Dawnnews Television Logo

تحریک عدم اعتماد پر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ ’آئینی نظام پر حملہ‘ قرار

ڈپٹی اسپیکر نے صریحاً آئین کے خلاف رولنگ دی ہے، فیصلہ سپریم کورٹ کو کرنا ہے، ماہرین قانون
اپ ڈیٹ 03 اپريل 2022 05:58pm

ماہرین قانون نے تحریک عدم اعتماد پر ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی رولنگ کو شرمناک اور آئینی نظام پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ تک وزیراعظم اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتے تھے۔

ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے آج قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو آئین و قانون کے منافی قرار دے کر اسے مسترد کردیا اور اجلاس کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا۔

معاملہ عدالت میں گیا تو کافی وقت لگ سکتا ہے، سلمان اکرم راجا

ماہر قانون سلمان اکرم راجا نے ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے صریحاً آئین کے خلاف اور انتہائی شرمناک رولنگ دی ہے اور آئینی نظام اور عمل کو منجمد کردیا اور آگے بڑھنے سے روک دیا۔

انہوں نے کہا کہ اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد ختم کردی، اب وزیراعظم ایک ایسے وزیراعظم تھے جن کے خلاف کوئی تحریک عدم اعتماد نہیں تھی لہٰذا انہوں نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار استعمال کیا۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد آئین کے منافی، قرار داد مسترد

ان کا کہناتھا کہ اب معاملہ اسمبلی کی تحلیل کے بعد عبوری حکومت پر جائے گا اور الیکشن کی تاریخ مقرر ہو جائے گی۔

معروف قانون دان نے کہا کہ یہ معاملہ اگر عدالت میں جاتا بھی ہے کہ اسپیکر کی رولنگ درست تھی یا نہیں تو اس میں کئی ہفتے اور مہینے لگ جائیں گے کیونکہ یہ کوئی آسان معاملہ نہیں ہے، آئین کا آرٹیکل 69 یہ کہتا ہے کہ اسپیکر کی رولنگ اور ایوان میں ہوئے کسی عمل کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا، اگر عدالت کوئی استثنیٰ دیتی ہے تو اس میں کافی وقت لگ جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک عدم اعتماد مسترد ہونے پر ٹوئٹر پر ’سرپرائز‘ ٹاپ پر آگیا

ان کا کہنا تھا کہ عدالت میں یہ معاملہ جاتا ہے تو حکومت یہ مؤقف اختیار کرے گی کہ اگر چونکہ معاملہ عوام کے پاس جا رہا ہے تو آپ دخل اندازی نہ کریں اور عوام کو فیصلہ کرنے دیں، اسپیکر کی رولنگ صحیح تھی یا نہیں تھی، اب یہ معاملہ عوام طے کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن عدالت میں یہ موقف اختیار کرے گی کہ عدم اعتماد ہمارا حق تھا اور اس کو غیرآئینی طریقے سے مسترد کیا گیا ہے لہٰذا تحریک عدم اعتماد کو بحال کیا جائے اور اسپیکر کو حکم دیا جائے کہ وہ ووٹنگ کے لیے سیشن منعقد کرے۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اب یہ فیصلہ سپریم کورٹ کو کرنا ہے کہ کیا الیکشن ہونے دیا جائے یا واپس تحریک عدم اعتماد کو بحال کر کے اس پر ووٹنگ کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ غیرملکی سازش کو کبھی ثابت نہیں کیا جا سکتا لہٰذا اس بات کو جواز بنا کر فوراً رولنگ دے کر جس طرح ڈپٹی اسپیکر اٹھ کر گئے ، یہ آئینی نظام پر حملہ تھا۔

مزید پڑھیں: اسپیکر نے غیر آئینی کام کیا، سپریم کورٹ جائیں گے، بلاول بھٹو زرداری

ان کا کہنا تھا کہ بیرونی سازش کی بات زیادہ دور تک نہیں جائے گی، اس کا مقصد انہوں نے آج حاصل کر لیا، اس کا مقصد یہی تھا کہ اس کو جواز بنا کر اس سیشن کو مؤخر کیا جائے اور اس تحریک کو ختم کردیا جائے، اس بیانیے کا مقصد یہی تھا اور وہ انہوں نے حاصل کر لیا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس بات کا فیصلہ سپریم کورٹ کو کرنا ہو گا کہ ایک صریحاً غیرقانونی عمل کو نظرانداز کر کے ہم الیکشن کی طرف بڑھ جائیں یا اس عمل کو غیرآئینی قرار دے کر تحریک عدم اعتماد کو بحال کیا جائے۔

حکومت اس غیرآئینی اقدام کا کوئی جواز پیش نہیں کر سکتی، سابق اٹارنی جنرل

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بالکل غیرآئینی اقدام ہے اور حکومت اس کا کوئی جواز پیش نہیں کر سکتی، اتنی بڑی خلاف ورزی کو معاف نہیں کیا جا سکتا، سپریم کورٹ کو بھی اس بات کا اختیار نہیں کہ وہ آئین کی خلاف ورزی پر کسی کو معاف کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو کچھ ہوا ہے بہت غلط ہوا ہے، پاکستان کو اگر ہم اسی طرح سے چلائیں گے تو کیا ہم انارکی کو تقویت دینا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں حکومت کی جانب سے بیرونی سازش کی نشاندہی کر کے آرٹیکل 5 کا حوالہ دینا درست نہیں، وہ بالکل مختلف بات ہے، اسپیکر صاحب نے یہ ازخود کیسے سوچ لیا کہ یہ تحریک عدم اعتماد اپوزیشن بیرونی قوتوں کے ساتھ مل کر ملی بھگت ہے اور وہ ملی بھگت ملکی مفاد میں نہیں ہے۔

عرفان قادر نے مزید کہا کہ اگر اپوزیشن اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لے جاتی ہے تو اس میں وفاق کا موقف کون دے گا، اس وقت ریاست کی نمائندگی کرنے والا اٹارنی جنرل کون ہو گا، ان حالات میں ان کا تقرر بھی غلط ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں سپریم کورٹ آخری حل نہیں ہے بلکہ آئین خود ہے، اگر اس کی خلاف ورزی شروع ہو جاتی ہے تو سپریم کورٹ پارلیمنٹ تو نہیں چلائے گی، یہ چیز تو ہوئی ہی صریحاً غلط ہے۔

ماہرین قانون عبدالمعیز جعفری نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے آج جو کچھ کیا وہ محض ایک آئینی آرٹیکل کا مضحکہ خیز غلط استعمال ہی نہیں تھا بلکہ یہ پی ٹی آئی کے اراکین کی طرف سے اسی طرح کے غلط استعمال اور عوامی طور پر آئین کی غلط تشریح کی کئی کوششوں کا نتیجہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے سیاسی حالات بدلتے جاتے ہیں، اسی طرح متعلقہ آرٹیکل بھی حکومت کے حملے کی زد میں آتے جاتے ہیں۔

عبدالمعیز جعفری نے کہا کہ آئین کو اپنی مرضی کے مطابق بنانے کا موجودہ موسم آرٹیکل 63-اے کے ساتھ شروع ہوا تاکہ اپنے ہی اراکین کو تاحیات نااہلی کی دھمکی دی جا سکے، یہ کام اس سنجیدگی سے کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کو اس پر غور کرنے کو کہا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہاں تک کہ اگر غیرملکی مداخلت کے حوالے سے اس جھوٹ میں کچھ سچائی تھی بھی تو تو بھی جس عمل کے ذریعے اس کا فیصلہ ہونا چاہیے تھا وہ عدالت تھی، یہ دراصل اپوزیشن کے نمبر واضح ہونے کے بعد بنیادی طور پر اقلیتی حکومت کی جانب سے اکثریتی نمائندوں کو غدار قرار دیا گیا، یہ پاکستان کی اکثریت پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ وہ اس بنیاد پر قوم کو دھوکا دے رہے ہیں کہ وہ آئینی عمل کے ذریعے حکومت کا خاتمہ چاہتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسپیکر کے پاس آئین کی اس طرح تشریح کا کوئی اختیار نہیں ہے، پہلے تحریک عدم پیش ہونے کے بعد اجلاس بلانے میں تاخیر کی گئی اور پھر یہ نظرانداز کردیا گیا کہ آئین کیا مینڈیٹ دیتا ہے، ایک مرتبہ تحریک عدم اعتماد پیش ہو جائے تو ایوان کی باقی تمام کارروائی روک کر تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کی جاتی ہے اور یہ کہ تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے والا وزیراعظم اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتے۔

اس حکومت نے جس طرح سے حکومت نے اقتدار پر قبضے کے لیے آئین کو استعمال کرتے ہوئے واضح بددیانتی کو چھپانے کے لیے اسے استعمال کیا ہے، وہ ان کے ماضی کے اقدامات کی یاد دلاتا ہے۔

مرزا معز بیگ

ماہر قانون مرزا معز بیگ نے کہا کہ آپ جس پارٹی کو چاہیں سپورٹ کریں لیکن آج آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کا سیاہ دن ہے، جب آئینی اقدار ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں تو ہم سب اجتماعی طور پر کمزور ہو جاتے ہیں۔ یہ کتنا افسوسناک اور شرمناک انجام ہے!۔

آئین سے انحراف کیا گیا، اسد رحیم خان

ماہر قانون اسد رحیم خان نےڈان نیوز سے گفتگو میں کہا کہ اس معاملے میں آئین سے انحراف کیا گیا ہے کیونکہ آرٹیکل 58 میں تفصیل بہت واضح ہے کہ جب تک تحریک عدم اعتماد پر ووٹ نہ ہو جائے یا اس عمل کی پیروی نہ کی جائے اس وقت تک وزیراعظم پاکستان اسمبلیاں تحلیل نہیں کر سکتے۔

یہ بھی پڑھیں: اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع

انہوں نے کہا کہ اس وقت آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ تحریک عدم اعتماد کو اس طرح ختم کیا جا سکتا ہے اور آرٹیکل 58 کی وضاحت بھی اس نکتے سے بہت زیادہ واضح ہے۔

اسد رحیم نے اپنی ٹوئٹ میں پیش گوئی کی کہ ایک مرتبہ پھر پارلیمنٹ کی تقدیر کا فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی۔

ریما عمر نے کہا کہ اگر مگر چھوڑیں کیونکہ اسپیکر نے آئین کی صریحاً خلاف ورزی کی اور عمران خان کے پاس صدر کو اسمبلی کی تحلیل کی ایڈوائس بھیجنے کا کوئی اختیار نہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ کسی ایسے شخص کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل کرنا کہ جس کے پاس اس فیصلے کا کوئی اختیار نہیں، ایسے کام کی کوئی آئینی حیثیت نہیں۔

وکیل اور معروف سماجی کارکن جبران ناصر نے پیش گوئی کی کہ سپریم کورٹ ممکنہ طور پر تمام فیصلے ختم کر کے سابقہ فیصلے بحال کردے گی اور آئین کے مطابق دوبارہ تحریک عدم اعتماد کی ہدایت کرے گی۔

حسن کمال وٹو نے اسے قانون اور جمہوریت کے لیے سیاہ دن قرار دیا جبکہ مشرف زیدی نے عندیا دیا کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ خارجہ پالیسی کی بنیاد پر الیکشن ہوں گے۔

کام نگار شمع جونیجو نے کہا کہ فواد چوہدری نے آئین کی غلط کی تشریح کی اور آئین کی خلاف ورزی پر وزیراعظم اور اسپیکر کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ درج ہونا چاہیے۔

اسپیکر کی رولنگ

تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے بلایا گیا اجلاس شروع ہوتے ہی وفاقی وزیر اطلاعات و قانون فواد چوہدری نے مائیک سنبھالا اور انہوں نے تحریک عدم اعتماد کو آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کرنے کا مطالبہ کیا۔

فواد چوہدری نے قرار داد کو غیر ملک کی جانب سے پاکستان میں حکومت کو تبدیل کرنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ 7 مارچ کو ہمارے ایک سفیر کو ایک سرکاری اجلاس میں طلب کیا جاتا ہے اور وہ اجلاس میں شریک ہوتے ہیں، اس ملاقات میں دوسرے ملک کے سفیر بھی ہوتے ہیں، اجلاس میں ہمارے سفیر کو یہ بتایا جاتا ہےکہ تحریک عدم پیش کی جارہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 8 مارچ کو عدم اعتماد پیش کی گئی تھی، ہمارے سفیر کو بتایا جاتا ہے کہ پاکستان سے اس ملک کے تعلقات کا دار و مدار اس تحریک کی کامیابی پر منحصر ہے اگر اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو آپ کو معاف کردیا جائے گا اور ناکام ہوتی ہے تو آپ کا اگلا راستہ خطرناک ہوگا۔

مزید پڑھیں: صدر مملکت عارف علوی نے وزیراعظم کی تجویز پر قومی اسمبلی تحلیل کردی

فواد چوہدری کے اعتراض کے فوری بعد ہی ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اراکین قومی اسمبلی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم پاکستان کے خلاف اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد 8 مارچ 2022 کو پیش کی تھی، عدم اعتماد کی تحریک کا آئین، قانون اور رولز کے مطابق ہونا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی غیر ملکی طاقت کو یہ حق نہیں کہ وہ سازش کے تحت پاکستان کی منتخب حکومت کو گرائے، وزیر قانون نے جو نکات اٹھائے ہیں وہ درست ہیں لہٰذا میں رولنگ دیتا ہوں کہ عدم اعتماد کی قرارداد آئین، قومی خود مختاری اور آزادی کے منافی ہے اور رولز اور ضابطے کے خلاف میں یہ قرارداد مسترد کرنے کی رولنگ دیتا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے آرٹیکل 54 کی شق 3 کے تحت تفویض کردہ اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے جمعہ 25 مارچ 2022 کو طلب کردہ اجلاس کو برخاست کرتا ہوں۔

ساتھ ہی انہوں نے ایوان زیریں کے اجلاس کو غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔