فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

وہ شاید انیس سو بیاسی کی بات ہے، ہمیں پاکستان سے ایک کال آئی جس میں کہا گیا کہ ہم کابل میں ڈاکٹر صلاح الدّین کو یہ بتانے کے لئے وی سی آر کام نہیں کر رہا- ڈاکٹر صلاح الدّین، شاہنواز بھٹو کی کوڈ نیم تھا۔  پیغام پہنچا دیا گیا۔ سالوں بعد ہمیں یہ پتا چلا کہ "وی سی آر" درحقیقت ایک میزائل کے لئے کوڈ ورڈ تھا جو جنرل ضیاء الحق کا ہوائی جہاز گرانے کے لئے پاکستان بھیجا گیا تھا-

ان دنوں میں نیدر لینڈز میں پی پی پی کا چیف آرگنائزر تھا- انیس سو اسی  میں مجھے بینظیر بھٹو کے چھوٹے بھائی، شاہنواز بھٹو نے بلایا۔ انہوں نے ٹیلی فون پر بتایا کہ وہ جرمنی میں ہیں اور پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے لیے رضاکار بھرتی کرنے میں انہیں میری مدد درکار ہے۔ مجھے اس حکمت عملی پر نظریاتی اختلاف تھا سو میں نے انکار کر دیا۔ ہمای بحث ہوئی جس میں میری رائے گوریلا جنگ کے خلاف اور ضیاء آمریت کا تختہ الٹنے کے لئے عوامی تحریک کی حمایت میں تھی۔

میں ارشد اعوان سے سنہ انیس سو اکہتر میں، گورنمنٹ کالج (گوجرہ) میں ملا تھا جنہیں  احترماً 'پا جی' (بڑے بھائی) کہا جاتا تھا۔ وہ میرے سینئر تھے اور ایک کبڈی کے بہترین کھلاڑی مانے جاتے تھے۔ پا جی  بعد میں ضیاء آمریت کے دوران  الذولفقار کے بہترین کارکنوں میں شمار ہونے لگے اور آج کل جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اپنے ساتھیوں اور دوستوں میں وہ آج بھی 'پا جی' ہی ہیں، اور انہوں نے زندگی میں جو کام کیے ہیں اس کی بنا پر ان کی بہت عزت ہے۔

کالج کے بعد ہم دوبارہ پنجاب یونیورسٹی چوہتر سے ستتر کے دوران ساتھ رہے۔ وہ لاء کے طالبعلم تھے جبکہ میں اپلائیڈ سائیکولوجی پڑھ رہا تھا۔ یہاں ہمارے  اسلامی جمیعت طلبہ (آئی جے ٹی، جماعت اسلامی کا سٹوڈنٹ ونگ) کے لیڈروں سے لاتعداد جھگڑے ہویی۔ ایک بار جب میں آئی جے ٹی کے غنڈوں کے ہاتھوں بری طرح مار کھا رہا تھا، ارشد اعوان انتہائی بہادری کے ساتھ لڑے اور پوری قوت کے ساتھ جوابی کارروائی کی۔

پھر میں نے ضیاء آمریت کے خلاف کچھ آرٹیکل لکھے تو میری گرفتاری کے وارنٹ جاری ہو گۓ اور مجھے ملک بدر ہونا پڑا جبکہ ارشد اعوان کو پی پی پی کا کارکن ہونے کی بنا پر جیل بھیج دیا گیا۔

اسی دوران پاکستان  کے اندر باہر سینکڑوں لوگ  پی ایل اے میں بھرتی ہوئے جو بعد میں الذولفقار آرگنائزیشن (اے زیڈ او) بنی۔ مجھے معلوم تھا کہ ارشد اعوان اور اعظم چودھری، انیس سو اکیاسی کے اوائل میں پی آئی اے کے ہوائی جہاز کی ہائی جیکنگ کے بعد آزاد کر دیے گئے تھے۔ اعظم چوہدری  چودھری الیاس کے چھوٹے بھائی تھے جو بعد میں پی پی پی کے ٹکٹ پر ایم این اے بھی منتخب ہویے تھے۔  وہ ان چون سیاستدانوں میں سے ایک تھے جنہیں آزاد کرنے کا ہائی جیکرز نے مطالبہ کیا تھا۔

اس کامیاب ہائی جیکنگ کا منصوبہ الذولفقار نے بنایا تھا جس کے رہنما الذوالفقار میر مرتضیٰ اور شاہنواز بھٹو تھے۔ انہیں توقع تھی کہ رہا ہونے والے  تمام چون کارکن اور سیاستدان الذوالفقار میں شامل ہو جائیں گے۔ لیکن ایسا نہ ہوا اور کچھ تو شامل ہو ۓئے مگر زیادہ تر نے انکار کردیا۔

سب سے بڑے عسکریت پسند، ارشد اعوان اور اعظم چودھری، ضیاء آمریت سے لڑنے کے لئے اے زیڈ او میں شامل ہوگئے ۓ۔ ایمسٹرڈیم میں ہمیں پتا چلا کہ وہ دونوں کابل چلے گئے ہیں اور اس دوران ہمارا اُن سے براہ راست کوئی رابطہ نہیں تھا۔

وہ شاید انیس سو بیاسی کی بات ہے، ہمیں پاکستان سے ایک کال آئی جس میں کہا گیا کہ ہم کابل میں ڈاکٹر صلاح الدّین کو یہ بتادیا جائے کہ وی سی آر کام نہیں کر رہا- ڈاکٹر صلاح الدّین، شاہنواز بھٹو کی کوڈ نیم تھا۔  پیغام پہنچا دیا گیا۔ سالوں بعد ہمیں یہ پتا چلا کہ "وی سی آر " درحقیقت ایک میزائل کے لئے کوڈ ورڈ تھا جو جنرل ضیاء الحق کا ہوائی جہاز گرانے کے لئے پاکستان بھیجا گیا تھا-

اسی دوران ہم نے سنا کہ جنرل ضیاء کے ہوائی جہاز پر ناکام حملہ ہوگیا ہے۔ایک میزائل سے ان کے ہوائی جہاز کو نشانہ بنایا گیا، لیکن وہ اپنے ہدف تک نہ پہنچ سکا اور یہ خبر سب سے پہلے بی بی سی نے نشر کی۔

پھر یہ انیس سو تراسی کے آخری دن تھے جب مجھے پاکستان سے ایک کال آئی کہ اعظم چودھری خطرے میں ہیں، انہیں پاکستان چھوڑنا پڑے گا اور کسی  یورپین ملک میں پناہ حاصل کرنے کے لیے انہیں مدد درکار ہے۔ میں نے کال کرنے والے سے کہا کہ انہیں برطانیہ بھیج دیں، میں ائیرپورٹ پر ریسیو کر لوں گا۔

اعظم چودھری ایک دوست شگری کے ساتھ اسلام آباد ائیرپورٹ سے روانہ ہوئے۔ اگر انہیں ائیرپورٹ پر پکڑ لیا جاتا تو اس کا مطلب یقینی موت تھا۔ وہ لیاقت محمد کے نام سے ایک نقلی پاسپورٹ پر سفر کر رہے تھے۔

لندن کے ہیتھرو ائیرپورٹ پر میں ایک اور ایکٹوسٹ کے ساتھ 'لیاقت' کا انتظار کر رہا تھا۔ اس وقت یو کے میں داخلے کے لیے پاکستانیوں کو ویزا نہیں لینا پڑتا تھا۔ آٓنے والوں کو یو کے میں داخل ہونے کے لئے  ائیرپورٹ پر امیگریشن افسر کو مطمئن کرنا پڑتا تھا۔

میں نے لیاقت کو مشورہ دیا کہ وہ امیگریشن پر یہی بتائیں کہ انہیں جوے کا شوق ہے اور یوکے میں  جوا کھیلنے آئے ہیں مگر بدقسمتی سے امیگریشن افسر مطمئن نہ ہوا اور لیاقت کو روک لیا گیا۔ شگری نے باہر آکر مجھے خبر سنائی تو ہم بہت فکرمند ہو ۓئے۔ میرے ایک دوست ٹیری فیلڈ، لیورپول سے ایم پی تھے اور  لیبر پارٹی میں ٹروسکیائٹ رجحان رکھنے والے گروپ ملیٹنٹ کے رکن تھے۔

میں نے انہیں کال کی، انہوں نے شام کو ملنے کے لئے کہا۔ اس دوران ہمیں ویزا افسر سے معلوم ہوا کہ ویزا کے لئے اعظم چوہدری کی درخواست کا حتمی فیصلہ اگلے دن کیا جاۓ گا۔

ٹیری فیلڈ نے مداخلت کی اور بالآخر اعظم چودھری ائیرپورٹ سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے جہاں میں ان کا انتظار کر رہا تھا۔ حالانکہ ہم نے ایک دوسرے کے بارے  میں کافی کچھ سنا تھا، تاہم یہ ہماری پہلی ملاقات تھی۔ یہ خاصا جذباتی لمحہ تھا۔ دونوں کا تعلق ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تھا اور دونوں ہی نے ضیاء آمریت کے خلاف لڑائی کی تھی۔

اگلے ہی دن میں نے ان کے لئے نیدرلینڈز کے ویزا کی درخواست دی، جو ایک دن میں مل گیا۔ یوں ہم بس پر ایک ساتھ ایمسٹرڈیم پہنچے جہاں اعظم چوہدری  ڈیمن میں میرے فلیٹ میں مقیم رہے۔

پھر انیس سو چوراسی میں ارشد اعوان نے دہلی سے مجھے کال کی۔ وہ سب کچھ چھوڑ کر یورپ آنا چاہتے تھے۔ میں نے انہیں ایمسٹرڈیم کا ٹکٹ لینے کے لئے کہا جس کے بعد وہ لندن  آ سکتے تھے۔ میں نے تنویر گوندل سے (جنھیں اب ڈاکٹر لال خان کہا جاتا ہے،) ارشد اعوان کو وہاں سے نکالنے پر بات چیت  کی، جو بنا ویزا آرہے تھے۔

منصوبوں اپنی حتمی شکل میں کچھ یوں تھا کہ تنویر نے انہیں ایمسٹرڈیم ائیرپورٹ سے باہر نکالنے کی کوشش کرنا تھی۔ اگر وہ ناکام ہوتے تو پھر مجھے ارشد کو لندن میں ویزا دلانے کی کوشش کرنا تھی۔ اس وقت میں اور تنویر دونوں، پی پی پی میں 'سٹرگل' (struggle) کے نام سے ایک ٹروسکیائٹ (Trotskyist) رجحان کا گروپ بنانے میں مصروف تھے۔

میں لندن چلا گیا اور تنویر، ارشد کا ایمسٹرڈیم کے سچپول ائیرپورٹ پر انتظار کرنے لگ۔ ہمارے گروپ کا ایک ساتھی طارق بٹ ائیرپورٹ پر کام کرتے تھے۔ منصوبہ یہ تھا کہ وہ ارشد اعوان سے ٹرانزٹ ایریا میں ملیں گے اور انہیں اپنا جاب کارڈ دے دے گا۔ ارشد اعوان کو ایک ائیرپورٹ ملازم کی حیثیت سے باہر نکل آئیں گے اور بعد میں طارق بٹ بھی باہر پہنچ جائیں گے-

منصوبہ کامیاب رہا- ارشد اعوان بنا کسی ویزا کے باہر آگئے۔ مجھے اس کی اطلاع ملی تو میں ایمسٹرڈیم واپس آگیا اور ہم تینوں ایک ہی فلیٹ میں رہنے لگے۔ میں نے سیاسی پناہ حاصل کرنے میں ان کی مدد کی۔ مقامی پولیس افسر میرا دوست تھا۔ میں ڈیمن میں رہنے والا پہلا پاکستانی تھا اور اس نے خوشی سے میری درخواست قبول کر لی۔

آہستہ آہستہ ارشد اعوان اور اعظم چوہدری نے اپنے ایڈونچر کی کہانیاں سنانی شروع کیں۔ مجھے تجسس تو تھا ہی جب میں نے ان سے جنرل ضیاء پر میزائل حملہ اور اس کے ناکام ہونے کی وجہ پوچھی تو وہ ایک انتہائی دلچسپ کہانی ثابت ہوئی۔

ان دونوں کو یہ کام کرنے کے لئے پاکستان بھیجا گیا تھا۔ انہوں نے میزایل افغانستان سے سمگل کیا اور حملے کے لئے مناسب جگہ ڈھونڈنے لگے۔ پھر ان دونوں کی مدد کے لئے مخبر بھی موجود تھے۔

جس دن ضیاء الحق نے ہوائی جہاز میں اڑنا تھا، اس دن یہ دونوں مری روڈ پر اپنے میزائل کے ساتھ ایک پارک میں پہنچ گئے تھے۔ اعظم کو میزائل چلانا آتا تھا، ارشد کو نہیں۔ وقت سے چند منٹ پہلے ارشد نے اعظم سے کہا کہ وہ میزائل چلائیں گے۔ اعظم نے ارشد سے کہا کہ "پا جی آپ کو میزائل چلانا نہیں آتا!"، تو ارشد اعوان نے جواب دیا، "میں چاہتا ہوں کہ میرا نام تاریخ میں سنہرے حرفوں سے لکھا جاۓ"۔ اب اس کا کیا جواب ہو اور پا جی اپنی بات پر اڑ چکے تھے۔

طریقہ یہ تھا کہ میزائل کو صحیح نشانے پر داغنے کے لیے اس کے دھوئیں سے بچنا پڑتا ہے اور عینک یا گوگلز  پہننا پڑتے ہیں۔ ارشد اعوان نے عینک پہننے سے بھی انکار کردیا نہیں پہنیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ "میں عینک کے بغیر ہی اسے گرا سکتا ہوں"۔

جب انہوں نے میزائل فائر کیا تو دھویں سے انکی نظر دھندلا گئی اور میزائل اپنے نشانے سے تھوڑا سا کھسک گیا۔ سمت میں ذرا سے فرق کی وجہ سے ٹائمنگ غلط ہو گئی اور نشانہ چوک گیا۔

وہ دونوں ہی بہت ناخوش اور مایوس ہوۓ۔ بعد میں اعظم یہی فقرہ کستے رہتے- "پا جی نے میزائل ایسے چلایا جیسے شادیوں میں پٹاخے چھوڑے جاتے ہیں"۔

کوشش ناکام ہوئی، جنرل ضیاء بچ گئے اور ارشد اعوان کا نام تاریخ میں اس ایکٹوسٹ کی حیثیت سے کبھی نہ درج ہوسکا جس نے جنرل ضیاء کو مارا۔

اعظم نے بعد میں انفرادی دہشتگردی کا فلسفہ ترک کر کے سٹرگل گروپ جوائن کر لی۔ بدقسمتی سے انہیں انیس سو ستاسی میں نیدر لینڈز کے نوجوان نسل پرستوں نے قتل کر دیا۔

اعظم چوہدری ایک بہادر کارکن تھے جن کی بھولی ہوئی داستان بہت کم لوگوں کو معلوم ہے اور پا جی آج بھی جلا وطن ہیں۔


فاروق طارق عوامی ورکر پارٹی پاکستان کے جنرل سیکرٹری ہیں-

بشکریہ: ویو پوائنٹ ترجمہ: ناہید اسرار

تبصرے (0) بند ہیں