لکھاری بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پبلک پالیسی اینڈ ڈیولپمنٹ اسپشلسٹ ہیں۔
لکھاری بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پبلک پالیسی اینڈ ڈیولپمنٹ اسپشلسٹ ہیں۔

وزیرِاعظم شہباز شریف نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد کئی پالیسی اقدامات کا اعلان کیا تھا۔ ان میں یہ عزم بھی شامل تھا کہ صرف پنجاب کی نہیں بلکہ تمام صوبوں کی ترقی پر توجہ دی جائے گی۔ اگرچہ یہ خوش آئند بات ہے لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) کو خود پر سے 'پنجاب کی پارٹی' ہونے کی چھاپ ختم کرنے کے لیے زبانی دعوؤں سے بڑھ کر کام کرنا ہوگا۔

اگرچہ 2008ء کے بعد سے خود مسلم لیگ (ن) نے بھی اس چھاپ کو ختم کرنے اور ایک وفاقی شبیہہ کے اظہار کی کوشش کی لیکن اس جماعت نے علاقائی سیاست کو بھی اختیار کیا اور پنجاب میں اپنی مقبولیت کو مستحکم کرنے کے لیے ملکی سیاست کو قربان کیا۔

چھوٹے صوبوں کے لیے مسلم لیگ (ن) کی حکمتِ عملی یہ رہی ہے کہ مقامی اشرافیہ کو خوش رکھا جائے اور چھوٹی علاقائی جماعتوں کے نمائندگان کے ساتھ اتحاد بنائے جائیں۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) اسٹیبلشمنٹ کے دبدبے کی تو کامیابی سے مزاحمت کرتی رہی لیکن اشرافیہ پر مرکوز اس کی حکمتِ عملی سے عوام کی طرزِ زندگی بہتر نہیں ہوئی۔ نتیجے کے طور پر پنجاب کے باہر مسلم لیگ (ن) کے پنجاب کی جماعت ہونے کا تاثر اب بھی مضبوط ہے۔

مزید پڑھیے: نئی حکومت کے لیے ’آگے کنواں، پیچھے کھائی‘

پنجاب کے باہر بھی عوامی حمایت کے حصول کے لیے مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں بننے والی موجودہ حکومت کو چھوٹے صوبوں خاص طور پر سابقہ فاٹا اور بلوچستان کی معاشرتی و معاشی ترقی کو ترجیح دینا ہوگی۔

بلوچستان کے حوالے سے حکومت کا منصوبہ کچھ اس طرح کا ہونا چاہیے:

سب سے پہلی ترجیح تو سیاسی مفاہمت اور قیامِ امن کو دینی چاہیے۔ صوبے میں جاری لسانی کشیدگی کے پُرامن حل تک یہاں معاشی ترقی کا کوئی بڑا منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اس حوالے سے حکومت کو بلوچستان میں جاری کشیدگی کی پیچیدگیوں کو سامنے رکھنا ہوگا۔ یہاں جنوبی بلوچستان میں ایک کم پیمانے کی لسانی شورش جاری ہے جبکہ وسطی اور شمالی بلوچستان میں فرقہ وارانہ اور مذہبی عسکریت پسندی نظر آتی ہے۔

اس منظرنامے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ بلوچستان میں بحالی امن کے لیے ایک جامع اور مختلف حکمتِ عملی اختیار کرنی پڑے گی۔

مذہبی اور فرقہ وارانہ عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے قومی سلامتی پالیسی اور خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ ہمارے سیکیورٹی ماہرین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ افغانستان میں قیامِ امن کے بغیر بلوچستان اور خیبر پخونخوا میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ ہماری موجودہ افغان پالیسی تو افغانستان کو ایک اور علاقائی پراکسی جنگ کا میدان بناسکتی ہے۔

اس کے علاوہ ہمیں ایران اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں سعودی عرب کی جانب جھکاؤ کے بجائے ایک توازن قائم کرنا ہوگا۔ اور آخری بات یہ کہ فرقہ وارانہ اور مذہبی عسکریت پسند تنظیموں کو کسی قسم کی چھوٹ نہیں دینی ہوگی۔

بلوچستان میں لسانی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ایک مختلف حکمتِ عملی کی ضرورت ہوگی۔ 17 سال سے جاری شورش سے یہ اہم بات سامنے آئی ہے کہ جابرانہ اقدامات اور دکھاوے کے ڈیولپمنٹ پیکج دونوں ہی ناراض بلوچوں کو سیاسی دھارے میں لانے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پُرتشدد تنازعات کا دوبارہ سر اٹھانا اس بات کا ثبوت ہے کہ صرف سیکیورٹی پر توجہ دینے سے امن کا حصول ممکن نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات ضروری ہیں:

  • حکومت بلوچ شورش پسندوں سے رابطے کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی تشکیل دے۔ اس حکمتِ عملی میں قدآور سیاسی شخصیات شامل ہوں جو مذاکرات کی قیادت کریں اور اعتماد سازی کے اقدامات کے نفاذ کو یقینی بنائیں۔ ان اقدامات میں فوجی آپریشن کی روک تھام، مخصوص علاقوں سے ایف سی کا انخلا، تمام لاپتا بلوچوں کی رہائی اور ماورائے عدالت قتل کیے گئے لوگوں کے لواحقین کو معاوضے کی ادائیگی شامل ہوسکتے ہیں۔ محض معافی کی پیشکش یا تشدد کو ترک کرنے کی نصیحتیں یہاں مؤثر ثابت نہیں ہوں گی۔

  • مجوزہ مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے فوجی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت اور مدد بھی ضروری ہے۔ فوج کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ سخت گیر رویہ زیادہ سے زیادہ عارضی امن کو ہی یقینی بناسکتا ہے اور یہ کہ سیکیورٹی کے حوالے سے چاہے کوئی بھی قدم اٹھا لیا جائے زیرِ زمین شورش غیر معینہ مدت تک جاری رہ سکتی ہے۔ یہ شورش ریاست کو دفاعی حکمتِ عملی اپنانے، بین الاقوامی توجہ حاصل کرنے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پریشان کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ریاست کو ان مصنوعی رہنماؤں کی سرپرستی بھی ترک کردینی چاہیے جو خود ریاست نے ہی بنائے ہیں۔ اس شورش کا سب سے زیادہ فائدہ انہی لوگوں کو ہوتا ہے جس وجہ سے شورش کا باقی رہنا ان کے مفاد میں ہے۔

  • ماضی میں بلوچ شورش پسندوں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات 2 وجوہات کی بنا پر ناکام ہوئے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ مفاہمتی کوششیں اور جبر ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ مذاکراتی عمل کی قیادت کرنے والے بامعنی پیشکش کرنے کی نہ تو ساکھ رکھتے تھے اور نہ ہی ان کے پاس اس کی آزادی تھی۔

مزید پڑھیے: بلوچستان آج اس نہج تک کیسے پہنچا؟

دوسرا اہم معاملہ یہ ہے کہ قدرتی اور ساحلی وسائل کے حوالے سے بلوچوں کے خدشات دُور کیے جائیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ:

  • آئین کے آرٹیکل 172(3) اور 158 پر مؤثر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے اچھی ساکھ رکھنے والے بلوچ اراکین پارلیمنٹ کی سربراہی میں ایک طاقتور پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیے۔ وفاق کے زیرِ انتظام تیل اور گیس کمپنیوں کی ملکیت، انتظام اور آمدن میں بلوچستان کو اس کا جائز حصہ دیا جانا چاہیے۔ ساتھ ہی قدرتی گیس کی قیمتوں، ٹیکسوں اور تقسیم کے حوالے سے صوبے کے خدشات کو بھی دُور کیا جانا چاہیے۔

  • آغاز حقوق بلوچستان پیکج میں کیے گئے وعدے کے تحت سینڈک کاپر-گولڈ منصوبے کی ملکیت بھی حکومتِ بلوچستان کو منتقل کی جاسکتی ہے۔

  • ریکوڈک معاہدے کو پبلک کیا جائے اور صوبے میں ریفائنری کا قیام یقینی بنایا جائے۔ کارپوریٹ منیجمنٹ اور بورڈ کے ساتھ چاغی میں اس کا قیام ضروری ہے۔ کمپنی کے منافع کے 2 فیصد، وفاقی منافع کے 2 فیصد اور رائلٹی ادائیگیوں کی نصف رقم پر مشتمل کارپوریٹ سوشل رسپانسبلٹی (سی ایس آر) فنڈ بھی اسی کے اختیار میں ہونا چاہیے تاکہ مقامی آبادی کی سماجی و اقتصادی ترقی کو یقینی بنایا جاسکے۔

  • جہاں تک سی پیک کا تعلق ہے تو پاکستان کو مقامی لوگوں کے بنیادی حقوق، وقار اور ترقیاتی ضروریات کو ترجیح دیتے ہوئے، سمندری ماحولیات کا احترام کرتے ہوئے اور مقامی ذریعہ معاش کو فروغ دینے کے لیے مزید جامع ترقیاتی حکمتِ عملی کو اختیار کرنا چاہیے۔ غیر ضروری چیک پوسٹوں کو ختم کیا جائے اور پینے کے پانی کے منصوبوں کو تیز کیا جائے۔ اس کے علاوہ ساحلی پٹی کے ساتھ ڈی سیلینیشن اور ریورس اوسموسس ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے ایک پبلک سیکٹر کمپنی بنائی جائے۔ گوادر بندرگاہ سے حاصل ہونے والی آمدنی میں بلوچستان کو حصہ دیا جانا بھی ضروری ہے۔

مزید پڑھیے: صدیوں پرانے فن کو زندہ رکھنے والی بلوچ خواتین

تیسری اہم بات یہ کہ غربت کے خاتمے اور سرحد پر باڑ لگانے سے لوگوں کے ذریعہ معاش پر پڑنے والے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے اقدامات کی بھی ضرورت ہے جیسے کہ:

  • افغانستان اور ایران کی سرحد کے ساتھ موجود بلوچستان کے تمام اضلاع میں تجارتی گزرگاہیں ضروری ہیں۔ ان میں تمام متعلقہ سہولیات اور تجارتی لاجسٹکس کی فراہمی بھی یقینی بنائی جانی چاہیے۔

  • بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بلوچستان کا حصہ بڑھا کر کم از کم 10 فیصد کیا جاسکتا ہے۔ اس کا موجودہ حصہ تقریباً 4 فیصد ہے جو کُل آبادی میں بلوچستان کے حصے سے بھی کم ہے۔ یہ ناانصافی ہے۔ اس اضافے سے نہ صرف غربت بلکہ شورش میں بھی کمی آئے گی۔ مزید یہ کہ بلوچستان میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی انتظامی صلاحیت اور وسائل کو بہتر کیا جائے جبکہ صوبے کے نمائندوں کو گورننگ باڈی کے ساتھ ساتھ منصوبے کی انتظامی ٹیم کا رکن بھی بنایا جائے۔


یہ مضمون 21 اپریل 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں