پیرس شہر کے قلب میں واقع کونکورڈ اسکوائر اپنی حیرت انگیز اور ایک طرح سے خونی تاریخ رکھتا ہے۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں انقلابِ فرانس کے بعد بادشاہ لوئیس اور ملکہ میری کے سر قلم کیے گئے تھے۔ اسی جگہ پر 1836ء میں 75 فٹ اونچا لکسر اوبلسک (Luxor Obelisk) بھی تعمیر ہوا تھا جو فرانس کو مصر کی جانب سے ملنے والا تحفہ تھا۔

کونکورڈ کے ساتھ ہی ٹائلریز گارڈن بھی موجود ہے جو کبھی شاہی محل کی ملکیت ہوا کرتا تھا۔ وہ شاہی محل اب دنیا کا سب سے بڑا عجائب گھر بن گیا ہے جہاں سب سے زیادہ سیاح آتے ہیں۔

ٹائلریز میں بھی 2 مختلف عجائب گھر موجود ہیں۔ ان میں سے ایک ’جا دے پام‘ (Jeu de Paume) تو جدید فن کے لیے مختص ہے جبکہ دوسرا عجائب گھر اورنجیری (Orangerie) ہمارا آج کا موضوع ہے۔ اس کی تعمیر 1852ء میں نپولین سوم کے حکم پر ہوئی تھی اور اس کا مقصد نارنگی کے درختوں کو شدید برف باری سے ہونے والے نقصان سے بچانا تھا اور یہی اس کے عجیب و غریب نام کی بھی وجہ ہے۔

تاثریت پسند انداز کے مؤجد کلاڈ مونیٹ کے اکثر فن پارے پیرس کے مارموٹن عجائب گھر میں موجود ہیں تاہم ان کی بنائی گئی واٹر لِلی پینٹنگ میں سے جہازی سائز کی 8 پینٹنگ اورنجیری میں نصب ہیں۔ ان پینٹنگز کے لیے اورنجیری کی دیواروں کو خاص طور پر خم دار بنایا گیا تاکہ پینٹنگ کو مزید پر اثر بنایا جاسکے۔

کلاڈ مونیٹ پینٹنگ کرتے ہوئے، 1916ء
کلاڈ مونیٹ پینٹنگ کرتے ہوئے، 1916ء

کلاڈ 1840ء میں پیرس میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اپنا کیریئر بھی یہیں شروع کیا۔ تاہم انہوں نے اپنی زندگی کے آخری 30 برس پیرس کے شمال میں نورمنڈی کے علاقے میں موجود گیورنی نامی گاؤں کے ایک گھر میں گزارے۔

اس گھر کے ساتھ واقع جھیل واٹر لِلی سے بھری پڑی تھی۔ کلاڈ ان کے سحر میں مبتلا تھے، انہوں نے ان کا بغور مشاہدہ کرنا شروع کیا اور 30 سالوں تک مختلف سائز کے قرطاس پر انہیں پینٹ کرتے رہے یہاں تک کہ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ واٹر لِلی پر وہ 250 فن پارے تخلیق کرچکے تھے۔ واٹر لِلی کی ان کی آخری 8 پینٹنگ 1915ء سے 1926ء کے درمیان تخلیق کی گئیں جو جہازی سائز کی تھیں۔

کلاڈ نے اپنے دوست کو لکھے گئے ایک خط میں کہا کہ ’پانی کی دلکش سطح کو اتنے بڑے پیمانے پر دوبارہ بنانا میرے لیے اب جنون بن گیا ہے۔ میری عمر 80 سال سے زائد ہوچکی ہے اور اس عمر میں یہ کام خود پر جبر کرنے کے مترادف ہوگا لیکن میں مجبور ہوں، مجھے اپنے تصورات کا اظہار انہی قرطاس پر منتقل کرکے کرنا ہے پھر چاہے اس قرطاس کا سائز کچھ بھی ہو‘۔

ہارمنی اِن بلوز
ہارمنی اِن بلوز

ان فن پاروں کی خاص بات ان میں نظر آنے والے نیلے آسمان، سفید اور سرمئی بادلوں، پرندوں، درختوں اور مجوعی طور پر قدرت کا عکس ہے جو اپنے تمام رنگوں کے ساتھ پانی کے سطح پر نظر آتا ہے۔ ساتھ ہی اس سطح پر بطخیں اور دیگر پرندے اور ساتھ ہی پھول تیر رہے ہوتے ہیں۔

مارموٹن عجائب گھر میں کلاڈ کی جانب سے واٹر لِلی کی بنائی گئی عمومی سائز کی پینٹنگ بھی اپنے آپ میں قابلِ تعریف ہیں۔ تاہم اورنجیری میں نصب پینٹنگ بالکل منفرد ہیں کیونکہ یہاں موجود آٹھوں پینٹنگ تقریباً 7 فٹ اونچی اور 35 فٹ طویل ہیں۔ ان میں سے 4 پینٹنگز میں سورج طلوع ہونے کا منظر دکھایا گیا ہے اور یہ گیلری کے ایک حصے میں نصب ہیں۔

باقی 4 پینٹنگ میں سورج غروب ہونے کے وقت کی منظر کشی ہے اور ان کا انداز بھی مختلف ہے۔ ان میں کلاڈ تجریدیت کی جانب جاتے ہوئے نظر آئے ہیں، انہوں نے ایک ایسے سادہ طریقے کو متعارف کروایا جس نے آگے چل کر کئی فنکاروں کو متاثر کیا۔ کلاڈ کے ان آخری فن پاروں کو دیکھ کر یہ بات سمجھ آجاتی ہے کہ بعد میں آنے والے مصوروں جیسے پابلو پکاسو اور واسلی کینڈنسکی کو تحریک کہاں سے ملی۔

ان دنوں شدید بارش کے باوجود اورنجیری کے باہر لوگوں کی طویل قطار نظر آتی ہے جو اندر داخلے کے منتظر ہوتے ہیں۔


یہ مضمون 22 اگست 2021ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس مگزین میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں