یوریا کی قلت اور اضافی قیمتوں سے سندھ میں گندم کی فصل متاثر ہونے کا خدشہ

اپ ڈیٹ 27 دسمبر 2021
ڈی جی زراعت سندھ نے کہا کہ یوریا کی قلت ناقابل تسخیر ہے—فائل فوٹو:اے ایف پی
ڈی جی زراعت سندھ نے کہا کہ یوریا کی قلت ناقابل تسخیر ہے—فائل فوٹو:اے ایف پی

سندھ میں گندم کی فصل کی کاشت کم ہونے پر کسانوں نے شکایت کی ہے کہ یوریا کی زیادہ قیمتیں اور بعض اوقات اس کی عدم دستیابی سے صوبے بھر میں فصل کی پیداواری صلاحیت متاثر ہونے کا امکان ہے۔

ڈان اخبار کی رپوٹ کے مطابق گندم کے کاشتکاروں نے اس بات پر زور دیا کہ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے جلد از جلد اقدامات کیے جائیں۔

تاہم وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار خسرو بختیار کی زیر صدارت فرٹیلائزر ریویو کمیٹی کے ہفتہ وار اجلاس میں انہیں مطلع کیا گیا کہ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں یوریا کی قیمتوں میں نمایاں کمی آئی ہے، اور 50 کلو گرام کی ایک بوری کی مقرر کردہ قیمت ایک ہزار 780 روپے ہے۔

کمیٹی نے ربیع کے سیزن کے لیے یوریا کے بحران کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ قیمت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، لیکن سندھ کے اسٹیک ہولڈرز مختلف صورتحال ظاہر کررہے ہیں۔

مزید پڑھیں:کھاد کی قلت کے باعث گندم کی پیداوار ہدف سے کم رہنے کا خدشہ

ڈائریکٹر جنرل برائے محکمہ زراعت سندھ ہدایت اللہ چھاجرو نے ڈان کو بتایا کہ یوریا کھاد اضافی رقم کمانے کے لیے افغانستان اسمگل کی جا رہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ’سندھ کو اپنا حصہ نہیں مل رہا ہے اور بڑے ڈیلروں نے ذخیرہ اندوزی کر رکھی ہے اور اسے زائد قیمتوں پر چھوٹے ڈیلروں کو فراہم کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبے کو 50 کلوگرام کے ایک کروڑ 45 لاکھ بوریوں کی ضرورت ہے جبکہ کھاد کی فیکٹریوں نے 93 لاکھ بوریاں جاری کی گئیں، جس کا بڑا حصہ بڑے ڈیلروں کو دے دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ حیدرآباد، ٹنڈو الہ یار، ٹنڈو محمد خان اور سکھر میں صورتحال کچھ حد تک بہتر ہوئی ہے اور فی بوری کی قیمت میں 150 روپے کی کمی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ذخیرہ اندوزوں سے ضلعی انتظامیہ کے ذریعے نمٹا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: درآمدی یوریا کی قیمت میں 110 روپے کمی کی منظوری

اس سیزن میں سندھ میں تقریباً 10 لاکھ 15 ہزار ہیکٹر (20 لاکھ 48 ہزار بایکڑ سے زائد) پر گندم کی فصل کاشت کی گئی ہے اور اس کے نتیجے میں یوریا کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔

گندم کی فصل کی کاشت کےلیے 45 ایام میں کم از کم 2 تھیلے یوریا فی ایکڑ اور ایک تھیلی ڈائمونیم فاسفیٹ کے کھاد میں شامل کی جاتی ہے، تین بڑے کھاد پیدا کرنے والے صنعتی یونٹس، فوجی فرٹیلائزر کارپوریشن، اینگرو اور فاطمہ، فارم سیکٹر کی یوریا کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔

تاہم کسانوں کو شکایت ہے کہ یوریا کی قیمتوں میں غیر معمولی طور پر زیادہ ہیں، سندھ چیمبر برائےذراعت کے نائب صدر نبی بخش ساتھیو نے کہا ’میں نے خود 50 کلوگرام یوریا کا تھیلا 2 ہزار 800 روپے میں خریدا، جوکہ سرکاری طور پر مقرر کردہ قیمت ایک ہزار768 روپے سےکافی زیادہ ہے‘۔

22 دسمبر کو سیکریٹری سندھ برائے زراعت نے وفاقی سیکریٹری وزارت صنعت و پیداوار کو آگاہ کیا کہ سندھ میں یوریا کی کمی کے باعث صوبے میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار میں کمی کا خدشہ ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں گندم کی کاشت کا 97 فیصد ہدف حاصل کر لیا گیا ہے تاہم یوریا کی کمی فصل کو متاثر کر سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں 70 فیصد اضافہ

محکمہ زراعت سندھ کے ڈائریکٹر جنرل کے خط کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ صوبے کے 23 اضلاع میں 2 لاکھ 68 ہزار 574 ٹن یوریا (یا 50 لاکھ 371 تھیلے) کی کمی کے حوالے سے مطلع کیا گیاہے۔

سندھ آبادگار بورڈ کے نائب صدر محمود نواز نے کہا کہ کاشتکار اوپن مارکیٹ سے یوریا کے تھیلے 2 ہزار400 سے اور 2ہزار 800 روپے میں خرید رہے ہیں اگریہ ہی حالات بر قرار رہے تو کسانوں کو قیمتوں میں اضافے کی صورت میں 5 سے 7 ارب روپے کا نقصان ہو سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یوریا کی قلت ناقابل تسخیر ہے کیونکہ کھاد فیکٹریوں کے لیے گیس کی کوئی قلت نہیں ہے۔

انہوں نے تخمینہ لگایا کہ صرف گندم کی فصل کے لیے 50 کلوگرام کے تقریباً 80 لاکھ یوریا کے تھیلے اور سورج مکھی، سرسوں سمیت ربیع کی دیگر فصلوں کے لیے مزید 10 لاکھ تھیلے درکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ رجحان اگر جاری رہا تو خریف کی فصل کی کاشت پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں