مخنث افراد سے متعلق قانون کے خلاف درخواستوں پر اٹارنی جنرل سے معاونت طلب

اپ ڈیٹ 28 اکتوبر 2021
زشتہ چار سالوں کے دوران 80 مخنثوں کو قتل کیا گیا—فائل فوٹو: اے پی
زشتہ چار سالوں کے دوران 80 مخنثوں کو قتل کیا گیا—فائل فوٹو: اے پی

اسلام آباد: وفاقی شرعی عدالت (ایف ایس سی) نے ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 کے خلاف دائر درخواستوں پر اٹارنی جنرل فار پاکستان سے معاونت طلب کرلی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ درخواستوں میں مخنث افراد سے متعلق اس قانون کو اسلامی احکام کے منافی قرار دیا گیا تھا۔

وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی، جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین ایم شیخ پر مشتمل فل بینچ نے عرفان خان اور دیگر کی دائر کردہ درخواستوں پر سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ میں ’مخنث افراد کے تحفظ‘ کا بل متفقہ طور پر منظور

عدالت نے آئین کی دفعہ 203 (د) کے تحت اختیارات استعمال کرتے ہوئے اپنا دائرہ اختیار سنبھال لیا ہے۔

قانون کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا اور حکم دیا کہ جو شخص بھی اس مقدمے میں فریق بننے کا ارادہ رکھتا ہے وہ انہیں اس معاملے میں شامل کرسکتے ہیں۔

عدالت نے ٹی وی اینکر اوریا مقبول جان، عائشہ مغل اور ببلی ملک کو بھی ان درخواستوں میں فریق بننے کی اجازت دے دی جنہیں اب پٹیشنز میں درخواست گزار قرار دے دیا گیا ہے۔

بعدازاں ایک مخنث لیکچرار عائشہ مغل نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ عدالت میں اپنا جواب جمع کروائیں گی۔

مزید پڑھیں: عدالت نے خواجہ سرا قیدیوں کیلئے الگ بیرکس کی تفصیلات طلب کرلیں

انہوں نے کہا کہ مخنث برادری ایک کمزور طبقہ بن گئی ہے کیونکہ گزشتہ چار سالوں کے دوران 80 مخنثوں کو قتل کیا گیا لیکن کسی بھی قاتل کو سزا نہیں ملی اور وہ آزاد گھوم رہے ہیں۔

سماعت میں عدالت نے کہا کہ چونکہ معاشرے کے ایک طبقے کا ماننا ہے کہ خواجہ سراؤں کے حقوق غصب کیے گئے ہیں جبکہ دوسرے طبقے کا کہنا ہے کہ یہ قانون مذہب کے احکام کے خلاف ہے اس لیے اٹارنی جنرل سے معاونت کا حصول ضروری ہوگیا ہے۔

تاہم عدالت نے کہا کہ ملک کے شہری ہونے کے ناطے خواجہ سراؤں کو آئین میں درج تمام حقوق حاصل ہیں۔

خیال رہے کہ 8 مئی 2018 کو قومی اسمبلی نے خواجہ سراؤں کو قانونی شناخت فراہم کرنے، امتیازی سلوک اور ہراسانی کی روک تھام کے لیے ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹ) ایکٹ نافذ کیا تھا۔

مذکورہ قانون مقامی حکومتوں پر مخنث افراد کی فلاح و بہبود کی ذمہ داری عائد کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عدالت نے خواجہ سرا قیدیوں کیلئے الگ بیرکس کی تفصیلات طلب کرلیں

یہ قانون خواجہ سراؤں کی تعریف بھی بیان کرتا ہے کہ خواجہ سرا مرد، خواجہ سرا خواتین اور کوئی بھی شخص جس کی صنفی شناخت یا صنفی اظہار پیدائش کے وقت تفویض کردہ جنس سے مختلف ہو وہ خواجہ سرا ہیں۔

اس کے ساتھ یہ قانون خواجہ سراؤں کے ساتھ تعلیم، ملازمت اور صحت کی دیکھ بھال میں امتیازی سلوک سے روکتا اور جنس، صنفی شناخت اور صنفی اظہار کی بنیاد پر گھر کے اندر اور باہر ہراساں کرنے سے منع کرتا ہے۔

اس قانون میں اس بات پر زور دیا گیا کہ خواجہ سراؤں کو پاکستان کے آئین میں درج تمام بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔

علاوہ ازیں یہ قانون خواجہ سراؤں کے جائیداد کی وراثت، ووٹنگ، تعلیم، ملازمت، صحت کی دیکھ بھال، عوامی مقامات تک رسائی اور عوامی دفاتر رکھنے کے حق کو بھی تسلیم کرتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں