کے جالوں کی موجودگی کا پتا لگانا مشکل ہوسکتا ہے اور یہ جال بہت سے غیر محتاط سمندری جانداروں کے لیے مہلک ثابت ہوسکتے ہیں۔

مگر ملبے کا حقیقی جادو اس کے بڑے فریم کے نیچے اور اردگرد دکھائی دیتا ہے۔ ان پانیوں میں روشنی آسانی سے پہنچ جاتی ہے اور اس طرح یہ مچھلیوں کے لیے ایک بہت ہی مقبول مقام کی حیثیت حاصل کرلیتا ہے جبکہ گھونسلے بنانے کے لیے ملبے کے کونے بہترین جگہ فراہم کرتے ہیں۔

یہاں دونوں نقرئی اور زرد فن والی ٹریلویلی مچھلیوں کے بڑے بڑے جھنڈ بھی پائے جاتے ہیں، جس وقت وہ حرکت میں ہوتے ہیں تو برق رفتاری سے آپ کے سامنے سے گزرتے اور پھر واپس مڑ جاتے ہیں۔ مزید گہرائی میں ملبے کے اندرونی حصے کی کھلی جگہ کے قریب بڑی فرشتہ مچھلیاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ڈیک کے نیچے بڑی گروپر مچھلیاں چھپی تھیں، جو دروازے سے ٹارچ کی روشنی ڈالنے پر ہی دکھائی دیتیں۔ ہم نے حفاظتی وجوہات کی بنا پر ان کے قریب نہ جانے کا فیصلہ کیا (ملبے کا اندرونی حصہ غیر محفوظ ہوسکتا ہے)۔ کچھ غوطہ خوروں نے صدری بام مچھلی، نیلی ٹرگر فش، سوئیٹ لپس (میٹھے ہونٹ) نامی مچھلی (جی ہاں، یہی ان کا اصل نام ہے، انہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے بھدے بوٹاکس کروائے ہیں) اور سرخ اسنیپر و دیگر مچھلیوں کی اقسام کو بھی دیکھا۔

جب متحرک مچھلی کے جھنڈوں کے قریب گئے تو انہوں نے مجھے اور میرے شوہر کو گھیر لیا اور ایسا محسوس ہونے لگا جیسے ہم مچھلیوں کی دیواروں میں قید ہوگئے ہیں۔ وہ تجربہ نہایت ہی شاندار تھا۔ مگر ایسے بھی لمحات تھے جب جھنڈ ساکن تھے۔ اس وقت ہم یہ بھی دیکھ پا رہے تھے کہ ان میں سے زیادہ تر جھنڈ کم عمر اور نابالغ مچھلیوں کے تھے۔ یہ بات دیگر نسلوں پر بھی صادق آتی ہے۔ وہ ملبہ بنیادی طور پر ان کی نرسری ہے۔

گہرائیوں کے نظارے

اگرچہ ایسی دیگر جگہیں بھی ہیں جہاں مچھلیوں کی بہتات ہے لیکن صرف اس واحد ملبے پر سمندری حیات کی اتنی کثرت اور وسعت اسے منفرد اور خاص مقام بنا رہی تھی۔ مگر جہاں ایک طرف جنگلی حیات کی بہتات ہے وہیں دوسری طرف ان کے وجود کے لیے خطرناک متروکہ جال بھی پائے جاتے ہیں اور یہ جا بجا نظر آتے ہیں۔ یہ مچھلیوں کو پکڑے والے وہ جالے ہیں جو مچھیروں نے استعمال کرنا چھوڑ دیے ہیں یا پھر ان سے گم ہوچکے ہیں۔ ان جالوں میں آسانی سے مچھلیاں پھنس جاتی ہیں لہٰذا غیر محتاط سمندری حیات کے لیے یہ مہلک ثابت ہوتے ہیں۔ بعض اوقات یہ متعدد تہوں پر مشتمل ہوتے ہیں اور ملبے کے تقریباً پورے بالائی حصے کو ڈھانپ دیتے ہیں۔

ڈیک کے سب سے آخری سرے پر زمین تک جاتی گہرائی ہے۔ ملبے کا نچلا حصہ مچھلیوں اور متروکہ جالوں کی تہہ سے ڈھکا ہوا ہے۔ یہ جالے بڑے اور پُرخطر ہیں جو مچھلیوں اور غوطہ خوروں دونوں کے لیے یکساں طور پر خطرناک ہے۔

جتنی گہرائی میں اترا جاتا ہے اتنا ہی اندھیرا ہونے لگتا ہے۔ رنگ بھی تبدیل ہونے لگتے ہیں۔ مزید گہرائی میں اترنے کے ساتھ سرخ رنگ تیزی سے غائب ہوجاتا ہے اور صرف نیلی روشنی رہ جاتی ہے۔ آہستہ آہستہ سب کچھ سرمئی، سیاہ اور نیلا دکھائی دینے لگتا ہے۔ ہم نے اپنی ڈائیو ٹارچ پر ریڈ فلٹر استعمال کرکے اس صورتحال کا سدِباب نکالا۔

میں نے ہیبت ناک گہرائیوں کی آخری حد پر نقرئی شے کی شعاؤں کو ہم سے دُور بھاگتے دیکھا، ان کی حرکت سے ریت کے ذرات کو منتشر ہوتے بھی دیکھا۔ مجھے ایک لمبی سی نقرئی نظر آنے والی شے زرد شعاع چھوڑتے نظر آئی، اب سمجھ گئی تھی کہ یہ دراصل زرد پونچھ والا بیرا کوڈا ہے۔ بیرا کوڈا ہمیشہ جھنڈ میں ایک سے دوسری جگہ جاتے ہیں اور یہ ڈراؤنے شکاری بھی ہوتے ہیں۔ بیرا کوڈا کے انسانوں پر حملوں کے بارے میں تو بہت کم سنا ہے البتہ ان کے کاٹنے سے گہرا زخم اور ٹشو کو نقصان ضرور پہنچتا ہے۔ مگر زیادہ تر سمندری جانوروں کی طرح یہ بھی شرمیلے ہوسکتے ہیں۔

جب ہم نے اپنے چہرے کا رخ ملبے کی طرف موڑا تو ہم نے دیکھا کہ آدھا نچلا حصہ بھی متروکہ جالوں میں ڈھکا ہوا تھا۔ مچھلیاں اور دیگر سمندری جانور ان جالوں میں پھنس جاتے ہیں اور جب باہر نہیں نکل پاتے تو مرجاتے ہیں۔ ایک فری ڈائیور نے ایک منٹ کی ویڈیو اپنے یاسر ڈائیور نامی یوٹیوب چینل پر رکھی ہے، جس میں آپ ان جالوں میں پھنسی مچھلیوں کی ایک کثیر تعداد دیکھ سکتے ہیں۔ یہ بہت ہی دل دہلانے والا منظر ہے جو ان جالوں کے مہلک اثرات کو اجاگر کرتا ہے۔

ہماری غوطہ خوری کی ایک اور وجہ پانیوں کو ان جالوں سے نجات دلانا بھی ہے، مگر اس کام کے لیے اچھا خاصا تجربہ اور محتاط ہاتھ درکار ہوتے ہیں۔ یہ جال آسانی سے آپ کو پھانس کر آپ کی جان لے سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہم اپنے ساتھ تیز دھار چاقو لے جاتے ہیں تاکہ بوقتِ ضرورت جالوں کو کاٹا جاسکے۔

محفوظ پناہ گاہ کا تحفظ

محمد اقبال (جنہیں غوطہ خور برادری اقبال صاحب پکارتی ہے) غوطہ خوری کے اپنے 2 سیزن (اکتوبر اور اپریل کے درمیان) ملبے سے جال ہٹانے کے لیے وقف کرچکے ہیں مگر وہاں دوبارہ جال آجاتے ہیں۔

'یہ متروکہ جال کہاں سے آتے ہیں؟' MAHI کے بازل خان اپنے ہی سوال کا جواب دینے سے پہلے یہ پوچھتے ہیں۔ 'ستم ظریفی دیکھیے کہ یہ انہی لوگوں کی طرف سے آ رہے ہیں جو اپنی مچھلی کی ہر کھیپ کے لیے ان پر انحصار کرتے ہیں، جی ہاں مچھیرے۔ وہ غلطی سے اس ملبے کا ہی شکار کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ان کا جال خود اس ملبے میں ہی پھنس جاتا ہے۔ مگر بات یہیں تک محدود نہیں ہے، جال دُور دُور تک سفر طے کرسکتے ہیں۔ سب سے بنیادی مسئلہ دراصل ان جالوں کا پانی میں ہی چھوڑ دینا ہے‘۔

پاکستان میں او لِو رائڈلے پراجیکٹ کے پراجیکٹ منیجر عثمان قیض کہتے ہیں کہ 'متروکہ جال لہروں کی مدد سے طویل فاصلے طے کرسکتے ہیں‘۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران وہ جال نکالنے کے متعدد آپریشنز کا اہتمام کرچکے ہیں۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ 'سائنسدانوں کو ایسے بھی متروکہ جال مل چکے ہیں جو کینیا سے مالدیپ کے پانیوں تک پہنچے تھے۔ مچھلیوں کے یہ جال مہینوں تک لہروں پر طویل فاصلے طے کرسکتے ہیں‘۔

بازل خان کا کہنا ہے کہ، 'یہ مچھلی کے شکار کی جگہ نہیں، بلکہ یہاں تو مچھلی کے شکار سے باز رہنا چاہیے۔ یہاں آپ مچھلی کے ساتھ اپنا جال بھی کھو دیں گے‘۔

بازل خان اس مقام کو 'کم عمر مچھلیوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ' قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'ملبے پر تحفظ فراہم کرنے والی مصنوعی مرجانی چٹانیں موجود تو ہیں لیکن پھر بھی یہاں آبی حیات خطرے کی زد میں ہے۔ اس مقام کا تحفظ ضروری ہے۔ معاشی اعتبار سے دیکھیں تو چونکہ یہاں غوطہ خوروں کے لیے قابل رساں گہرائی ہے لہٰذا یہ غوطہ خوری کی سیاحت کے لیے ایک بہترین جگہ ثابت ہوسکتی ہے۔ سیاحت کے لحاظ سے یہ ایک قابلِ قدر جگہ تو ہے لیکن سمندری ماحولیاتی نظام کی اہمیت کو فراموش بھی نہیں کیا جاسکتا‘۔

بازل خان مزید کہتے ہیں کہ اگرچہ ملبہ مچھیروں کے لیے بظاہر تو اہمیت نہیں رکھتا لیکن بلواسطہ انہیں فائدہ پہنچاتا ہے۔ '۔۔۔ گڈانی کے قریب اس مخصوص مقام کی وجہ سے یہاں شکار کے لیے مچھلی وافر تعداد میں دستیاب ہوتی ہے۔ ایسی جگہیں بھلے ہی انسانی ساختہ ہوں لیکن یہ دیگر علاقوں کی ان مچھلیوں کے لیے ایک اضافی آماجگاہ فراہم کرتی ہیں جو عموماً وہاں رہنے سے گریز کرتی ہیں۔ ساحلی پٹی سے متصل علاقہ عام طور پر کم عمر مچھلیوں کے لیے مناسب حالات فراہم نہیں کرتا لیکن ملبے جیسی جگہیں گہرے پانی کی مچھلیوں کو رہنے کے لیے مناسب حالات پیدا کردیتی ہیں۔ معاشی اعتبار سے اس جگہ کا تحفظ ماہی گیر برادری کے لیے بھی منافع بخش ثابت ہوسکتا ہے‘۔

متروکہ جال نہ صرف مچھلی اور دیگر زیرِ آب سمندری حیات کے لیے مسئلے کا باعث ہے بلکہ بازل خان کے مطابق یہ مائیکرو پلاسٹک کے مسئلے کو بھی جنم دیتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ 'کچھ جالوں میں برنقیل یا barnacles موجود ہوتے ہیں، جب مچھلی برنقیل کو کھالیتی ہے تو ان سے جڑا پلاسٹک بھی ان کی جسم میں داخل ہوجاتا اور پھر یہ ذرات پوری فوڈ چین کا حصہ بن جاتے ہیں‘۔

مگر جو لوگ مچھلی نہیں کھاتے، انہیں اس بات کی کیوں فکر ہوگی؟ بقول بازل خان، 'کیونکہ مچھلی کو مرغیوں کی فیڈ، کھاد وغیرہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے‘، لہٰذا آپ چاہیں مچھلی کھاتے ہوں یا نہیں، مگر پلاسٹک کے یہ ذرات کسی نہ کسی صورت آپ کے جسم میں داخل ہوسکتے ہیں۔


ہمارے غوطے کو جب 40 منٹ گزرے تھے تب بازل خان نے ہمیں اپنے سلنڈر میں ہوا کی مقدار بتانے کے لیے اشارہ کیا۔ میرے سلنڈر میں 50 بارز یعنی ریزرو ذخیرے کی حد سے تھوڑی زیادہ مقدار میں ہوا موجود تھی۔ انہوں نے ہمیں اوپر آنے کا اشارہ کیا۔

سطح سمندر پر آنے سے قبل ہمیں اپنے ڈی کمپریشن اسٹاپ (جب ہم اپنے جسم سے اضافی نائٹروجن کو خارج کرنے کے لیے عموماً 8 سے 5 میٹر کی گہرائی میں چند منٹوں کا وقفہ لیتے ہیں) کے لیے اس ریزرو ہوا کا استعمال کرنا تھا۔

ڈی کمپریشن اسٹاپ پر جب ہم اپنے جسم سے نائٹروجن کے اخراج کا انتظار کرتے ہیں تب تصاویر کھینچنے اور ملبے کو ایک آخری بار دیکھنے کا موقع مل جاتا ہے۔

سطح سمندر پر پہنچ کر بھی اس تجربے کا سحر مجھ پر طاری رہا۔ بازل خان اور اقبال جیسے لوگ ان طلسماتی مقامات کی اتنی پرواہ کس لیے کرتے ہیں، یہ کوئی مجھ سے پوچھے۔ میں نے زیرِ آب جو تصاویر کھینچی تھیں انہیں اسکرین پر دیکھتی اور تصوراتی جہاں میں اس جادوئی غوطہ خوری کے تجربے سے لطف اندوز ہوتی رہی۔


یہ مضمون 23 مئی 2021ء کو ڈان اخبار کے ایؤس میگزین میں شائع ہوا۔