’آسیان سربراہی اجلاس میں میانمار فوجی حکومت کے سربراہ کو مدعو نہیں کیا جائے گا‘

اپ ڈیٹ 17 اکتوبر 2021
میانمار نے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے الزام لگایا کہ آسیان نے رکن ممالک کے گھریلو معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی کی خلاف ورزی کی ہے—فائل فوٹو: رائٹرز
میانمار نے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے الزام لگایا کہ آسیان نے رکن ممالک کے گھریلو معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی کی خلاف ورزی کی ہے—فائل فوٹو: رائٹرز

بندر بیگوان: میانمار کی فوجی حکومت کے سربراہ کو جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان) کے آئندہ سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت نہیں دی جائے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آسیان کی جانب واضح کیا گیا کہ میانمار میں آمریت پر مبنی حکومت نے خونریز معاملات روکنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: میانمار: فوجی بغاوت کے خلاف ایک لاکھ سے زائد افراد کا احتجاج

آسیان کے سربراہ برونائی نے ایک بیان میں کہا کہ آسیان کے وزرائے خارجہ نے ایک ہنگامی اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا کہ میانمار کے لیے ایک ’غیر سیاسی نمائندے‘ کو 28-26 اکتوبر کے سربراہی اجلاس میں مدعو کیا جائے گا۔

آسیان کے فیصلے سے فوجی حکومت کے سربراہ من آنگ ہلنگ کو مؤثر طریقے سے خارج کر دیا گیا ہے۔

میانمار نے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے الزام لگایا کہ آسیان نے رکن ممالک کے داخلی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی کی خلاف ورزی کی ہے۔

میانمار کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ میانمار انتہائی مایوس ہے اور ہنگامی وزرائے خارجہ کے اجلاس کے نتائج پر سخت اعتراض کرتا ہے کیونکہ میانمار کی نمائندگی کے مسئلے پر بات چیت اور فیصلہ اتفاق رائے کے بغیر کیا گیا تھا اور آسیان کے مقاصد کے خلاف تھا۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار: اقتدار پر قبضے کے بعد فوج کی کارروائیوں میں 40 سے زائد بچے جاں بحق

علاوہ ازیں جنتا کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل زاو من تون نے بتایا کہ غیر آسیان ممالک کی ’مداخلت‘ بھی ایک عنصر رہا ہے۔

انہوں نے امریکی وزیر خارجہ اور آسیان کے خصوصی ایلچی برونائی کے دوسرے وزیر خارجہ ایریوان یوسف کے درمیان ملاقات سے قبل بات چیت کی اور یورپی یونین کے دباؤ سے متعلق بھی آگاہ کیا۔

میانمار کی جانب سے ایک خصوصی ایلچی ’تمام اسٹیک ہولڈرز‘ سے ملنے کی درخواستوں کو مسترد کیے جانے کے بعد آسیان نے ایک مضبوط مؤقف اختیار کیا، تمام اسٹیک ہولڈرز سے مراد معزول رہنما آنگ سان سوچی ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ آسیان رہنماؤں کی جانب سے اپریل میں بغاوت کے بعد ہنگامہ آرائی کے خاتمے کے لیے 5 نکاتی منصوبے پر عملدرآمد میں ناکافی پیش رفت ہے۔

مزید پڑھیں: میانمار میں فوجی اقتدار کے خلاف 'کچرے کی ہڑتال'، سڑکوں پر کچرے کے ڈھیر

رواں برس فروری میں میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف ایک لاکھ سے زائد افراد سڑکوں پر نکل آئے اور آمریت کے خلاف بھرپور نعرے بازی کی تھی۔

مظاہرین نے فوج کے اس دعوے کو مسترد کردیا تھا کہ انہیں عوامی کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔

میانمار کے فوجی جرنیلوں نے حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد 75 سالہ آنگ سان سوچی سمیت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے درجنوں رہنماؤں کو گرفتار کر لیا تھا۔

جرنیلوں نے اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے اس کی وجہ پچھلے سال نومبر میں ہوئے انتخابات میں دھاندلی کو قرار دیا جہاں مذکورہ انتخابات میں نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے کلین سوئپ فتح حاصل کی تھی۔

میانمار میں فوج نے کئی دہائیوں تک حکومت کی لیکن ایک دہائی قبل عوامی حکومت کو اقتدار سنبھالنے کا موقع دیا۔

فوجی حکومت میں زیادہ عرصہ تک نظربند رہنے والی اپوزیشن لیڈر آنگ سان سوچی کو ان کی کاوشوں پر امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں