پانی کی قلت کے سبب فصلوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ

اپ ڈیٹ 01 مئ 2022
کسان سید طاہر شاہ کا کہنا تھا کہ پانی کی کمی آفت کی مانند ہوگی — فائل فوٹو: پی پی آئی
کسان سید طاہر شاہ کا کہنا تھا کہ پانی کی کمی آفت کی مانند ہوگی — فائل فوٹو: پی پی آئی

ملک میں پانی کے مسلسل بحران نے مزید بدتر صورت اختیار کر لی ہے اور ہفتہ کو دریا کے مجموعی پانی کی فراہمی میں 97 ہزار کیوبک فٹ فی سیکنڈ (کیوسک) تک کمی آئی، جس سے قومی سطح پر پانی کی قلت پہلے حساب کیے گئے 29 فیصد کے مقابلے 51 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اعداد و شمار کے مطابق پچھلے سال اسی دن (30 اپریل) کو یہ تعداد ایک لاکھ 21 ہزار کیوسک تھی، جبکہ اس دن کے لیے 5 سال کی اوسطاً سپلائی ایک لاکھ 57 ہزار 800 کیوسک ہے۔

ہفتہ کے روز 97 ہزار کیوسک بھی جمعہ کے روز سپلائی کے مقابلے میں 11 ہزار کیوسک بہتری کی عکاسی کرتے ہیں، جمعہ کو پانی کی سپلائی 86 ہزار کیوسک ریکارڈ کی گئی تھی۔

حالیہ صورتحال کے مطابق دریائے کابل سب سے زیادہ متاثر ہے جہاں 10 سال کی اوسط سپلائی 41 ہزار 200 کیوسک تھی جو کم ہو کر 16 ہزار 700 کیوسک ہوگئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سسٹم میں بہاؤ کم ہونے کی وجہ سے سندھ کے تمام بیراجوں میں پانی کی قلت مزید بڑھ گئی

علاوہ ازیں دریائے چناب سے سپلائی اس کی تاریخی اوسط 26 ہزار 300 کیوسک کے مقابلے میں 12 ہزار 300 کیوسک ہوگئی ہے جبکہ دریائے جہلم سے 52 ہزار 300 کیوسک کی اوسطاً سپلائی کے مقابلے میں موجودہ سپلائی 31 ہزار 500 کیوسک رہ گئی ہے۔

پانی کی قلت سے متاثر انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (اِرسا) نے پنجاب کو اس کی ایک لاکھ 5 ہزار 500 کیوسک کی طلب کے برعکس صرف 51 ہزار 400 کیوسک پانی فراہم کیا ہے، جبکہ سندھ کی 67 ہزار 100 کیوسک طلب کے برعکس 32 ہزار 600 کیوسک پانی فرایم کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ دونوں وفاقی اکائیوں کو 51 فیصد قلت کا سامنا ہے۔

پنجاب کے محکمہ آبپاشی کے عہدیدار نے کہا کہ ’ہفتے کی قلت پنجاب میں اگلے پانچ سے سات روز اور سندھ میں 10 سے 12 روز تک آبپاشی پر اثر انداز ہوگی، جس سے کپاس کی بوائی، گنے اور خریف کی فصلوں کی پوری رینج تباہ ہو جائے گی‘۔

ارسا کے اعداد و شمار کے مطابق ہفتہ کو ملک میں منگلا جھیل میں ایک لاکھ ایکڑ فٹ پانی موجود تھا جبکہ اس کی گنجائش 73 لاکھ ایکڑ فٹ ہے۔

مزید پڑھیں: سندھ نے ارسا کے بیراجوں پر نگرانی کے منصوبے کو مسترد کردیا

تربیلا جھیل کی بات کی جائے تو یہ 22 فروری کو ڈیڈ لیول پر پہنچ گئی تھی اور گزشتہ 67 دنوں میں بحال نہیں ہوئی ہے، جس کی وجہ سے ملک مکمل طور پر دریا پر منحصر سپلائی اب 51 فیصد کم ہو چکی ہے۔

ارسا کے اعداد و شمار کے مطابق سپلائی میں پہلے 29 فیصد کی کمی تھی، ملک کو اپریل کے دوران 86 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ملنا چاہیے تھا جبکہ حقیقی طور پر اسے 54 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ملا جو 38 فیصد کم ہے۔

کسان سید طاہر شاہ کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک آفت ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ منگلا اور تربیلا دونوں ڈیم فروری میں ڈیڈ لیول کو چھونے سے ربیع کے آخر اور ابتدائی خریف سیزن (فروری تا اپریل) کو متاثر کریں گے، یعنی سہ ماہی کے دوران فصلوں کی پوری رینج متاثر ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ گندم اور کپاس کی بوائی کو آخری پانی دینے کے لیے پانی نہیں ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: ارسا نے صوبہ سندھ کو پانی کی فراہمی میں اضافہ کردیا

سید طاہر نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’عملی لحاظ سے اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ غذائی تحفظ (گندم) اور بڑی نقدی (کپاس) کی فصل پر دباؤ اور اس وجہ سے ملک کا 70 فیصد زرمبادلہ متاثر ہوگا، نئے آبی ذخائر کی تعمیر پاکستان کے لیے سست مالی موت اور بھوک کے بحران سے بچنے کا واحد حل ہے۔

ارسا کے ترجمان رانا خالد نے کہا کہ موسمی حالات خاص طور پر گزشتہ چند دنوں میں مزید پریشانی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بارش کے مختصر ہوتے موسم نے معاملات کو مزید خراب کیا جو مارچ کے آخر میں درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ شروع ہوتا تھا اور اس کے سبب اپریل کے آغاز تک پانی کی خاصی مقدار حاصل ہوجاتی تھی۔

انہوں نے کہا کہ بارش کا موسم اب جولائی کے وسط میں شروع ہوتا ہے اور اگست کے وسط میں ختم ہوجاتا ہے۔

محدود ذخیرے کا مطلب پانی کی مستقل پریشانی ہے اور یہ مسئلہ مستقل ہے اس لیے اس کا حل بھی ہونا چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں