منوڑہ جزیرہ، جس کی تاریخ کو تحفظ اور فروغ دینے کی ضرورت ہے

منوڑہ کا خوبصورت ساحل—تصویر: وکی میڈیا کامنز
منوڑہ کا خوبصورت ساحل—تصویر: وکی میڈیا کامنز

منوڑہ کراچی کے جنوب مغرب میں واقع ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ تاریخی طور پر ماہی گیروں کی بستی رہنے والے اس جزیرے کی اسٹریٹجک اہمیت کے پیش نظر یہاں بحریہ کی تنصیبات بھی موجود ہیں۔

ایک پتلے سے زمینی راستے کی مدد سے یہ زمین سے جڑا ہوا ہے۔ اس پتلے سے راستے کی وجہ سے ہی منوڑہ کو تکنیکی طور پر جزیرہ نہیں کہہ سکتے۔ یہ ایک جزیرہ نما ہے تاہم اس کی حیثیت ایک جزیرے کی ہی ہے۔

کراچی سے پکنک منانے کے لیے آنے والوں میں اس کے ریتیلے ساحل بہت مقبول ہیں۔ اس کے شمال مشرقی کناروں پر موجود تمر کے درخت نہ صرف اس کی جمالیات میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ جھینگے اور چھوٹی مچھلیوں کی نرسری کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔ یہ جھینگے اور مچھلیاں مقامی ماہی گیروں کے روزگار کا ذریعہ ہیں۔

منوڑہ ماحولیاتی، ثقافتی اور سماجی حوالے سے ایک بھرپور تاریخ رکھتا ہے۔ ہمیں عثمانی، عربی، فارسی، پرتگالی اور انگریزی سفرناموں اور کہانیوں کے علاوہ مقامی ادب میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔

اس جزیرے کا تاریخی فن تعمیر اس کے جمالیاتی اور ثقافتی ورثے کی گواہی دیتا ہے اور بصری طور پر اس کے ماضی سے جوڑ دیتا ہے۔ خشکی کا یہ چھوٹا سا ٹکڑا بہت سے تاریخی اور مذہبی مقامات سے بھرا ہوا ہے۔ ان مقامات میں شری ورون دیو مندر، حضرت یوسف شاہ غازی کا مزار (یہ ان 4 بزرگوں میں شامل ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کراچی کو آفات سے محفوظ رکھتے ہیں)، ایک سکھ گردوارہ، نوآبادیاتی دور کی عمارتیں بشمول چرچ، لائٹ ہاؤس اور ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) گیسٹ ہاؤس، تالپوروں (جنہوں نے 1783ء سے 1843ء تک سندھ پر حکومت کی) کا بنوایا ہوا ایک قدیم قلعہ اور اس کے علاوہ دیگر کئی رہائشی اور دفتری عمارتیں شامل ہیں۔

بدقسمتی سے اس دلکش جزیرے کے مسائل بھی بہت ہیں۔ زمین سے الگ ہونے کی وجہ سے منوڑہ کو میٹھے پانی کی کمی کا سامنا رہتا ہے اور پانی کی فراہمی کے لیے ٹینکروں پر بہت زیادہ انحصار کیا جاتا ہے۔ میٹھے پانی کی قلت یہاں کے رہائشیوں کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔

اس علاقے کی خوبصورتی بھی اب آلودگی کی نظر ہوچکی ہے۔ سمندری پانی میں آلودگی پھیلانے والے مواد جیسے کہ تیرتا ہوا ملبہ، تیل، سیوریج، کاغذ اور پلاسٹک شامل ہوچکے ہیں۔ یہ آلودگی منوڑہ جانے کے بحری راستے میں صاف دکھائی دیتی ہے۔ بندرگاہ کے علاقے میں آلودگی سمندری حیات اور ساحلی معیشت کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔

دی گئی تجاویز میں ایک کیمپ سائٹ اور ویونگ ڈیک بھی شامل ہے—این ای ڈی ڈیپارٹمنٹ آف پلاننگ اینڈ آرکیٹیکچر
دی گئی تجاویز میں ایک کیمپ سائٹ اور ویونگ ڈیک بھی شامل ہے—این ای ڈی ڈیپارٹمنٹ آف پلاننگ اینڈ آرکیٹیکچر

منوڑہ کا سب سے پرانا رہائشی علاقہ اولڈ صالح آباد ہے۔ یہ کم آمدن والے طبقے کا گنجان آباد علاقہ ہے۔ یہاں کے رہائشیوں میں سے زیادہ تر کا تعلق ماہی گیری سے ہے۔

نیو صالح آباد کے نام سے قائم ہونے والی نئی آبادی میں متوسط آمدن والا طبقہ رہائش پذیر ہے جن میں اکثر کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کے ریٹائرڈ ملازمین اور مختلف برادریوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ منوڑہ کا انتظام دیکھنے والے بنیادی اسٹیک ہولڈرز میں کے پی ٹی، منوڑہ کنٹونمنٹ بورڈ اور پاک بحریہ شامل ہیں۔ یہی ادارے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں شہری ضروریات کی فراہمی اور ضروری انفراaسٹرکچر کی دستیابی اور اس کی دیکھ بھال کے ذمہ دار ہیں۔

منوڑہ کی تعمیرات اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ اس کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ ماضی کی عمارتوں کو آہستہ آہستہ تباہ ہونے یا گرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہاں کے تعمیر شدہ ڈھانچے کو مختلف اداروں کی جانب سے اپنی مرضی سے تبدیل کیا جاتا رہا جس سے اس کی اصل شکل کہیں گم ہوگئی۔

یہاں کی دستیاب زمین پر متعدد نئی عمارتیں بنادی گئی ہیں جن کا اس کے بھرپور تاریخی اور ماحولیاتی تناظر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان جدید عمارتوں کو کسی بھی منصوبہ بندی کے بغیر تیار کیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں منوڑہ مکمل اور ناقابلِ تلافی نقصان کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ منوڑہ کے ماحولیاتی اور بصری اثاثوں اور اس کی شناخت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ بھی موجود ہے۔

اپنی دلچسپ کثیر العقیدہ اور کثیر الثقافتی تاریخ اور خوبصورت ریتیلے ساحل کی وجہ سے منوڑہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ایک بہترین سیاحتی مقام بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس جزیرے کو ایک تفریحی مرکز بنانے کے لیے حال ہی میں حکومت کی دلچسپی بڑھ گئی ہے، لیکن مناسب منصوبہ بندی کے بغیر کیے گئے اقدامات یہاں کے ماحولیاتی، سماجی، معاشی اور مقامی منظرنامے کو متاثر کرسکتے ہیں جس سے مقامی آبادی کا نقصان ہوگا۔

منوڑہ کی روزمرہ کی زندگی کراچی جیسے شہر سے بہت مختلف ہے لیکن پھر بھی نسبتاً پُرسکون پیمانے پر یہ تاریخ، شہری زوال اور تبدیلی کے اسی راستے پر چل رہا ہے جس سے خطے کے بہت سے شہر گزر رہے ہیں۔

منوڑہ کو ایک پائیدار سیاحتی مقام بنانے کا عزم

این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں آرکیٹیکچر کی تعلیم حاصل کرنے والے 37 طلبہ کے ایک گروپ نے منوڑہ پر تحقیق کی ہے۔ اس تحقیق میں انہوں نے منوڑہ اور اس کے ساتھ صالح آباد کے علاقوں کے لیے ایک شراکتی شہری منصوبہ پیش کیا ہے۔ ان طلبہ نے استعمال اراضی، انتظام، دیگر انفرااسٹرکچر، سماجی اور معاشی پہلو، سیاست، مجموعی ثقافت اور ماحولیات پر یہاں ہونے والی تعمیرات کے اثرات کو جانچا ہے۔

یہ تحقیق جزیرے پر پائیدار اور جامع سیاحت کی اہمیت اور اس کے ممکنہ مثبت اثرات پر مرکوز تھی۔ طلبہ نے مقامی افراد کے روزگار میں بہتری کے لیے مقامی دستکاریوں اور کھانوں کو استعمال کرتے ہوئے آمدن میں اضافے کی تجویز دی۔ ایک ترقی پذیر منوڑہ کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے طلبہ نے ایک 'ہیریٹیج روٹ' کی تجویز پیش کی جو منوڑہ کے تمام اہم مقامات کو آپس میں جوڑ دے۔

کیماڑی جیٹی سے بذریعہ کشتی منوڑہ آنے والوں کا سفر مٹیریل پیئر سے شروع ہوتا ہے۔ اس مجوزہ ہیریٹیج روٹ کے ایک جانب تاریخی ورون دیو مندر اور دوسری جانب خوبصورت ریتلیے ساحل ہیں۔ جیسے جیسے راستہ آگے بڑھتا ہے تو حال ہی میں تیار کیے گئے ساحلی منصوبے جیسے کہ منوڑہ بیچ ریزورٹ اور پرومینیڈ نظر آتے ہیں۔ یہاں مسافر اس منظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے کچھ دیر ٹھہر سکتے ہیں۔

اس سے آگے یہ راستہ کے پی ٹی آبزرویٹری تک جائے گا جہاں سے ایک سیدھی سڑک یوسف شاہ غازی کے مزار اور نوآبادیاتی دور میں تعمیر ہونے والے ڈی سی ریسٹ ہاؤس تک جاتی ہے۔ آخر میں جزیرے کا سب سے مقبول مقام یعنی لائٹ ہاؤس اور اس کے ساتھ سینٹ اینتھونی چرچ آئے گا اور یہاں یہ 'ہیریٹیج روٹ' اختتام پذیر ہوجائے گا۔

منوڑہ کے اہم مقامات—این ای ڈی ڈیپارٹمنٹ آف پلاننگ اینڈ آرکیٹیکچر
منوڑہ کے اہم مقامات—این ای ڈی ڈیپارٹمنٹ آف پلاننگ اینڈ آرکیٹیکچر

اس تحقیق میں کیے گئے دستاویزاتی کام، تحقیق اور تجزیے نے طلبہ کو منوڑہ کی تاریخ کو کھوجنے میں مدد دی۔ اس تاریخ کو نہ صرف فروغ دینے بلکہ اس کے تحفظ کی بھی ضرورت ہے۔ ایک تجویز منوڑہ کے قدرتی اثاثوں کے تحفظ کے لیے ماحولیاتی اعتبار سے حساس اقدامات پر روشنی ڈالتی ہے۔

ایک اور تجویز میں یہاں کے انفرااسٹرکچر میں بہتری اور ایکو ٹؤرازم کو فروغ دینا شامل ہے۔ اس میں ایک قابلِ عمل ڈیزائن کی سفارش کی گئی ہے جو مقامی افراد کی زندگیوں کا احترام کرے۔ اس میں خاص طور پر منوڑہ کے 3 اہم علاقوں کو ہدف بنایا گیا ہے جن میں پرانا صالح آباد، نیو صالح آباد اور کے پی ٹی کے علاقے شامل ہیں۔

اس کے علاوہ کئی چھوٹے چھوٹے اقدامات بھی تجویز کیے گئے ہیں جس سے نئے معاشی امکانات جنم لیں گے اور مقامی افراد اور سیاحوں میں تعلق کو فروغ ملے گا۔ سیاحت کو کنٹرول کرنے والے طریقے کے طور پر جزیرے میں سیاحوں کی آمد و رفت کی نگرانی اور کنٹرول کے لیے سیکیورٹی چوکیوں کی بھی تجویز دی گئی ہے۔

قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع منوڑہ کو بہت حد تک خودمختار بناسکتے ہیں۔ یہاں کے انفرااسٹرکچر میں بہتری کے لیے ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ، سورج کی روشنی، ہوا اور پانی سے بجلی کی پیداوار اور بائیو فیول کی تیاری کی تجویز دی گئی ہے۔

منوڑہ اپنے اندر ایک دلکشی اور سکون رکھتا ہے، یہ قدرتی اور انسان کے بنائے ورثے کا حسین امتزاج ہے جو ہماری توجہ کا متقاضی ہے۔ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اور منوڑہ کو ایک پائیدار سیاحتی مقام بنانے کے لیے بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ لیکن جامع منصوبہ بندی، ماحولیاتی طور پر حساس ڈیزائن، اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت، اور تمام انتظامی ایجنسیوں اور مقامی معیشتوں کے تعاون کے ساتھ یہ پوشیدہ جوہر قومی اور عالمی سطح پر نمایاں ہوسکتا ہے۔


یہ مضمون یکم مئی 2022ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

تبصرے (5) بند ہیں

Mamoon May 17, 2022 02:47pm
Informative topic. Good
Adeel Qaiser May 17, 2022 03:36pm
I want to write on solar renewable energy, can you plz guide.!
Adeel Qaiser May 17, 2022 03:37pm
I wan to write a column on solar renewable energy. plz guide.!
Rizwan May 17, 2022 10:26pm
یہ نا مکمل تحقیق ہے۔
عاصم ایوب چاؤنس May 17, 2022 10:58pm
منوڑہ کے بارے میں یہ ایک ن۔ مکمل تحریر ہے کیونکہ اس میں ایک قوم کوکنیز کا زکر نہیں ہے اور جن کے بزرگوں نے منوڑہ آباد کرنے اور اسکی ترقی میں بہت بہت خدمات انجام دیں اور انکی تعمیر کی گئی شافعی جامع مسجد کا بھی ذکر نہیں کیا گیا جو کے 1800 ء سے تعمیر شدہ ہے اسی سے کوکنیز کا اس جزیرے میں رہائش کا ثبوت ملتا ہے ۔ مزید معلومات کے لیے رابطہ کر سکتے ہیں