بلوچستان میں کان کنوں کے حقوق کی خلاف وزری پر تشویش ہے، ایچ آر سی پی

اپ ڈیٹ 20 نومبر 2021
ان کا کہنا تھا بلوچستان میں کان کنوں کو غیر ریاستی عناصر کے ٹارگٹ حملوں کے خطرے کا بھی سامنا ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
ان کا کہنا تھا بلوچستان میں کان کنوں کو غیر ریاستی عناصر کے ٹارگٹ حملوں کے خطرے کا بھی سامنا ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بلوچستان کی کوئلے کی کانوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کوئٹہ پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انسانی حقوق کی تنظیم کے سینئر رکن حسین نقی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایچ آر سی پی کے مشن سے حاصل ہونے والے نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ کوئلے کے کان کنوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا خطرہ ہے۔

انہوں نے پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ رواں سال کان کنی کے حادثات میں کم از کم 176 کان کن جاں بحق اور 180 زخمی ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا بلوچستان میں کان کنوں کو غیر ریاستی عناصر کے ٹارگٹ حملوں کے خطرے کا بھی سامنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: کوئلے کی کان میں دھماکا، 3 کان کن جاں بحق

ٹیم کی طرف سے کان کا دورہ کیا گیا جس میں حاصل ہونے والے نمونے کی بنیاد پر ظاہر ہوا کہ سائٹ پر صحت کی دیکھ بھال نہیں کی جاتی۔

حسین نقی نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر کوئلے کی کان کنی ایک خطرناک پیشہ سمجھا جاتا ہے، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کان کے مالکان اور ٹھیکیداروں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ کان کے قریب ایمبولینس سروس اور ایک طبی عملہ موجود ہو۔

اس موقع پر انہوں نے اندرونی حفاظتی معائنہ باقاعدگی سے کرنے پر بھی زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ بیرونی حفاظتی معائنے کے حوالے سے بات کی جائے تو صوبے میں 6 ہزار سے زائد کانوں میں صحت اور حفاظت کی نگرانی کے لیے صرف 27 مائن انسپکٹرز دستیاب ہیں، جو تشویش کا باعث ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ مشن کے وسیع نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئلے کی کان کنوں کی اکثریت ایمپلائیز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن (ای او بی آئی) یا دیگر سماجی تحفظ کے پروگراموں کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہے، جس کی وجہ سے جب وہ کام کرنے کے قابل نہیں رہتے تو انہیں بے آسرا چھوڑ دیا جاتا ہے‘۔

مزید پڑھیں: بلوچستان: کوئلے کی کان سے 7 کان کنوں کی لاشیں نکال لی گئیں

علاوہ ازیں موت اور زخمی ہونے کا معاوضہ دوسرے صوبوں میں 5 لاکھ جبکہ بلوچستان میں اس سے کم یعنی 3 لاکھ ہے۔

ایچ آر سی پی کے مطابق لیبر یونین کے بیشتر نمائندوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ کوئلے کی کانوں کو چلانے کے ٹھیکیدار کے نظام سے بہت ناخوش ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹھیکیدار اپنے مزدوروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے بہت کم کام کر رہے ہیں، وہ لاگت میں کمی کے اقدامات کا سہارا لیتے ہیں۔

یہ بات بھی تشویشناک ہے کہ بہت سے معاملات میں ٹھیکیدار خود مزدور یونینز کے سربراہ کے طور پر کام کرتے ہیں جو کہ مفادات سے متضاد ثابت ہوتا ہے۔

ایچ آر سی پی نے یہ بھی سفارش کی کہ حکومت کوئلے کی کان کنی کے شعبے کی حیثیت کو ایک صنعت کے طور پر ترقی دے۔

مزید پڑھیں: کوئٹہ: کوئلے کی کان میں دھماکا، 14 کان کن پھنس گئے

انہوں نے کہا کہ کان کے مالکان اور ٹھیکیداروں دونوں کو 1923 کے مائنز ایکٹ اور اس کے بعد ہونے والی ترامیم کی دفعات کے مطابق اپنی سائٹس چلانے کی ہدایت کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کرے۔

کمیشن نے حکومت پر یہ بھی زور دیا ہے کہ وہ جلد از جلد کانوں میں حفاظت اور صحت سے متعلق آئی ایل یو کنونشن 176 کی توثیق کرتے ہوئے اس پر عمل درآمد کرے۔

علاوہ ازیں صوبے بھر میں کوئلے کی کانوں کے گرد صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کرے۔

حسین نقی کا کہنا تھا کہ مشن کی رپورٹ جلد جاری کی جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں