طالبان کا دکانداروں کو خواتین کے پتلوں کے سر ہٹانے کا حکم

06 جنوری 2022
سوشل میڈیا پر وائرل کلپ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ ہرات میں دکان میں موجود پتلوں سے سر ہٹا رہے ہیں— فوٹو: اے ایف پی
سوشل میڈیا پر وائرل کلپ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ ہرات میں دکان میں موجود پتلوں سے سر ہٹا رہے ہیں— فوٹو: اے ایف پی

طالبان نے افغانستان کے مغربی شہر میں دکانداروں کو حکم دیا ہے کہ وہ خواتین کے پتلوں کے سر کاٹ دیں کیونکہ انسانی شکل کے حامل پتلے اسلامی قانون کی خلاف ورزی ہیں۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سوشل میڈیا پر وائرل کلپ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ ہرات میں دکان میں موجود پتلوں سے سر ہٹا رہے ہیں اور اس کی ملک کے اندر اور باہر دونوں جانب سے شدید مذمت کی جا رہی ہے۔

مزید پڑھیں: طالبان نے افغانستان میں خواتین کی جبری شادی پر پابندی عائد کردی

اگست میں اقتدار میں واپسی کے بعد سے طالبان انتہائی تیزی سے افغانستان میں اسلامی قوانین لاگو کر رہے ہیں خصوصاً خواتین اور لڑکیوں کے حقوق اور ان کی آزادیوں پر قدغن لگائی جا رہی ہے۔

طالبان نے ابھی تک باضابطہ قومی پالیسی یا پابندیوں کے حوالے سے کوئی بیانیہ جاری نہیں کیا لیکن مختلف امور کو مقامی حکام غیر اخلاقی عمل قرار دیتے ہوئے ان سے روک رہے ہیں۔

صوبہ ہرات میں نیکی کے فروغ اور برائیوں سے روک تھام کی وزارت کے سربراہ عزیز رحمٰن نے بدھ کو اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے خواتین کے پتلوں کے سر ہٹانے کی تصدیق کی۔

عزیز رحمٰن نے کہا کہ چند دکانداروں نے سروں کو اسکارف یا تھیلوں سے ڈھانپ کر سر کاٹنے کے عمل سے بچنے کی کوشش لیکن ان کی یہ کوشش بھی کارگر نہیں رہی۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: مرد رشتے دار کے بغیر خواتین کے سفر کرنے پر پابندی عائد

انہوں نے کہا کہ اگر وہ صرف سر ڈھانپیں یا پورا پتلا چھپائیں گے تو رحمت کے فرشتے ان کی دکان یا گھر میں داخل نہیں ہوں گے اور برکت نہیں رہے گی۔

6 لاکھ آبادی کے شہر میں اکثر دکاندار اس حکم سے ناراض نظر آتے ہیں۔

کپڑے بیچنے والے ایک دکاندار نے بتایا کہ جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں، ہم نے سر کاٹ دیے ہیں، ہر ڈمی کی قیمت تقریباً 50ڈالر تھی۔

انہوں نے کہا کہ جب کوئی پتلا نہیں ہو گا تو آپ ہم سے کیسے توقع رکھتے ہیں کہ ہم اپنی مصنوعات بیچ سکیں گے، جب ان پتلوں کو کپڑے پہنائے جاتے ہیں تب ہی گاہک اسے پسند کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں دو دہائیوں بعد دوبارہ شوبز میں خواتین کو دکھانے پر پابندی

15 اگست کو اقتدار میں واپس آنے کے بعد طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ کہ وہ اپنے سابق دور کے مقابلے میں نرم طرز عمل اختیار کریں گے اور پابندیاں عائد نہیں کریں گے۔

لیکن ان وعدوں کے باوجود لوگوں پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں جن میں لوگوں کو دن میں پانچ بار نماز میں شرکت، مردوں کو داڑھی بڑھانے اور مغربی لباس کی حوصلہ شکنی جیسے احکامات دیے جا رہے ہیں۔

لڑکیوں کے زیادہ تر سیکنڈری اسکول بند ہیں، خواتین کو مخصوص علاقوں کے سوا اکثر شعبوں میں سرکاری ملازمت سے روک دیا گیا ہے اور پچھلے ہفتے نئی ہدایات جاری کرتے ہوئے مرد رشتے دار کے بغیر ان کے سفر پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد امداد پر انحصار کرنے والے ملک کی معیشت تباہ ہو چکی ہے کیونکہ امریکا نے ان کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے ہیں اور بین الاقوامی امداد بھی بڑی حد تک روک دی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کے ’ڈریس کوڈ‘ کے خلاف افغان خواتین کی ’میرے لباس کو نہ چھوؤ‘ مہم

تاہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے گزشتہ ہفتے ایک امریکی قرارداد منظور کی تھی، جس میں انسانی بنیاد پر امداد کی منظوری دی گئی تھی البتہ اس امداد کو طالبان حکومت کے ہاتھ میں نہیں دیا جائے گا کیونکہ ابھی تک کسی بھی ملک نے افغان طالبان کی حکومت تسلیم نہیں کی۔

تبصرے (0) بند ہیں