لکھاری لمس میں سیاسیات اور سماجیات پڑھاتے ہیں۔
لکھاری لمس میں سیاسیات اور سماجیات پڑھاتے ہیں۔

نور مقدم کے سفاکانہ قتل کے بعد سامنے آنے والی صورتحال بالکل ویسی ہی ہے جیسی صنفی بنیاد رکھنے والے کسی بھی ہائی پروفائل کیس کے بعد سامنے آتی ہے۔

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے عوام، دانشوروں اور ریاستی اشرافیہ کے ایک گروہ جن کی اکثریت مردوں پر مشتمل تھی، انہوں نے اس قسم کے سانحے پر روایتی تجزیے اور حل بیان کرنا شروع کردیے۔ اس قسم کا ردِعمل صنفی حقوق کے کارکنوں اور اداروں کی جانب سے آواز اٹھانے اور غصے کے اظہار کے بعد مزید تیز ہوجاتا ہے۔

آخر وہ کون سے نکات ہیں جن کا یہ افراد اتنے تواتر کے ساتھ ذکر کرتے ہیں؟ پہلا نکتہ تو صنفی تشدد کی بنیاد کو کسی طرح کی ثقافتی مغربیت میں تلاش کرنا ہے۔ اس کے پیچھے خیال یہ ہے کہ لوگ (خاص طور پر خواتین) جب مغرب کے صنفی حقوق، آزادی، تحرک اور نظریات کو اختیار کرتی ہیں تو ان کے صنفی تشدد کا شکار ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اسی طرح کی ایک بات وزیرِاعظم نے بھی کہی کہ جو لوگ مغربیت (یا یوں کہیے کہ جنسیت پر مبنی تفریح) سے متاثر ہوتے ہیں وہ اپنے بنیادی جذبات کے مطابق زیادہ عمل کرتے ہیں جس کی وجہ سے جنسی جرائم کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

اس نکتے میں موجود (کسی حد تک) واحد درست بات یہ احساس ہے کہ صنفی بنیاد پر ہونے والے تشدد کا نقطہ آغاز ثقافتی اور معاشرتی رجحانات ہوتے ہیں۔ تاہم یہ بات صرف اس حد تک درست ہے کہ کسی بھی معاشرے کے مختلف گروہ ایک دوسرے کو کس طرح دیکھتے ہیں اور ان کے نزدیک وہ دوسروں کی زندگیوں پر کیا حق رکھتے ہیں۔ یہ کسی بھی مشرقی، مغربی، جدید یا روایتی ثقافت کا مرکزی پہلو ہوتا ہے۔

مزید پڑھیے: گھریلو تشدد کو نظر انداز کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے!

اس بنیادی پہلو کو آگے بڑھا کر اسے ہوس پرس مردوں اور ان خواتین کی کمزوری کے درمیان ایک تقریباً حیاتیاتی تعلق تک پہنچا دیا جاتا ہے کہ جو معاشرے میں رائج رجحانات کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ تاہم اس کی بنیاد پر سماجی رویوں کا کوئی تجزیہ موجود نہیں ہوتا۔

خواتین کے خلاف تشدد اکثر مختلف ثقافتی اقدار کی وجہ سے ہوتا ہے جنہیں عموماً ’مغرب زدہ‘ کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قسم کے تجزیے کرنے والوں کی جانب سے پیش کیے جانے والے حل بھی کسی طور پر معقول نہیں ہوتے۔ ان کے نزدیک اس کا حل خواتین کی موجودگی کو ہی محدود کردینا، انہیں قید رکھنا اور ان کی حرکات پر نظر رکھنا ہے۔ یہ حل دراصل نجی زندگی میں موجود تشدد اور ظلم و زیادتی کو نظر انداز کردیتے ہیں اور اس مسئلے کے حل کے لیے خواتین کی ریاست تک رسائی کو بھی اہمیت نہیں دیتے۔

یہ رجحان بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ خواتین کی جانب سے ظاہر کیے جانے والے غم و غصے کے جواب میں لوگ اپنی صنفی ذمہ داری کو ہی بھلا دیتے ہیں۔ عموماً یہ رجحان کئی چیزوں میں نظر آتا ہے۔ اس میں ناٹ آل مین یا پھر صنفی تشدد پر آواز اٹھانے پر ’مغریبیت‘ کے حامل فیمن ازم یا عورت مارچ پر حملے کرنا بھی شامل ہوتا ہے۔ شعوری طور پر تشدد کو معاشرے میں رائج رجحان (جس کی تصدیق بھی جاسکتی ہو) کی جگہ ایک الگ تھلگ واقعہ ثابت کرنے کی کوششیں بھی اسی کا ایک مظہر ہیں۔

اس رجحان کی ایک وجہ تو تشدد کے ساتھ وابستہ کیے جانے پر ہونے والا ناگوار احساس ہوتا ہے اور دوسری وجہ اس ذمہ داری سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہوتا ہے جس کے تحت مردوں کو ثقافتی اقدار پر عمل کرنا ہوتا ہے اور ایسا نہ کرنے سے جو طاقت کا عدم توازن جنم لیتا ہے وہ پھر تشدد کا باعث بنتا ہے۔

اس کی وجہ دراصل یہ بات سمجھنے میں ناکامی ہے کہ ایک فرد معاشرے کے ایک گروہ میں کس طرح کام کرتا ہے اور سماجی قوتوں (جیسے کہ موجودہ خیالات اور ثقافتی اقدار) کے زیرِ اثر رہتے ہوئے بھی وہ اپنے ذاتی افعال کو اسی طرح کیسے پیش کرتا ہے۔ تو جب خواتین یہ کہتی ہیں کہ All Men تو دراصل ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں موجود صنفی عدم توازن ایک حقیقت بن چکا ہے اور اسے برقرار رکھنے میں تمام مردوں کا کردار ہے۔ کچھ مرد اس کا اظہار کھلے عام تشدد سے کرتے ہیں تو کچھ خواتین کے ساتھ گھر میں اور کام کی جگہوں پر امتیازی سلوک روا رکھ کر، ان پر پابندیاں عائد کرکے اور دقیانوسی خیالات کو برقرار رکھ کر اس کا اظہار کرتے ہیں۔

مزید پڑھیے: پاکستان میں عورت کی پریشانی کی وجہ صرف مرد نہیں بلکہ ...

ایک تیسرا رجحان وہ ہے جس میں صنفی بے چینی کو قوم پرستی کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد بھی خواتین کی جانب سے اٹھنے والی آوازوں کو خاموش کروانا ہوتا ہے۔ اس رجحان کے حامل افراد یہ بیانیہ پیش کرتے ہیں کہ صنفی نوعیت کے جرائم تو پوری دنیا میں ہوتے ہیں اور پاکستان کی روایات تو دراصل عورت کو تحفظ فراہم کرتی ہیں، اسکینڈینیویا میں بھی اس قسم کے واقعات ہوتے ہیں اور پاکستان میں خواتین کے تحفظ کے بارے میں خدشات کا اظہار دراصل شعوری طور پر ملک کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش ہے۔

اس رجحان کی وجہ دھوکہ دہی اور ملکی حالات (اور دنیا بھر کے حالات) سے مکمل ناواقفیت ہے اور پاکستانی مرد ان دونوں کا شکار ہیں۔

اس بات کو سمجھیے کہ جو پاکستانی ملک میں ہونے والے صنفی جرائم اور عدم مساوات پر پریشان ہوں گے وہ پاکستان کی ہی بات کریں گے۔ نور مقدم جیسے واقعے کے بعد ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ وانواتو، ایکواڈور یا ناروے میں کیا ہورہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان صنفی مساوات کے اشاریوں میں تواتر کے ساتھ نچلے درجوں میں رہتا ہے۔

عالمی مالیاتی فورم کی 2021ء کی جینڈر گیپ رپورٹ میں پاکستان کا نمبر 156 ممالک میں سے 153واں تھا۔ اس رپورٹ میں معاشی مواقع، سیاسی شراکت اور تعلیم اور صحت کی سہولیات تک رسائی شامل ہوتی ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے جینڈر ڈیولپمنٹ انڈیکس میں بھی پاکستان کا نمبر 166 ممالک میں 163واں ہے۔

مزید پڑھیے: ماؤں اور بچوں کے قاتل ہم

ضرورت سے زیادہ محب وطن افراد چاہیں تو اسے ملک کے خلاف مغربی سازش ہونے اور اس حوالے سے آواز اٹھانے والوں پر مغرب سے پیسے لینے کا الزام لگا سکتے ہیں۔ لیکن ایسے افراد کو ان حقائق کو جھٹلانے کے لیے ابھی مزید کوشش کرنا ہوگی کہ پاکستان میں خواتین روزانہ کی بنیاد پر خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہیں۔ یہاں پر صنفی جرائم کے مجرم اکثر سزا سے بچ جاتے ہیں، یہاں شہری معیشت میں خواتین کی شراکت بہت ہی کم ہے ساتھ ہی یہاں خواتین اور مردوں کو ملنے والی اجرت بھی مساوی نہیں ہے اور یہ کہ یہاں زچگی کے دوران ہونے والی اموات کی شرح مجرمانہ حد تک زیادہ ہے۔ واضح طور پر یہ حقائق ایک ایسے ملک کا نقشہ کھینچتے ہیں جہاں کی ریاست اور معاشرہ اپنی خواتین کی بالکل فکر نہیں کرتا۔

موجودہ حالات میں نور جیسی خواتین کو انصاف کی فراہمی کا راستہ بہت طویل اور دشوار گزار ہے۔ اس کے لیے ہمارے نظامِ انصاف کو اپنی ساخت کے برعکس کام کرنا ہوگا۔ لیکن مستقبل میں اس سعی کے خاطر خواہ نتائج کے حصول کے لیے ہمارے معاشرے کو بھی افسانوی رجحانات سے جان چھڑانی ہوگی۔


یہ مضمون 26 جولائی 2021ء کوڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں