کرکٹ وہ خوش قسمت کھیل ہے جسے ہمیشہ سے ہی مقبولیت حاصل رہی ہے اور اس مقبولیت کو بڑھانے میں جہاں اس کھیل کے غیر متوقع ہونے کا کردار ہے وہیں کھلاڑیوں کی جانب سے پیش کیے جانے والے ذاتی کارناموں نے بھی اس کھیل کی دلچسپی کو بنائے رکھا ہے۔ لیکن اس کا ایک اور بہت دلچسپ پہلو اس کے ریکارڈ اور اعداد و شمار ہیں جس پر کرکٹ کے چاہنے والے ہمیشہ نظر رکھتے ہیں۔

ابھی جب حالیہ 2 ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں نیوزی لینڈ کے اسپنر اعجاز یونس پٹیل نے دوسرے اور آخری ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں بھارت کے 10 کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا تو ایک بار پھر کرکٹ ریکارڈز کے متوالوں کی کتابیں کھل گئیں۔

یہ ایک معمولی کارنامہ نہیں تھا کیونکہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں 1877ء میں کھیلے گئے پہلے میچ سے لے کر آج تک یہ کارنامہ محض تیسری دفعہ انجام دیا گیا ہے۔ جی ہاں 144 سالہ تاریخ میں صرف تیسری مرتبہ۔ یوں اعجاز یونس پٹیل ہمیشہ کے لیے تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔

کسی ٹیسٹ میچ میں 10 وکٹیں لینے کا ریکارڈ سب سے پہلے انگلینڈ کے اسپنر جم لیکر نے 1956ء میں بنایا تھا۔ جم لیکر پیدا تو یارکشائر میں ہوئے تھے لیکن وہ سرے کاؤنٹی سے کھیلتے تھے۔ انہوں نے ایشز سیریز میں آسٹریلیا کے خلاف باؤلنگ کرتے ہوئے مانچسٹر کے مشہور اسٹیڈیم اولڈ ٹریفرڈ میں میچ کی دوسری اننگ میں 10 وکٹیں حاصل کیں، اس سے قبل انہوں نے اسی میچ کی پہلی اننگ میں 9 وکٹیں بھی حاصل کی تھیں۔ یوں انہوں نے اس ٹیسٹ میچ میں کُل 19 وکٹیں حاصل کیں، اور یہ ایک ایسا ریکارڈ ہے جو آج تک برقرار ہے۔

ریٹائر ہونے کے بعد جم لیکر کمنٹیٹر کی حیثیت سے بی بی سی ٹی وی پر مقبول ہوگئے اور میری خوش قسمتی ہے کہ میں اکثر جن میچوں میں صحافیوں کی ٹیم کے ساتھ کھیلتا تھا ان میچوں میں جم لیکر اپمائرنگ بھی کرتے تھے۔

جم لیکر نے یہ ریکارڈ 1956ء میں بنایا تھا اس وجہ سے میں تو وہ ریکارڈ بنتے نہیں دیکھ سکا لیکن کرکٹ کی تاریخ میں جب دوسری مرتبہ 10 وکٹیں لینے کا ریکارڈ بنا تو میں ایک صحافی اور بی بی سی کے رپورٹر کی حیثییت سے وہاں موجود تھا۔ یہ ریکارڈ 99ء-1998ء میں دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ اسٹیڈیم میں کھیلی گئی پاک-بھارت ٹیسٹ سیریز میں بھارتی اسپنر انیل کمبلے نے بنایا تھا۔ اس میچ میں پاکستان کو 212 رنز سے شکست کا سامنا ہوا تھا۔

اس میچ کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ پاکستان نے یہ دورہ بہت ہی خراب حالات میں کیا تھا۔ 1987ء کے بعد سے کوئی پاک-بھارت سیریز نہیں ہوئی تھی اور پاکستانی ٹیم کے بھارت جانے سے قبل ہی ہندو انتہا پسند تنظیم شیو سینا کے سربراہ بال ٹھاکرے نے یہ دھمکی دے دی تھی کہ وہ اسٹیڈیم کی پچ اکھاڑ دیں گے اور اگر پاکستانی ٹیم بھارت آئی تو اسٹیڈیم میں موجود ان کے کارندے پاکستانی کھلاڑیوں پر سانپ چھوڑ دیں گے۔

1998ء میں جب دونوں ممالک نے ایٹمی دھماکے کیے تو بھارت میں موجود نفرت کی آگ مزید بھڑک اٹھی۔ لیکن اس وقت کے بھارتی وزیرِاعظم اٹل بہاری واجپائی نے بھی یہ فیصلہ کیا کہ پاکستان کو ضرور بھارت آکر میچ کھیلنا چاہیے۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بال ٹھاکرے کے کارندوں نے پاکستانی ٹیم کے دورے سے پہلے دہلی میں جہاں پہلا میچ کھیلا جانا تھا وہاں اسٹیڈیم کی پچ اکھاڑ دی اور اس کے بعد بھارتی کرکٹ بورڈ کے ممبئی آفس پر بھی حملہ کرکے وہاں توڑ پھوڑ کی اور آگ لگادی۔ اس کے بعد بھارت کو اپنا کرکٹ بورڈ دہلی منتقل کرنا پڑا۔

ان سب حادثات کے باوجود پاکستان کی ٹیم وسیم اکرم کی قیادت میں بھارت کے دورے پر روانہ ہوگئی۔ سیریز کا پہلا ٹیسٹ دہلی کی پچ برباد ہونے کی وجہ سے مدراس منتقل ہوگیا۔ جہاں پاکستان نے ایک سنسی خیز مقابلے کے بعد بھارت کو 12 رنز سے شکست دے دی۔ اس میچ کی دونوں اننگز میں پاکستان کے ثقلین مشتاق نے 5، 5 وکٹیں حاصل کیں۔ یوں انہوں نے اس ٹیسٹ میں کُل 10 وکٹیں اپنے نام کیں۔ اس میچ میں تماشائیوں نے پاکستان کی فتح کو خوب سراہا۔

اب دہلی میں اسی پچ پر دوسرا ٹیسٹ کھیلا جانا تھا جسے اکھاڑ دیا گیا تھا اور اسی پچ پر پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہیں بھارتی لیگ اسپنر انیل کمبلے ایک اننگ میں 10 وکٹیں حاصل کرکے یہ ریکارڈ بنانے والے دوسرے کھلاڑی بنے۔

میں اس تاریخی ٹیسٹ میچ کا چشم دید گواہ تھا اور میں نے وسڈن الماناک، جسے انجیلِ کرکٹ بھی کہتے ہیں میں اس تاریخی واقعے کا بہت تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ انیل کمبلے نے یہ 10 وکٹیں بہت ہی دلچسپ حالات میں حاصل کی تھیں۔ بھارت نے پاکستان کو 420 رنز کا ہدف دیا اور پاکستان اس کے تعاقب میں تھا۔ سعید انور اور شاہد آفریدی نے بغیر کسی نقصان کے 101 رنز بنالیے تھے۔ انیل کمبلے نے میچ کی پہلی اننگ میں 4 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ جبکہ میچ کی دوسری اننگ میں وہ بغیر کوئی وکٹ گرائے 6 اوورز کرواچکے تھے۔

لنچ کے وقفے کے بعد وہ پویلین اینڈ سے باؤلنگ کروانے آئے۔ اس اینڈ پر موجود امپائر جئے پرکاش کا تعلق بھی ان کے اپنی ہی شہر بنگلور سے تھا۔ پھر تو ایک کے بعد ایک پاکستان کی وکٹیں گرنا شروع ہوگئیں۔

شاہد آفریدی کو جب کیچ آؤٹ دیا گیا تو انہوں نے امپائر کے فیصلے کو چیلنج کیا تاہم جو ٹیکنالوجی آج دستیاب ہے وہ اس وقت نہیں تھی، یوں آفریدی کو پویلین کی جانب لوٹنا پڑا، پھر تو جیسے قطار ہی لگ گئی اور انیل کمبلے اور جئے پرکاش کی جوڑی نے کام دکھا دیا۔ میرے خیال میں جئے پرکاش نے 3 کھلاڑیوں کے خلاف غلط فیصلے دے کر کمبلے کا کام آسان کردیا تھا۔ اس میچ میں مجموعی طور پر کمبلے نے 149 رنز دے کر 14 وکٹیں حاصل کیں۔

اب ذکر کرتے ہیں اعجاز یونس پٹیل کا جو چند دن قبل ہی بھارت کے خلاف ممبئی میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچ میں ایک اننگ میں 10 وکٹیں لے کر یہ ریکارڈ بنانے والے تیسرے کھلاڑی بن گئے ہیں۔

اعجاز پٹیل 1988ء میں ممبئی میں پیدا ہوئے۔ وہ صرف 8 سال کے تھے جب ان کے والدین بھارت کو خیرباد کہہ کر نیوزی لینڈ منتقل ہوگئے۔ وہیں اعجاز کی پرورش ہوئی، انہوں نے وہیں تعلیم حاصل کی اور وہ وہیں کرکٹ کے کھیل کی جانب راغب ہوئے۔ پھر ایک وقت آیا کہ وہ نیوزی لینڈ کی جانب سے کھیلنے کے لیے کوالیفائی کرگئے۔

اعجاز نے آغاز تو فاسٹ باؤلر کے طور پر کیا لیکن بائیں ہاتھ سے گیند کرنے والے اعجاز نے سمجھ لیا تھا کہ وہ اسپنر کی حیثیت سے کامیاب ہوسکتے ہیں، اور ایسا ہی ہوا۔ انہوں نے اپنا پہلا ٹیسٹ 2018ء میں پاکستان کے خلاف نیوزی لینڈ میں ہی کھیلا۔ اس میچ میں نیوزی لینڈ کو 4 رنز سے فتح حاصل ہوئی جس میں اہم ترین کردار اعجاز پٹیل کا ہی تھا جنہوں نے میچ میں 7 وکٹیں حاصل کیں اور میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔

نیوزی لینڈ کے سینٹرل ڈسٹرکٹ سے کھیلنے والے اعجاز پٹیل کچھ عرصے قبل نیوزی لینڈ کی ٹیم کے ساتھ پاکستان بھی آئے تھے تاہم سیکیورٹی خدشات کو مدِنظر رکھتے ہوئے نیوزی لینڈ کی ٹیم بغیر کھیلے ہی پاکستان سے واپس چلی گئی۔

بھارت کے ساتھ 2 میچوں پر مشتمل ٹیسٹ سیریز کے پہلے میچ میں اعجاز قابلِ ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکے تھے اور پورے میچ میں صرف 3 وکٹیں ہی حاصل کی تھیں، مگر ممبئی میں کھیلے جانے والے دوسرے ٹیسٹ میں انہوں نے کمال کردیا۔

میچ کی پہلی اننگ میں 119 رنز دے کر 10 وکٹیں حاصل کیں۔ پہلے دن کے کھیل میں اعجاز نے 4 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جس کے بعد دوسرے دن کے کھیل میں لنچ سے قبل 2 وکٹیں اور لنچ کے بعد 4 وکٹیں حاصل کیں۔ ان کی 10ویں وکٹ بھارتی باؤلر محمد سراج کی تھی جو کیچ آؤٹ ہوئے تھے۔ اس طرح اعجاز پٹیل ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں ایک اننگ میں 10 وکٹیں لینے والے تیسرے کھلاڑی بن گئے۔

بدقسمتی یہ رہی کہ نیوزی لینڈ یہ میچ ہار گیا کیونکہ پہلی اننگ میں 62 رنز پر آؤٹ ہونے کے بعد میچ بچانا مشکل ہوگیا تھا۔ حالانکہ اس سے قبل جب جم لیکر اور انیل کمبلے نے یہ ریکارڈ بنایا تھا تو ان میچوں میں ان کی ٹیمیں فتحیاب ہوئی تھیں۔ تاہم اعجاز کا یہ کارنامہ ضرور ہے کہ انہوں نے جم لیکر اور انیل کمبلے کے برعکس میچ کی پہلی اننگ میں یہ ریکارڈ قائم کیا۔

جم لیکر اور انیل کمبلے کے برعکس اعجاز کو ایک یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے ہوم گراؤنڈ کے بجائے اپنے آبائی شہر میں کھیلتے ہوئے بھی مخالف ٹیم کے ہوم گراؤنڈ میں یہ ریکارڈ قائم کیا۔ اس ریکارڈ کی ایک اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ یہ ریکارڈ بنانے والے تینوں اسپنر ہی ہیں اور آج تک کوئی فاسٹ باؤلر یہ ریکارڈ نہیں بناسکا۔

تبصرے (3) بند ہیں

Salazar Dec 15, 2021 03:28am
Baray hee afsos ki baat hai. Anil Kumble ki kaawish ko sarhana chahyay lekin aap to uus kaarkardagi ko shak ki nigah sai daikh rahai hain.
HonorBright Dec 17, 2021 08:54pm
How could Afridi challenge umpire decision? I don't think DRS was in use then
HonorBright Dec 17, 2021 08:57pm
Having just watched Kumble wickets I don't think there were many bad decisions by the umpire. Even with recent advanced technological help umpires do make mistakes and sometimes commit blunders. Most of the LBW Kumble got in his favour were pretty close so he deserved to get those wickets.