انگلش کرکٹ میں شراب نوشی کلچر ایشیائی اور سیاہ فام کھلاڑیوں پر اثر انداز

19 نومبر 2021
اس نئے اسکینڈل نے انگلینڈ میں کھیل کے شعبے کو دہلا کر رکھ دیا — فائل فوٹو / رائٹرز
اس نئے اسکینڈل نے انگلینڈ میں کھیل کے شعبے کو دہلا کر رکھ دیا — فائل فوٹو / رائٹرز

ویسٹ انڈیز کے سابق کھلاڑی ٹینو بیسٹ کا کہنا ہے کہ انگلش کرکٹ میں ایشیائی اور سیاہ فام کھلاڑیوں کو مواقع نہ ملنے کی وجہ کسی حد تک کاؤنٹی ٹیموں میں موجود ’شراب نوشی کا کلچر‘ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق منگل کو سابق کرکٹر عظیم رفیق کی برطانوی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے گواہی نے انگلینڈ کرکٹ میں موجود نسل پرستی کے ساتھ ساتھ شراب نوشی کے کلچر کو بھی نمایاں کردیا ہے۔

مسلمان کھلاڑی عظیم رفیق نے بتایا کہ جب وہ 15 سال کے تھے تو مقامی کرکٹ کلب میں ان پر دباؤ رکھا گیا تھا اور یارکشائر اور ہیمپشائر کے لیے کھیلنے والے ایک نامعلوم کھلاڑی نے انہیں زبردستی ریڈ وائن بھی پلادی تھی۔

اس نئے اسکینڈل نے انگلینڈ میں کھیل کے شعبے کو دہلا کر رکھ دیا، اس سے یارکشائر کے اسپانسرز اور انگلینڈ کے بین الاقوامی مقابلوں کی میزبانی کے حق کو بڑا نقصان پہنچا ہے، کلب کے اعلیٰ افسران بھی عہدے چھوڑ کرجاچکے ہیں اور انگلش کرکٹ کے کچھ بڑے ناموں کو بھی اس اسکینڈل نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

یارکشائر میں رفیق کے ساتھ کھیلنے والے ٹینو بیسٹ نے بی بی سی اسپورٹس کو بتایا کہ ’شراب کلچر کرکٹ کا حصہ ہے جو ایک بڑا مسئلہ ہے، لوگوں پر کلب ہاؤس میں جانے اور ٹیم کا حصہ بننے کے لیے 8، 9 گلاس شراب پینے کے لیے دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے۔’

انہوں نے مزید بتایا کہ ’اگر آپ شراب نوشی کے کلچر اور بوائز کلب کا حصہ نہیں ہیں تو آپ کو کاؤنٹی کرکٹ کے بعد مواقع نہیں ملیں گے، یہ وہ چیز ہے جو خاص رنگ اور ایشیائی نسل سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں: سابق بھارتی کرکٹر کی ’متعصبانہ‘ جملے پر گرفتاری

40 سالہ کھلاڑی نے کہا کہ انہیں یاد ہے کہ 2010 میں یارکشائر میں عظیم رفیق، عادل رشید اور اجمل شہزاد جیسے ایشیائی نسل کے کھلاڑیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا تھا اور یہ شکایات منظرعام پر لانے کے نتیجے میں انہیں انتقامی کارروائی کا بھی خوف تھا۔

انہوں نے کہا کہ مختلف رنگ کا حامل شخص ہونے کے ناطے ان کی حمایت بھی عظیم رفیق کے ساتھ ہوگی اور ان پر جو کچھ گزری اس کی شکایت وہ ہر روز کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ سن کر حیرانی ہوئی کہ 2010 میں وہ لوگ کیا زبان استعمال کر رہے تھے اور اس کا سامنا کرنےوالوں کے پاس اپنا شکوہ بیان کرنے کے لیے کوئی پلیٹ فارم موجود نہیں تھا، کیونکہ کھلاڑیوں کو معاہدے کھونے کا ڈر تھا یا وہ اس بات سے خوفزہ تھے کہ شاید انہیں کلب سے باہر نکال دیا جائے گا۔‘

عظیم رفیق نے برطانوی پارلیمانی کمیٹی کو بتایا کہ ٹیم کے سابق ساتھی گیری بیلنس 'کیون' نام کو توہین آمیز اصطلاح کے طور پر استعمال کرتے تھے کیونکہ انگلینڈ کے سابق بلے باز ایلکس ہیلز نے اپنے کتے کو یہ نام دیا تھا جس کا رنگ کالا تھا۔

عظیم رفیق کے اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے بدھ کو سابق بلے باز ایلکس ہیلز نے اپنے کتے کے نام میں کسی قسم کا نسلی تعصب کا مفہوم موجود ہونے کی تردید کی ہے۔

ناٹنگھم شائر کے لیے کھیلنے والے بلے باز ایلکس ہیلز نے اپنے بیان میں کہا کہ ’مجھ پر لگائے گئے الزامات کو سننے کے بعد میں واضح اور قطعی طور پر اس بات کی تردید کرتا ہوں کہ میرے کتے کے نام میں کوئی نسلی تعصب کا مفہوم تھا۔‘

سابق بلے باز نے مزید کہا کہ ’عظیم رفیق کا یہ مؤقف اور جو کچھ انہیں برداشت کرنا پڑا ان دونوں کا میں پوری طرح سے احترام کرتا ہوں اور مجھے بہت زیادہ ہمدردی ہے، ان کی یہ گواہی دلخراش تھی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کرکٹ میں نسل پرستی یا کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک کی کوئی جگہ نہیں ہے اور اس حوالے سے میں کھیل کے حکام کی جانب سے ہونے والی کسی بھی تحقیقات میں خوشی سے تعاون کروں گا۔‘

ناٹنگھم شائر کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مقررہ کمیٹی کے سامنے گواہی کے بعد اندرونی سطح پر مناسب کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے اور اس کے مطابق ایلکس ہیلز اور ان کے مشیروں کے ساتھ رابطہ جاری رکھیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں