لکھاری نے معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری فل برائیٹ اسکالر شپ سے حاصل کی ہے
لکھاری نے معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری فل برائیٹ اسکالر شپ سے حاصل کی ہے

یہ 1971ء کا سال اور بیروت کا سنہری دور ہے۔ ایک نوجوان پاکستانی طالب علم خوشی سے نہال تھا کیونکہ وہ معروف امریکی یونیورسٹی آف بیروت میں پڑھنے کے لیے ابھی ابھی بیروت پہنچا تھا۔

آخر وہ خوش کیوں نہ ہوتا؟ اس یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کو شہرت اور دولت سے بھرپور زندگی کی چابی سمجھا جاتا تھا۔ بیروت کے شہدا چوک پر چہل قدمی کرتے ہوئے اس نے حیرت سے ایک پوسٹر کو دیکھا۔ یہ پوسٹر مشہور لبنانی گلوگار فیروز کے ایک آنے والے کانسرٹ کے بارے میں تھا۔

چوک سے کچھ ہی دُور اس طالب علم نے لبنانی فلم اسٹار سمیرا توفیق کے کارڈ بورڈ کٹ آؤٹ کو تعریفی نظروں سے دیکھا۔ اس وقت ان کٹ آؤٹ کو نصب کیا جارہا تھا۔ طالب علم کو احساس ہوا کہ بیروت کے عیسائی، دروز اور مسلمانوں کا بھائی چارے کے ساتھ رہنا اور ایک ساتھ کام کرنا کامیاب معاشی اور ثقافتی جدت کی مثال ہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ بیروت یقیناً لندن، پیرس اور نیویارک کا مقابلہ کرسکتا ہے۔

مگر 50 سال بعد بیروت میں پارلیمان کی کارروائی اندھیرے میں جاری ہے کیونکہ بجلی کے پیداواری اداروں کے پاس ایندھن ختم ہوگیا ہے۔ کھانے کی دکانوں کے باہر لوگوں کی طویل قطاریں لگی ہیں لیکن وہاں کھانا دستیاب نہیں ہے۔ اسپتالوں میں ادویات نہیں ہیں یہاں تک کہ درد میں آرام دینے کی عام دوائیں تک ختم ہوچکی تھیں۔

مزید پڑھیے: لبنان مکمل طور پر تاریکی میں ڈوب گیا، کئی دن تک بجلی نہ آنے کا خدشہ

یہ اب بیروت میں معمول بن چکا ہے۔ مہنگی رہائشی عمارتیں اب خالی رہنے لگی ہیں کیونکہ وہاں کے رہائشی یا تو ملک سے باہر چلے گئے ہیں یا انہیں گھروں سے نکال دیا گیا ہے۔ شہر کے پُررونق چوراہے اب اندھیرے میں ڈوبے رہتے ہیں اور کبھی کبھار کوئی سایہ کچرے کے ڈھیر میں بچا ہوا کھانا تلاش کرتے ہوئے نظر آجاتا ہے۔ تو آخر یہ عظیم شہر اس صورتحال کا شکار کیسے ہوا؟

1975ء میں شروع ہونے والی لبنان کی خانہ جنگی سے قبل بیروت کو یہاں کے تعلیم یافتہ افراد اور متنوع ثقافت کی وجہ سے ’مشرق وسطیٰ کا پیرس‘ کہا جاتا تھا۔ 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں یونیورسٹی کے ایک جدید اور متنوع نظام کی وجہ سے پالیسی سازوں کو انسانی سرمائے کی فراہمی بہتر بنانے میں مدد ملی۔ اس وجہ سے خدمات کے شعبے اور خاص طور پر مالی ثالثی کے شعبے میں لبنان نے ایک خاص مقام حاصل کرلیا۔

خانہ جنگی سے قبل کے 10 سالوں میں لبنان کی معیشت میں سالانہ 6 فیصد کا اضافہ ہورہا تھا جبکہ مہنگائی 5 فیصد پر برقرار رہی۔ ان معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں کرنٹ اکاؤنٹ اور فسکل سرپلس پیدا ہوا۔ اس عرصے میں جو سیاح بیروت گھومنے کے بعد ایتھنز کا دورہ کرتے تھے وہ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے کہ بیروت کی چمک دمک کے آگے یونان کا دارالحکومت ماند پڑجاتا ہے۔

تاہم جس بات کا ڈر تھا وہ ہو ہی گیا۔ موجودہ معاشی بحران اس قدر شدید ہے کہ عالمی بینک نے اسے 1800ء کے بعد سے سخت ترین معاشی بحران قرار دیا ہے۔ 2019ء کے بعد سے لبنانی پونڈ کی قدر 90 فیصد کم ہوچکی ہے۔ کچھ تخمینوں کے مطابق اشیا خور و نوش کی قیمتوں میں 550 فیصد اضافہ ہوچکا ہے اور اس کی وجہ سے ماضی کے اوسط آمدن والے ملک میں تین چوتھائی لوگ غربت کا شکار ہوچکے ہیں۔

یہاں بجلی کی فراہمی کئی کئی دن تک معطل رہتی ہے جبکہ درآمد شدہ اشیائے خور و نوش، ادویات اور یہاں تک کہ پیٹرول بھی اب عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوگیا ہے۔ 2020ء میں لبنان کی معیشت 20 فیصد تک سکڑ گئی اور تخمینوں کے مطابق سال 2021ء یہ مزید 10 سے 15 فیصد سکڑے گی۔ یہ صرف معاشی بحران نہیں بلکہ ایک انسانی المیہ ہے۔

بیروت کے بدلتے حالات کی وضاحت لبنان کے سیاسی نظام کی ناکامی اور بڑھتی ہوئی کرپشن سے کی جاسکتی ہے۔ مختلف مذہبی فرقوں اور بعض اوقات غیر ملکی قوتوں کی نمائندگی کرنے والی سیاسی جماعتوں کے مابین جھگڑوں نے ملکی معاملات کو ٹھپ کردیا۔

2014ء سے 2018ء کے درمیان تو لبنان میں کوئی صدر بھی نہیں تھا۔ یورپی پارلیمان نے عدم استحکام میں ملوث سیاسی شخصیات پر پابندی عائد کرنے کی دھمکی دی تو لبنان کی سیاسی جماعتوں نے ایک سال تک برقرار رہنے والے سیاسی ڈیڈ لاک کے بعد ستمبر کے مہینے میں بلآخر حکومت بنالی۔ کچھ سال پہلے ہی لبنان کے دیوالیہ ہونے کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوچکے تھے لیکن اس معاشی بحران سے بچنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ سایسی سازشوں کے پیچھے دراصل کک بیکس اور ناجائز رقم کے حصول کے لیے ہونے والے جھگڑوں کا ہاتھ ہے۔ رانیہ ابو زیدی نے حال ہی میں نیویارک ٹائمز میں اس بات کی نشاندہی کی کہ لبنان میں حکومتی عہدے میرٹ کی بنیاد پر نہیں دیے جاتے۔ ان کے مطابق یہ عہدے ’محصصة‘ کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سرکاری عہدے من پسند فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہی دیے جاتے ہیں۔

لبنان میں اعلیٰ ترین ادارے بھی کرپشن سے پاک نہیں ہیں۔ لبنان کے مرکزی بینک کے گورنر کو بڑی حد تک موجودہ معاشی بحران کا ذمہ دار تصور کیا جاتا ہے۔ وہ 2019ء میں معاشی بحران کے آغاز سے کچھ ہی پہلے ’ناجائز ذرائع‘ سے کمائی گئی دولت کو ملک سے باہر منتقل کرنے کے الزام میں زیرِ تفتیش ہیں۔

2020ء میں بیروت میں ہونے والے خوفناک دھماکے میں 216 افراد ہلاک ہوگئے تھے تاہم اس دھماکے کی تحقیقات میں بہت زیادہ پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔ یوں اس بارے میں شبہات جنم لے رہے ہیں کہ شاید ملک کی عدلیہ بھی اب شفاف انداز میں کام نہیں کررہی ہے۔

حیرت انگیز طور پر پاکستان، جس نے 1971ء میں اپنا ایک بازو کھو دیا تھا اس کی صورتحال لبنان کے مقابلے میں بہت اچھی ہے۔ بیروت کے مقابلے میں کراچی کے حالات نسبتاً بہتر ہیں، یا یوں کہیے کہ فی الحال بہتر ہیں۔

پاکستان کی سیاست میں اختلافات کی کمی نہیں ہے لیکن یہاں کی سیاسی جماعتیں قومی مفادات کے معاملے پر کئی مرتبہ آپس میں مل بیٹھیں ہیں۔ پاکستان میں وفاقی یا صوبائی بیوروکریٹس کے انتخاب کا نظام بھی میرٹ پر مبنی ہے جو فرقہ وارانہ بنیاد پر سرکاری ملازمت کی تقسیم کو کم کردیتا ہے۔ اس کے علاوہ شدید دباؤ کے باوجود پاکستان کے معاشی پالیسی ساز کسی حد تک کلیاتی معاشی (macroeconomic) استحکام کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو لبنان کا سیاستدان طبقہ مسلسل لوٹ مار اور طاقت کے حصول میں مشغول رہا اور کبھی اپنے قلیل مدتی ایجنڈوں سے بڑھ کر نہیں سوچ سکا۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غیر یقینی اور معاشی پالیسی کے ٹھہراؤ نے عرب دنیا اور اسلامی دنیا کے لیے امید کی کرن رہنے والے معاشرے اور معیشت کو تباہ و برباد کردیا۔

پاکستانی پالیسی ساز شدید معاشی چیلنجز سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس پس منظر میں لبنان کی اس افسوسناک کہانی میں کئی سبق موجود ہیں۔ شاید ان میں سے سب سے اہم سبق یہ ہے کہ سیاسی رسہ کشی، پالیسیوں میں آنے والا ڈیڈ لاک اور رشوت کامیاب ترین اقوام کو بھی ختم کردیتی ہے۔


یہ مضمون 19 نومبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں