افغانستان میں انسانی بحران کی صورت میں پاکستان کو مہنگائی سامنا کرنا پڑے گا، رپورٹ

اپ ڈیٹ 01 نومبر 2021
رپورٹ میں جولائی سے ستمبر 2021 تک کے عرصے کا احاطہ کیا گیا —فائل فوٹو: رائٹرز
رپورٹ میں جولائی سے ستمبر 2021 تک کے عرصے کا احاطہ کیا گیا —فائل فوٹو: رائٹرز

اسلام آباد: اگر افغانستان میں کوئی انسانی بحران پیدا ہوتا ہے تو پاکستان میں مہنگائی اور اشیائے خورونوش کی قیمتیں مزید بڑھ سکتی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پی آئی پی ایس) کی تیار کردہ تحقیقی رپورٹ میں اس بات کو اجاگر کیا گیا ہے کہ پاکستان کو افغانستان کے حوالے سے مزید محتاط نقطہ نظر اپنانا چاہیے کیوں کہ ہمسایہ ملک میں اقتدار کی تبدیلی سے پیدا ہونے والی صورتحال نے اس کے لیے تزویراتی اور سلامتی تحفظات کا پینڈورا باکس کھول دیا ہے‘۔

پہلی سہ ماہی مانیٹرنگ رپورٹ ’افغان امن اور مفاہمت پر پاکستان سے نقطہ نظر‘ کے عنوان سے جاری کی گئی جس میں خبردار کیا گیا کہ اگر مغربی ہمسایے میں کوئی انسانی بحران پیدا ہوا تو پاکستان وہ پہلا ملک ہوگا جہاں مہنگائی اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ کا افغانستان میں انسانی بحران سے نمٹنے کیلئے 60 کروڑ ڈالر کا مطالبہ

رپورٹ میں جولائی سے ستمبر 2021 تک کے عرصے کا احاطہ کیا گیا اور یہ پاکستان کے قومی، سوشل میڈیا اور بین الاقوامی میڈیا کی روزانہ کی نگرانی اور افغان مسئلے پر سیاست دانوں، دانشوروں اور ماہرین کے تفصیلی انٹرویوز کی بنیاد پر تیار کی گئی۔

رپورٹ کے اہم نقطے میں کہا گیا کہ پاکستان کو خشکی سے گھرے افغانستان میں قیام امن اور انسانی امداد کی فراہمی کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔

ساتھ ہی اپنے ہمسایہ ممالک چین، ایران اور بھارت سے بھی دوستانہ تعلقات قائم کرنے اور تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ افغانستان میں پراکسی جنگ سے بچا جاسکے، جو یقینی طور پر سب سے زیادہ پاکستان کو متاثر کرے گی۔

ملک کی مذہبی۔سیاسی تنظیموں اور مذہبی تنظیموں نے بھی طالبان کا بھرپور خیر مقدم کیا تھا اور ان کو ان کی نام نہاد کامیابی پر سراہا تھا۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں بحران کو روکنے کیلئے طالبان کے ساتھ بین الاقوامی رابطوں پر زور

تاہم بڑی سیاسی جماعتوں نے افغان صورتحال کے پاکستان پر ممکنہ اثرات کی نشاندہی کرتے ہوئے احتیاط کا مظاہرہ کیا اور حکومت سے پارلیمان میں بحث کا مطالبہ کیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اسلام آباد نے افغانستان میں جامع حکومت کی حمایت کی تھی لیکن ساتھ ہی اس بنیادی تشویش کا بھی اظہار کیا تھا کہ طالبان کو افغان سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دینی چاہیے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پاکستان عالمی برادری پر طالبان سے رابطوں کے لیے زور ڈالتا رہا ہے تاکہ انسانی بحران، نظام حکومت کی تباہی اور پہلے سے جنگ زدہ ملک کو خانہ جنگی سے بچایا جاسکے۔

علاوہ ازیں ملک کی فوجی قیادت کا نقظہ نظر یہ ہے کہ افغانستان اور پاکستان کا امن باہمی طور پر منسلک ہے اور ساتھ ہی خبردار بھی کر رہی ہے کہ بگاڑ پیدا کرنے والوں کو امن عمل متاثر کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کی آمد کے بعد افغانستان کے معاشی چیلنجز اور ان کا حل

رپورٹ میں پاکستانی میڈیا کے تبصرے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ طالبان کے کنٹرول نے بھارت کی جانب سے سرحدی صوبوں میں گڑبڑ پیدا کرنے کے لیے افغان سرزمین کے استعمال سے متعلق پاکستان کے خدشات دور کردیے ہیں۔

رپورٹ کا مزید کہنا تھا کہ اس سیاسی بحران کے دوران پاکستان نے اپنی اقتصادی، سیکیورٹی اور سیاسی مشکلات کی وجہ سے بارہا افغان مہاجرین کو ملک میں دوبارہ آباد کرنے کی اجازت دینے سے انکار کیا ہے۔

رپورٹ میں آزاد ماہرین کے حوالے سے کہا گیا کہ پاکستان کو یقین ہے کہ وہ عدم تحفظ اور تشدد کے حوالے سے افغان صورت حال کے ممکنہ نتائج سے نمٹ سکتا ہے، یہ اعتماد ’خطرے کے کمزور جائزے پر‘ بنیاد کرتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں