بیان بازی نہیں عملی اقدامات کریں، لاپتا افراد کے لواحقین کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 24 اپريل 2022
سمی دین بلوچ نے کہا کہ سویلین قیادت بدل جاتی ہے لیکن اس کی بیان بازی وہی رہتی ہے— فائل فوٹو: راشد رضوی
سمی دین بلوچ نے کہا کہ سویلین قیادت بدل جاتی ہے لیکن اس کی بیان بازی وہی رہتی ہے— فائل فوٹو: راشد رضوی

سال 2009 کے وسط سے لاپتا ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی سَمی دین بلوچ وزیر اعظم شہباز شریف کی اس یقین دہانی سے زیادہ پُرامید نہیں ہیں کہ وہ لاپتا افراد کا معاملہ متعلقہ حلقوں کے سامنے اٹھائیں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے سمی دین بلوچ نے کہا کہ ’یہ کوئی نئی بات نہیں ہے‘۔

ڈاکٹر دین محمد 28 جون 2009 کو ضلع خضدار کے علاقے اورناچ سے اس وقت لاپتا ہوگئے تھے جب وہ ایک ہسپتال میں رات کی ڈیوٹی پر تھے۔

دہشت گردوں اور باغیوں سے جنگ کے نام پر بلوچستان اور سابق فاٹا میں کئی سال قبل شروع ہونے والی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ گزشتہ برسوں میں اسلام آباد، خیبر پختونخوا اور سندھ سمیت بڑے شہری مراکز تک پھیل گیا ہے۔

ان لاپتا افراد کے لواحقین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی مسلسل مہم کے بعد مارچ 2011 میں جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن قائم کیا گیا تھا، لیکن وہ بھی صرف چند لاپتا افراد کو تلاش کرنے میں کامیاب رہا۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے کچھ کارکنان کا اندازہ ہے کہ کمیشن کے پاس اب بھی 2 ہزار سے زیادہ غیر حل شدہ مقدمات باقی ہیں، بہت سے کیسز میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے سیکیورٹی ایجنسیوں پر الزام عائد کیا کہ وہ لوگوں کو عسکریت پسندانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے شبے میں اٹھا لے جاتی ہیں، اس الزام کی حکام نے کئی بار تردید کی ہے۔

سمی دین بلوچ کے والد کی گمشدگی نے انہیں بچپن سے محروم کر دیا تھا اس لیے وہ 13 سال سے لاپتا افراد کے لیے آواز اٹھاتے ہوئے بڑی ہوئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 2008 میں پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے تمام وزرائے اعظم نے لاپتا افراد کے بارے میں بات کی ہے، ان سب نے اس مسئلے کو حل کرنے کا عزم کیا لیکن آج تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’شہباز شریف کی طرح عمران خان سمیت دیگر وزرائے اعظم نے ہمیں یقین دلایا کہ بلوچ لاپتا افراد کا مسئلہ ان کی اولین ترجیح ہے، لیکن ان دعووں کو حقیقت بنتے دیکھنا ابھی باقی ہیں‘۔

ان کے مطابق سویلین قیادت بدل جاتی ہے لیکن اس کی بیان بازی وہی رہتی ہے، جب وہ حکومت میں نہیں ہوتے تو وہ اس مسئلے پر آواز اٹھاتے ہیں اور اسے حل کرنے کا عہد کرتے ہیں، اقتدار میں آنے کے بعد وہ یا تو اسے بھول جاتے ہیں یا صرف بیان بازی کرتے ہیں۔

انہوں نے مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ مریم نواز خود عمران حکومت کے دوران شکار بنیں جب انہیں اور ان کے والد کو جیل میں ڈال کر ایک دوسرے سے الگ کردیا گیا، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہمیں یقین دلایا کہ ان کی حکومت لاپتا افراد کا اہم مسئلہ حل کرے گی، اب ان کی حکومت ہے، انہیں لاپتا افراد کو رہا کرانا چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں