میڈیا اتھارٹی بل کی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بھرپور مزاحمت کی جائے گی، سینیٹر عرفان صدیقی

اپ ڈیٹ 13 اگست 2021
عرفان صدیقی نے کہا کہ اپوزیشن، میڈیا کی آزادی کے پَر کاٹنے کی ہر کوشش کا ڈٹ کر مقابلہ کرے گی — فائل فوٹو / ڈان نیوز
عرفان صدیقی نے کہا کہ اپوزیشن، میڈیا کی آزادی کے پَر کاٹنے کی ہر کوشش کا ڈٹ کر مقابلہ کرے گی — فائل فوٹو / ڈان نیوز

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے رکن اور قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی نے پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے قیام کی حکومتی تجویز پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پہلے سے دباﺅ میں آئے ہوئے میڈیا کو مزید خوفزدہ کرنے اور آزادی اظہار رائے کو کچلنے کے مترادف ہے۔

سینئر صحافی و مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہونے والے عرفان صدیقی نے ایک جاری بیان میں افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت نے گزشتہ روز کسی اپوزیشن جماعت کو اعتماد میں لیے بغیر پارلیمنٹ ہاﺅس سے باہر، پاک۔ چین فرینڈشپ سینٹر میں قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں کی قائمہ کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس طلب کر لیا۔

انہوں نے کہا کہ چند گھنٹے قبل اجلاس کی خبر دی گئی اور بتایا گیا کہ پی ایم ڈی اے پر متعلقہ وزیر بریفنگ دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اس پر اعتراض کیا اور اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ اپوزیشن، میڈیا کی آزادی کے پَر کاٹنے کی ہر کوشش کا ڈٹ کر مقابلہ کرے گی، ایوان کے اندر اور باہر پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی شدید مزاحمت کی جائے گی جو دراصل میڈیا ڈیولپمنٹ نہیں میڈیا کو تباہ کرنے کی اتھارٹی ہے۔

مزید پڑھیں: میڈیا انڈسٹری کی نمائندہ تنظیموں نے پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو مسترد کردیا

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں الیکٹرانک میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق تیار کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کی سربراہی مجھے دی گئی، یہ امر میرے لیے باعث اعزاز ہے کہ موجودہ نافذالعمل ضابطہ اخلاق اسی کمیٹی کا تیار کردہ ہے جس کے لیے پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن نے بھی بھرپور تعاون کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کا ایک ایک لفظ اتفاق رائے سے لکھا گیا اور یہ ضابطہ سپریم کورٹ کے احکام پر جاری ہوا، اگر اس پر عمل درآمد میں کچھ مشکلات ہیں تو ان کا ازالہ کیا جاسکتا ہے۔

لیگی رہنما نے کہا کہ اسی طرح پرنٹ میڈیا کے لیے 'پریس کونسل' کو فعال بنایا جاسکتا ہے جبکہ سوشل میڈیا کے لیے بھی ضابطے موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان حالات میں ایک نئی اتھارٹی کا شکنجہ تیار کرنا نیک نیتی پر مبنی عمل نہیں سمجھا جاسکتا جبکہ اس سلسلے میں پی بی اے، پی ایف یو جے، اے پی این ایس، سی پی این ای اور دیگر تنظیموں کے تحفظات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) دیگر اپوزیشن جماعتوں سے مل کر اس طرح کی جابرانہ قانون سازی کا راستہ روکنے کی بھرپور کوشش کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں: میڈیا اداروں نے ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کی تجویز مسترد کردی

یاد رہے کہ دو روز قبل میڈیا انڈسٹری کی تمام نمائندہ تنظیموں اور ایسوسی ایشنز نے مجوزہ پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو مسترد کرتے ہوئے اس کے پیچھے قانون کو کالا قانون قرار دیا تھا۔

نمائندہ تنظیموں اور ایسوسی ایشنز کے مشترکہ بیان میں قانون پر تنقید کی گئی تھی اور ایک زیادہ مرکزی ادارے کی تشکیل کے ذریعے میڈیا کے تمام حصوں پر ریاستی کنٹرول نافذ کرنے کی طرف اٹھایا جانے والا اقدام قرار دیا گیا تھا۔

میڈیا تنظیموں نے کہا کہ بظاہر پی ایم ڈی اے کا مقصد آزادی اظہار اور پریس کو دبانا ہے۔

حکومت کی تجویز کے مطابق پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی ملک میں پرنٹ، براڈکاسٹ اور ڈیجیٹل میڈیا ریگولیشن کی مکمل طور پر ذمہ دار ہوگی۔

تبصرے (0) بند ہیں