کسی تبتی راہب کی طرح میں نے ای کامرس اور رسد کی پیدا کردہ آسائشوں کو ترک کرکے پرہیزگاری کی زندگی گزارنے کا عہد کیا۔ میرے عہد نے مجھے برقی دنیا کی لالچوں، خواہشات اور برائیوں سے پاک سادگی سے سرشار زندگی گزارنے پر مجبور کیا۔

یہ فیصلہ میں نے کسی عقیدے یا روحانی تجربے سے متاثر ہوکر نہیں کیا تھا اور نہ ہی یہ میری اپنی خواہش تھی۔ دراصل آن لائن خریداری کے ذریعے دنیاوی چیزیں منگوانے کے طریقہ کار سے میری نفرت کی وجہ مجھے بار بار ملنے والے دھوکے تھے۔ یہ میرے اکاؤنٹ کی توبہ کا اثر اور میری مظلوم روح کو مزید درد اور دغابازیوں سے بچانے کی خاطر میرے دماغی خلیوں کے پیدا کردہ جذباتی سیلف ڈیفنس مکینزم کا ثمر تھا۔

میری عمر کے لوگ اپنی سلگتی خواہشات کو فوری طور پر ٹھنڈا کرنے کی خاطر لازوال خوشیوں، سچے پیار اور چوبیس گھنٹوں میں سامان دہلیر تک پہنچانے کی ضمانت دینے والی ورچؤل جنت کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں۔ ہم جن چیزوں کے مستحق تھے ہمیں وہی دکھائی گئیں۔ پھر چیزیں ہمارے سامنے تھیں اور بتایا جاتا کہ چند مرحلوں کو پار کیجیے، سائن اپ کیجیے، اور ایک سادہ سے ٹیسٹ کے ذریعے رات کے 2 بجے بنا زیادہ سوچے سمجھے اپنے پیسے بہانے کی صلاحیت رکھنے کا ثبوت دینے والا انسان ثابت کیجیے۔

ظاہری چمک دمک کا جادو چل جاتا اور میں اور میرا کریڈٹ کارڈ آسان و سہل خریداری اور دہلیر پر سامان پہنچانے کے وعدے پر یقین کر بیٹتھے۔

شروع میں تو یہ سب اچھا بلکہ زبردست سا محسوس ہوتا۔ جب کسی چیز کا انتخاب کرنے لگتی تو دھڑکن تیز اور سانسیں تھم سی جاتیں۔ کئی مرتبہ تو سفر کے دوران محض وقت گزاری کے لیے مختلف آپشنز پر نظریں پھیرا کرتی۔ آن لائن خریداری کے ذرائع پر کچھ ایسی چیزیں بنا سوچے سمجھے دیکھا کرتی جو بچپن میں کبھی نہ مل سکیں۔ کچھ چیزوں کو دیکھ کر ہی ان پر دل آجاتا اور ان کا انتخاب کرلیتی حالانکہ ان سے متعلق خدشات موجود ہوتے، مگر مجھ پر ان کا کچھ اثر نہ ہوتا۔ اس کے بعد کچھ چیزیں ایسی تھیں جو میری قوت خرید سے باہر تھیں، جیسے مہنگی ریشم اور اتالوی چمڑے سے بنی وہ مصنوعات جو خریدنا تو چاہتی تھی مگر قیمت دیکھنے کی بھی ہمت نہ ہوتی۔

کچھ چیزوں کی قیمت اور افادیت کا گہرائی سے موازنہ کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ آیا وہ چیزیں وقت اور سرمایہ لگانے کے قابل ہیں بھی یا نہیں۔ آیا میں اس چیز کا استعمال ایک سے زائد بار کرسکتی ہوں یا نہیں؟ آیا ہمارا مستقبل سانجھا ہے بھی یا نہیں؟

پھر کچھ ایسی چیزیں تھیں جو ہاتھ سے نکل جاتیں، جنہیں نہ خرید کر پچھتاوا ہوتا اور پورا دن اس خریدار پر غصہ آرہا ہوتا جس نے مجھ سے پہلے وہ چیز خرید لی ہوتی۔

خاکہ بشکریہ فاروق داود
خاکہ بشکریہ فاروق داود

کبھی کبھی صبح اٹھتی تو خبر ملتی کہ میرا سامان پہنچا دیا گیا ہے۔ مگر ساتھ ہی آن لائن دکانوں کی نئی پیش کش کے ساتھ متعدد ای میلز موصول ہونا شروع ہوجاتیں اور میں ایک بار پھر لنچ بریک میں ان چیزوں کا جائزہ لینے بیٹھ جاتی یوں خریداری کا سلسلہ جاری رہتا۔

ان ای میلز کی ابتدا یوں ہوتی کہ، ‘Hey gorgeous, you left these in the cart’۔ اگرچہ ان ای میلز میں ہاتھ نہیں پھیلائے جاتے مگر آرزو کا اظہار ہوتا۔ ایسی ای میلز مجھے خریداری پر اگرچہ مجبور نہ سہی لیکن اکساتی ضرور تھیں، بعض اوقات تو ان کے ساتھ کوپن بھی مل جاتا، یوں سمجھیے کہ ان ای میلز نے مجھے قائل کردیا تھا کہ ہم بنے ہی ایک دوسرے کے لیے ہیں۔

ہماری قربت بڑھنی ہی تھی۔ وہ مجھے بہترین چیزیں دکھاتیں، جبکہ میں اسے معیاری اور سستی سمجھ کر منگوا لیتی۔ اکثر اوقات مجھے جو کہا جاتا میں وہی کر بیٹھتی۔ مگر یہ دوستی کا جذبہ زیادہ دیر تک زندہ نہ رہ سکا۔

ہر بار سبز باغات دکھانے پر میں اپنے اندر نیا جوش پیدا کرتی اور نئی امید باندھتی لیکن بالآخر فریب اور جھوٹے وعدوں نے مجھے توڑ کر رکھ دیا اور میں خود کو لاچار محسوس کرنے لگی۔

ماضی کی ان دوستیوں کی نشانیاں میرے بھولے پن کا تمسخر اڑاتیں، افسوس کہ 'نو ایکسچینج اور نو ری فنڈ پالیسی' کی وجہ سے ان نشانیوں سے جان بھی نہیں چھڑا سکتی۔ رابطوں کی بحالی یا تعلقات میں مسائل کا سبب جاننے کی کوشش کرتی تو تکلیف اور گھبراہٹ میں اضافہ ہی ہوتا۔

میں کئی کئی دن ان سوالوں کے بارے میں سوچتی جن کے جواب کوریئر والوں کے ٹریکنگ سسٹم نہیں دے پا رہے تھے۔ مجھ سے دغا بازی ہوئی، مجھ سے جھوٹ بولا گیا۔ مجھے وہ چیزیں بیچی گئی تھیں جو آن لائن ذرائع پر دکھائی گئی چیزوں سے دُور دُور تک کوئی مماثلت نہیں رکھتی تھیں۔

سوچا کہ شاید کوئی غلط فہمی ہوگئی ہوگی۔ میں نے دوبارہ رابطہ کرنے کی کوشش کی تو خود کو ہر خطا کا قصور وار پایا، ہر دروازہ بند پایا اور بلاک پایا۔ کئی مواقع پر مجھے جواب دینا تک گوارا نہیں کیا گیا۔ اگلی ہولی ڈے سیل کے سیزن سے پہلے تک میں تو جیسے بھولی ہوئی داستان بن کر رہ جاتی۔

یہی وجہ ہے کہ ذہنی الجھنوں کو دُور کرنے کے لیے جس تھراپسٹ کے پاس آئی تھی، اس کے دفتر کے ایک کونے میں کھڑی میں اور میری غیر ضروری خریداری کی عادت نے یہ فیصلہ کیا کہ بس، اب بہت ہوا۔

بے وفائی کے روگ نے مجھے بڑھکا دیا تھا۔ میں نے طے کرلیا کہ جب تک متعلقہ ڈپارٹمنٹ اپنی غلطی کو نہیں سدھارے گا تب تک میں چین سے نہیں بیٹھوں گی۔

اگرچہ میری غیر معاون، نامناسب اور مہنگی تھراپسٹ نے میرے بڑھکنے کو غلط قرار دیا لیکن وہ اس بات سے اتفاق کرتی تھیں کہ اگر میں کچھ عرصے کے لیے آن لائن خریداری ترک کردوں تو اچھا رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ دو برس قبل میں نے رہبانیت کی راہ پر چلنے اور تن تنہا در و دیوار والی دکانوں سے خریداری کی ڈنکے کی چوٹ پر حمایت کا عہد کرلیا۔ میں نے خود سے وعدہ کیا کہ کوئی بھی جوتا خریدنے سے پہلے اسے پہن کر دیکھوں گی اور تب ہی اس کی قیمت ادا کروں گی۔ یعنی جب وہ جوتا میرے پیر میں پورا آئے گا اور چند قدم چل کر اس کے آرام دہ ہونے کی تسلی ہوجائے گی۔

مگر جب سے کاروباری مراکز بند ہوئے ہیں تب سے میں نے خود کو تنہا، سہما ہوا اور اشیائے ضروریہ سے محروم پایا۔ اس لیے میں نے ہمت کرکے ایک بار پھر آن لائن ذرائع سے ہفتے بھر کی اشیائے ضروریہ منگوالیں۔

اور یوں ایک بار پھر میں دنیا کے خاتمے پر مبنی کسی فلم میں بندوق سے لیس ہیرو کی طرح دہلیر پر اپنے سامان کا انتظار کرنے لگی ہوں۔


یہ مضمون 5 ستمبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

hanif Oct 01, 2021 10:59am
Nice