افغانستان کے حوالے سے گزشتہ 3 دہائیوں میں درجنوں کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ان کتابوں میں سابقہ سوویت یونین کے کابل سے ذلت آمیز انخلا، پھر مجاہدین کے دھڑوں کی جانب سے اس شہر پر قبضے کی جنگ، طالبان کا غیر متوقع عروج، زوال اور دوبارہ عروج، افغانستان کے پہاڑوں میں امریکا کو زیر کرنے کا خواب لیے جدید دور کے باغی اسامہ بن لادن کے عروج اور پھر بدلے کی آگ میں امریکا کے اس سرزمین پر آنے کے حوالے سے بہت کچھ موجود ہے۔

پھر ہمارے سامنے دی واشنگٹن پوسٹ کے صحافی اور کئی مرتبہ پلٹزر پرائز کے فائنلسٹ رہنے والے کریگ وائٹ لاک کی کتاب ’افغانستان پیپرز: اے سیکریٹ ہسٹری آف دی وار‘ آتی ہے۔

اس میں امریکا کی جانب سے شروع کی گئی طویل ترین جنگ کے بارے میں حیران کن انکشافات کے ساتھ ساتھ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہولی وڈ فلموں میں بھی اس طرح کا تکبر نہیں دکھایا جاسکتا۔

معلومات تک رسائی کے قانون سے متعلق 2 سالہ طویل عدالتی لڑائی کے بعد حاصل ہونے والی معلومات کو بہت عمدہ طریقے سے اس کتاب میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب مکمل طور پر سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے)، پینٹاگون، وائٹ ہاؤس اور ان سے متعلقہ اداروں سے حاصل ہونے والی دستاویزات پر مبنی ہے۔

2 دہائیوں پر محیط جنگ کا اختتام گزشتہ موسمِ گرما میں کابل سے امریکا کے ذلت آمیز انخلا کی صورت میں ہوا اور ساتھ ہی گزشتہ صدی میں ویتنام میں امریکی سفارتخانے سے عملے کو نکالنے والے فوجی ہیلی کاپٹروں کی تصاویر بھی اخبارات میں شائع ہوئیں۔ اگر یہ سب کچھ تاریخ کا پہلا مسودہ تھا تو پھر یہ کتاب یقیناً دوسرا اور بہتر مسودہ ہے جو حقائق کی بنیاد بنے گا۔

کتاب کا نصف سے زیادہ حصہ تو مصنف ک جانب سے ان متن کی دوبارہ پیشکش ہے جنہیں ’لیسنز لرنٹ‘ کے تحت ہونے والی سیکڑوں بریفنگز اور ’اہم شخصیات‘ کے جنگ سے متعلق میموز پر مشتمل سرکاری نوٹس سے حاصل کیا گیا ہے۔

ان ’اہم شخصیات‘ میں صدور، کئی سیکریٹری آف اسٹیٹ اور سیکریٹری دفاع، سی آئی اے، پینٹاگون اور یونائیٹڈ اسٹیٹس سینٹرل کمانڈ (سینٹکوم) کے سربراہان، کابل، اسلام آباد اور بغداد میں موجود امریکی سفرا اور 20 برسوں کے دوران افغانستان میں کام کرنے والے جرنیل، سپاہی اور کانٹریکٹر شامل ہیں۔

اس جنگ کو ترتیب دینے والے سابق سیکریٹری دفاع ڈونلڈ رمسفیلڈ نے ہی 10 ہزار صفحات پر مشتمل میمو چھوڑے ہیں۔ وہ روزانہ اتنے مختصر نوٹ جاری کرتے تھے کہ عملہ انہیں ’اسنو فلیکس‘ کہنے لگا تھا۔

یہ کہانی حقیقت کے افسانے سے زیادہ حیران کن ہونے کی کہاوت کا مظہر ہے۔ اس میں موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کو گھات لگا کر کیے جانے والے حملے سے بچانے اور ایک سیکریٹری آف اسٹیٹ پر بگرام ایئر بیس پر ہونے والے قاتلانہ حملے میں بچ جانے جیسے واقعات کا ذکر بھی موجود ہے۔

اس کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے نتیجے میں جتنے امریکی ہلاک ہوئے اس سے زیادہ امریکی افغانستان کی جنگ کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔ کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سوویت یونین نے افغانستان میں جتنے فوجی (3 لاکھ سے کچھ زائد) بھیجے تھے، امریکا نے اس سے دگنی سے بھی زیادہ تعداد (7 لاکھ 75 ہزار) فوجی افغانستان بھیجے جن میں سے 21 ہزار فوجی شدید زخمی ہوکر واپس گئے اور ان کی زندگیاں ہمیشہ کے لیے برباد ہوگئیں۔

کتاب میں یہ حقیقت بھی بیان کی گئی ہے کہ سرکاری طور پر اس جنگ کی قیمت (سویلین نیشن بلڈنگ اخراجات کے علاوہ) کا اندازہ ایک کھرب ڈالر سے کچھ زیادہ کا لگایا گیا ہے۔ یہ انسانی تاریخ کی مہنگی ترین جنگ تھی اور ستم ظریفی دیکھیے کہ اس جنگ کے آغاز میں جن طالبان کو کروز میزائل استعمال کرکے کابل سے نکالا گیا تھا 20 سال بعد اس جنگ کے اختتام پر وہی طالبان بغیر کوئی گولی چلائے کابل پر دوبارہ قابض ہوگئے تھے۔ اس حوالے سے آپ چاہ کر بھی کسی کو دھوکا نہیں دے سکتے۔

یہ امر بھی حیران کن ہے کہ اس جنگ میں صدر جارج ڈبلیو بش، بارک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ کی کل ملا کر 5 مدت صدارت گزر گئیں لیکن اپنے مقصد میں واضح ہونے سے لے کر حکمت علمی تیار کرنے تک اور طریقہ کار میں تبدیلی لانے سے لے کر مقصد کے حصول تک یہ صدور اور ان کے فوجی کمانڈر نتائج کے حصول میں بالکل ناکام رہے۔

کتاب میں شامل کئی سرکاری تحریروں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اہم افسران اپنے اعلیٰ افسران کو مقاصد اور حکمتِ عملی کے حوالے سے لاعلم خیال کرتے تھے۔ حکمتِ عملی کے حوالے سے وائٹ ہاؤس، پینٹاگون اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اکثر ایک دوسرے کے مقابل رہتے تھے۔ اس حوالے سے ہونے والے اجلاسوں کا بے نتیجہ اور اکثر تلخ اختتام معمول کی بات بن چکی تھی۔ کم از 3 مرتبہ ایسا ہوا کہ صدر یا ڈیفینس چیفس کی جانب سے چیف کمانڈرز کو برخاست کیا گیا، اس ضمن میں سب سے مشہور نام جنرل اسٹینلے میک کرسٹل کا ہے جنہیں صدر اوباما نے برخاست کیا تھا۔ جنرل میک کرسٹل نے فوجیوں کے سامنے سیاسی قیادت پر تنقید کی تھی۔

کتاب میں جنگ کے کرتا دھرتا سینئر عہدیداروں کے ان اعترافات یا الزامات کا دستاویزی حوالہ دیا گیا ہے کہ دونوں صدور اور فوجی کمانڈروں نے سال بہ سال عوام کو بار بار دھوکا دیا کہ افغانستان کی صورتحال کس حد تک ان کے کنٹرول میں ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے انتباہات اور مشوروں کو یا تو سننے سے انکار کیا یا پھر انہیں نظر انداز کیا۔

ترتیب وار ابواب کے ذریعے اس کتاب میں اسٹریٹجک غلطیوں، مجموعی نااہلی اور مقصد سے ہٹ جانے کی ایک تاریخ کو بیان کیا گیا ہے جس نے بالآخر اس جنگ کو امریکا کی سب سے مہنگی اور طویل ترین جنگ میں تبدیل کردیا۔ ان میں سب سے اہم نکتہ 11 ستمبر جیسے حملوں کو روکنے کے لیے القاعدہ کو شکست دینے کے مقصد سے انحراف کرنا تھا۔

طالبان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے کچھ عرصے بعد ہی قوم کی تعمیر کو مقصد بنایا گیا اور پھر اس مقصد کو دوبارہ تبدیل کیا گیا اور طالبان مزاحمت کچلنے کو مقصد بنالیا گیا جنہوں نے صرف انتظار کی پالیسی اپنائے رکھی۔

شاید سب سے بڑی غلطی ایک اور محاذ کھولنے کی تھی۔ ابھی افغانستان میں کام ختم نہیں ہوا تھا کہ عراق میں جنگ چھیڑ دی گئی اور یوں تمام تر توجہ اور وسائل کا رخ تبدیل ہوگیا۔ افغانستان سے متعلق ایک سینئر سفارتکار جیمز ڈوبینز نے ’لیسنز لرنٹ‘ میں ایک انٹرویو میں کہا کہ ’کچھ بنیادی پالیسی نتائج ایسے ہیں جن پر قانون سازی کرنا مشکل ہے [جیسے] ایک وقت میں صرف ایک ملک پر حملہ کرنا‘۔

عراق کی جنگ کی وجہ سے امریکی افواج ایک ناقابلِ فتح گوریلا جنگ میں پھنس گئیں اور وہ بھی ایک ایسے ملک میں جسے وہ سمجھتے ہی نہیں تھے۔ لیکن کوئی بھی صدر اس ناکامی کو تسلیم نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس وجہ سے ہر صدر نے زیادہ سے زیادہ فوجی افغانستان بھیجے اور فتح کا کوئی امکان نہ ہونے کے باوجود امریکی عوام کو یہ یقین دلایا کہ وہ کچھ نہ کچھ حاصل کررہے ہیں۔

افغانستان پیپرز میں ملاقاتوں کے سرکاری دستاویزات کا حوالہ دے کر بتایا گیا ہے کہ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کو افغان جنگ کے کمانڈر کا نام بھی یاد نہیں تھا اور انہوں نے کمانڈر سے ملاقات کرنے سے بھی انکار کردیا تھا۔ ڈونلڈ رمسفیلڈ نے اپنے ’اسنو فلیک‘ میموز میں سے ایک میں اعتراف کیا تھا کہ وہ نہیں جانتے کہ ’دشمن کون ہے‘۔ ان کے بعد آنے والے رابرٹ گیٹس نے بھی ’لیسنز لرنٹ‘ کے تحت ہونے والی ملاقات میں اعتراف کیا تھا کہ ’ہم القاعدہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے‘۔

مصنف نے امریکا کی اس 20 سالہ طویل اور مہنگی جنگ کو 6 حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے حصے (02-2001ء) میں انہوں نے فتح کے جھوٹے احساس کے بارے میں شہادتیں پیش کی ہیں (کابل پر قبضے کے بعد ڈونلڈ رمسفیلڈ کا کہنا تھا کہ ’اب ہم جنگ کے دور سے نکل کے استحکام کے دور میں داخل ہورہے ہیں) اس کے باوجود کے وہ ایک الجھاؤ کا شکار تھے (بش اور اوباما کے دور میں نیشنل سیکیورٹی کونسل کے مشیر رہنے والے جیفری ایگرز نے کہا کہ ’ہم نے طالبان کو اپنا دشمن کیوں بنایا جبکہ ہمارا مقصد تو القاعدہ کو ہدف بنانا تھا‘)۔

دوسرا حصہ ’دی گریٹ ڈسٹریکشن‘، 05-2003ء کے بارے میں ہے۔ یہ وہ دور تھا جس دوران ڈونلڈ رمسفیلڈ اور بش دونوں کے لیے ہی افغانستان کی اہمیت ختم ہوچکی تھی۔ اس دوران سینئر فوجی عہدے داروں کو عراق بھیج دیا گیا اور ان کے متبادل افراد فوجی جہازوں میں افغانستان پہنچ گئے۔ ان سب کے پاس ’اسلام فار ڈمیز‘ نامی کتاب تھی اور وہ گفتگو کے لیے عربی جملے یاد کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ انہیں کسی نے بتایا ہی نہیں تھا کہ افغانستان میں عربی نہیں بولی جاتی۔

تیسرا حصہ 08-2006ء تک کا ہے جب طالبان امریکا کے خوف سے نکل آئے تھے اور دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کی کوششیں شروع کردی تھیں۔ اس وقت امریکا پوست کی فصلوں کے خاتمے اور وار لارڈز سے تعلقات قائم کرنے میں مصروف تھا، یوں طالبان نے امریکا کو امن و امان کے مسائل میں الجھا کر بڑے منظرنامے سے ان کی نظریں ہٹا دیں۔ اس طرح طالبان رائے عامہ کو ’قابضین‘ کے خلاف اور اپنے حق میں کرنے میں کامیاب ہوئے۔

کتاب کا چوتھا حصہ 10-2009ء کا ہے جب اوباما صدر تھے۔ کتاب کے مطابق صدر اوباما نے لوگوں کے دل و دماغ جیتنے کے لیے اپنے مشیران کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے یونائیٹڈ اسٹیٹ ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ (یو ایس ایڈ) کے ذریعے سول منصوبوں میں ناقابلِ یقین سرمایہ لگایا۔ ان میں سے اکثر وہ منصوبے تھے جن کی تو افغانستان کو ضرورت نہیں تھی۔ کئی منصوبے ایسے بھی تھے جن کا خود یو ایس ایڈ بھی ریکارڈ نہ رکھ سکی۔

ان میں ایک خاص منصوبہ ’کمانڈرز ایمرجنسی رسپانس پروگرام‘ بھی تھا۔ اس منصوبے پر روزانہ اوسطاً 30 لاکھ ڈالر خرچ ہوتے تھے۔ مجموعی طور پر اس منصوبے پر 2 ارب 30 کروڑ ڈالر خرچ ہوئے جبکہ آڈٹ کے دوران صرف 89 کروڑ ڈالر کے منصوبے ہی سامنے آئے۔

کتاب کے مطابق یو ایس ایڈ کے افغانستان میں سربراہ کین یاماشیتا کا کہنا تھا کہ ’یہ صرف روزمرہ اخراجات اور نقد رقم کی ادائیگی کے علاوہ کچھ نہیں تھا‘۔ ترقی کے بارے میں امریکی سمجھ بوجھ سے پریشان ایک نیٹو اہلکار کا کہنا تھا کہ ’یہ کبھی نہ ختم ہونا والا گڑھا تھا جس میں پیسے ڈالے جاتے رہے‘۔

پانچواں حصہ 16-2011ء کا ہے جب معاملات مکمل طور پر ہاتھ سے نکل گئے تھے۔ قوم سازی، مقامی فوج کی تیاری اور جمہوریت کی مضبوطی کے حوالے امریکا کا ’بڑا دھوکا‘ اسے ایک دلدل کی جانب دھکیل رہا تھا۔ ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ انخلا کی کوئی حکمتِ عملی نہ ہونے کی وجہ سے صدر اوباما کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا، وہ بس وہاں سے نکل جانا چاہتے تھے۔

لیسنز لرنٹ کے تحت دیے گئے انٹرویو میں اومابا نے کہا کہ ’ایسی کوئی معقول حد نہیں تھی جس تک پہنچ کر ہم اپنے پیچھے حکومت چھوڑ سکتے تھے‘۔

سفارتی حکمتِ عملی کے انچارچ رچرڈ باؤچر زیادہ افسردہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’15 سال پیچھے جاکر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ افغانستان جاکر یہ کہنے کہ ہم آپ کے لیے افغانستان تعمیر کریں گے سے بہتر یہ ہوتا کہ پانچویں جماعت کے ایک ہزار افغان بچے منتخب کرتے، انہیں بھارتی اسکولوں اور کالجوں میں پڑھاتے اور ان کی تربیت کرتے، پھر ہم انہیں افغانستان واپس لاتے اور کہتے کہ اب تم لوگ افغانستان کو چلاؤ‘۔

کتاب کا چھٹا حصہ 21-2017ء تک کا ہے جس دوران ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر تھے۔ تعجب کی بات ہے کہ وہ سب سے زیادہ حقیقت پسند صدر تھے جنہوں نے افغانستان سے انخلا کی ضرورت کو قبول کرلیا تھا اور انہیں اپنی ساکھ کی بھی پرواہ نہیں تھی۔ یہی وہ دور تھا جب امریکا نے اشرف غنی حکومت کے ساتھ شراکت اقتدار کے لیے طالبان سے براہِ راست رابطے شروع کیے۔

یہ کتاب طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے چند ہفتوں قبل سامنے آئی تھی۔ اور لوگ سمجھتے ہیں کہ اگست 2021ء میں کابل میں جو کچھ ہوا وہ افغانستان میں امریکی مداخلت کی کہانی کا سب سے حیران کن حصہ تھا۔


نام کتاب: The Afghanistan Papers: A Secret History of the War

مصنف: کریگ وائٹ لاک

ناشر: سائمن اینڈ شسٹر، امریکا

تعداد صفحات: 367

آئی ایس بی این: 1982159009-978


یہ تبصرہ 13 فروری 2022ء کو ڈان بُکس اینڈ آتھرز میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

ندیم احمد Mar 15, 2022 07:27pm
امریکہ نے اگر ڈالر معاشی سرگرمیوں سے کما کر افغانستان کی جنگ پر خرچ کیے ہوتے تو اس کا دیوالیہ نکل جاتا، اس کے برعکس ڈالر کیوں کہ پرنٹنگ پریس سے چھاپ چھاپ کر استعمال کیے گئے ہیں تو حقیقت میں ان تمام ممالک نے بھی اس جنگ کا مالی بوجھ برداشت کیا ہے جو امریکی ڈالرز میں لین دین کرتے ہیں۔