اس وقت دنیائے کرکٹ میں خاموشی ہے۔ صرف ایک سمت انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کا شور و غوغا ہے لیکن پاکستانیوں کے لیے اس سے کہیں زیادہ اہم تو کاؤنٹی چیمپیئن شپ ہے، جہاں پاکستانی کھلاڑی اپنے کمالات خوب دِکھا رہے ہیں۔

لیکن اسی ملک یعنی انگلینڈ کے کرکٹ حلقوں میں اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ ایشیز اور اس کے بعد ویسٹ انڈیز کے دورے پر زبردست ناکامی نے انگلینڈ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے ڈائریکٹر سے لے کر ٹیسٹ کپتان تک، سب نے ایک، ایک کرکے عہدے چھوڑ دیے اور پورا سیٹ اپ ہی بدل گیا۔

نئے سیزن کے آغاز پر ان عہدوں پر نئے ذمہ داروں کا تعین کیا گیا۔ روبرٹ کی ڈائریکٹر بنے تو توقعات کے عین مطابق بین اسٹوکس کو ٹیسٹ کپتان بنایا گیا، لیکن جب ہیڈ کوچ کی تقرری کی باری آئی تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ قرعہ فال اچانک برینڈن میک کولم کے نام نکلے گا۔

نیوزی لینڈ کے سابق کپتان کو پورے 4 سال کے لیے انگلینڈ کا نیا ٹیسٹ کوچ بنایا گیا ہے۔ اتنے عرصے کی تو بین اسٹوکس کو کپتانی بھی نہیں ملی ہوگی۔


یہ فیصلہ حیران کن کیوں؟


لیکن یہ فیصلہ حیران کن کیوں ہے؟ اس لیے کیونکہ میک کولم نے ٹیسٹ تو ایک طرف، کسی فرسٹ کلاس میچ میں بھی کبھی کوچنگ نہیں کی۔ ان کے کوچنگ کیریئر پر واحد تجربہ 3 سال سے انڈین پریمیئر لیگ میں کولکتہ نائٹ رائیڈرز، اور اس کی ذیلی ٹیم ٹرنباگو نائٹ رائیڈرز کی کوچنگ کا ہے۔ نجانے کیوں لگتا ہے کہ کولکتہ سے انگلینڈ کا پرانا تعلق ہے۔ ماضی میں ٹریور بیلس بھی نائٹ رائیڈرز کی کوچنگ چھوڑ کر ہی انگلینڈ آئے تھے۔

اگر میک کولم ون ڈے اور ٹی20 ٹیم کے کوچ بنائے جاتے تو شاید کسی کو حیرت نہ ہوتی لیکن ٹیسٹ؟ اس فارمیٹ کے بارے میں تو کچھ عرصہ پہلے خود میک کولم کہہ چکے ہیں کہ ٹی20 کرکٹ ٹیسٹ کرکٹ کو کھا جائے گی۔ اس سے ان کے وژن کا اندازہ ہوتا ہے لیکن انٹرویو میں میک کولم نے انگلینڈ کی انتظامیہ کو ایسا قائل کیا کہ وہ ابھی سے ان کے گُن گا رہے ہیں۔

میک کولم-بین اسٹوکس کمبی نیشن ون ڈے اور ٹی20 میں تو واقعی سمجھ آتا ہے۔ جارح مزاح اسٹوکس اور اتنے ہی جارح میک کولم، ان فارمیٹس میں پہلے سے مضبوط انگلینڈ کو مزید عروج کی جانب لے جاتے لیکن ٹیسٹ کرکٹ میں یہ ملاپ سمجھ نہیں آ رہا۔


میک کولم کا کوچنگ تجربہ


میک کولم کو 2019ء میں کولکتہ نائٹ رائیڈرز کا کوچ بنایا گیا اور ابتدائی 2 سال ٹیم پلے آف مرحلے تک بھی نہیں پہنچ سکی۔ پچھلے سال یعنی 2021ء میں بھی حال بُرا تھا۔ ابتدائی 6 میچوں میں صرف ایک کامیابی بلکہ 8 مقابلوں میں صرف 2 کامیابیوں کے ساتھ وہ اخراج کے قریب ہی تھا کہ ہمت پکڑ لی اور آخری 7 میں سے 5 مقابلے جیت کر اگلے مرحلے میں پہنچ گیا۔

یہاں کولکتہ نے ناصرف ایلی منیٹر بلکہ دوسرا کوالیفائر بھی جیت لیا اور فائنل میں پہنچ گیا، لیکن یہاں چنئی سپر کنگز آڑے آگئے اور کولکتہ فائنل ہار گیا۔

اس سال کولکتہ کی ٹیم ایک بار پھر پرانی ڈگر پر ہے اور مسلسل 5 شکستوں کے بعد تو اب ان کو پلے آف کے بھی لالے پڑگئے ہیں۔ اس لیے یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ کولکتہ کی ’معجزاتی‘ کارکردگی میک کولم کے انتخاب کی وجہ بنی۔ لیکن آخر انگلینڈ انتظامیہ کس بات پر قائل ہوئی ہے؟ یہ بات ان کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

میک کولم کے کوچنگ کیریئر پر واحد تجربہ 3 سال سے کولکتہ نائٹ رائیڈرز اور اس کی ذیلی ٹیم ٹرنباگو نائٹ رائیڈرز کی کوچنگ کا ہے
میک کولم کے کوچنگ کیریئر پر واحد تجربہ 3 سال سے کولکتہ نائٹ رائیڈرز اور اس کی ذیلی ٹیم ٹرنباگو نائٹ رائیڈرز کی کوچنگ کا ہے


کیا توقعات پوری ہو پائیں گی؟


تو اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا میک کولم انگلینڈ کو زوال کی گہرائیوں سے نکال پائیں گے؟ انگلینڈ پے در پے شکستوں کے بعد اب بُرے حال میں ہے۔ تازہ ترین رینکنگ کے مطابق انگلینڈ پاکستان سے بھی پیچھے چھٹے نمبر پر ہے جو یہ ون ڈے اور ٹی20 فارمیٹ کے بالکل الٹ ہے، جہاں انگلینڈ دوسرے نمبر پر موجود ہے اور نمبر وَن پوزیشن کے بہت قریب ہے۔

بہرحال، میک کولم کا پہلا امتحان ہی اپنے ملک نیوزی لینڈ کے خلاف ہے۔ بلیک کیپس 3 ٹیسٹ میچوں پر مشتمل سیریز کھیلنے کے لیے انگلینڈ پہنچنے والے ہیں۔ پہلا ٹیسٹ 2 جون سے لارڈز میں کھیلا جائے گا۔ اس کے بعد انہیں بھارت کے خلاف پچھلے سال کی ٹیسٹ سیریز کا باقی ماندہ ایک میچ کھیلنا ہے اور پھر جنوبی افریقہ کی میزبانی بھی کرنی ہے۔ جس کے بعد پاکستان کا تاریخی دورہ بھی ہونا ہے یعنی میک کولم کا امتحان بہت کڑا ہے۔


قلندر میک کولم


ویسے یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی نے 'نجات دہندہ' سمجھ کر میک کولم کو طلب کیا ہو۔ ماضی میں یہ کام پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی ٹیم لاہور قلندرز نے بھی کیا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ بُری طرح ناکام بھی ہوئے۔

پی ایس ایل کے پہلے سیزن میں بدترین ناکامی کے بعد 2017ء میں میک کولم کی کرشماتی شخصیت کو طلب کیا گیا کہ وہ قلندروں میں کوئی بجلی بھر دیں، لیکن وہ 2 سال کپتان رہے مگر قلندروں کے مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ایک نہیں بلکہ دونوں سیزن میں وہ آخری نمبر پر ہی آئے۔

خیر، ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ انگلینڈ کا حال قلندروں والا ہے۔ اللہ دشمن کو بھی ان حالات سے دوچار نہ کرے جو بیچارے قلندروں نے پی ایس ایل کے ابتدائی ایام میں دیکھے ہیں۔

میک کولم کی آمد کے بعد بھی قلندروں کے مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ایک نہیں بلکہ دونوں سیزن میں وہ آخری نمبر پر ہی آئے
میک کولم کی آمد کے بعد بھی قلندروں کے مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ایک نہیں بلکہ دونوں سیزن میں وہ آخری نمبر پر ہی آئے


ہمارا میک کولم، مصباح الحق!


ویسے پاکستان بھی ایسا ہی ایک تجربہ کر چکا ہے۔ 2019ء میں پاکستان نے سابق کپتان مصباح الحق کو ناصرف ہیڈ کوچ بلکہ چیف سلیکٹر بھی قرار دے دیا۔ اس دہری ذمہ داری اور بھرپور اختیارات کے باوجود مصباح الحق کی زیر تربیت ٹیم وہ نتائج نہیں دے پائی، جو دینے چاہیے تھے۔

تمام اہم دوروں میں شکست ہوئی، آسٹریلیا میں بُری طرح ناکامی کا منہ دیکھا اور انگلینڈ اور نیوزی لینڈ میں بھی شکست کھائی۔ واحد نمایاں کامیابی جنوبی افریقہ میں حاصل کی، باقی تمام فتوحات بنگلہ دیش، ویسٹ انڈیز، زمبابوے اور سری لنکا جیسی ٹیموں کے خلاف تھیں۔

یاد رہے کہ مصباح الحق بھی میک کولم کی طرح کوچنگ کا تجربہ نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ میک کولم تو پھر بھی سالوں سے ٹی20 کوچنگ کر رہے ہیں۔ مصباح کا دامن تو بالکل خالی تھا۔ بہرحال، لگتا ہے کہ انگلینڈ مصباح الحق والے پاکستان کے فیصلے سے بہت متاثر ہوا ہے، تبھی میک کولم کو منتخب کیا ہے۔ امید ہے کہ اس کا نتیجہ پاکستان سے مختلف نکلے گا۔


اب کیا ہوگا؟


بہرحال، انگلینڈ کے اس حیران کن فیصلے سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ موجودہ حالات کو کتنا سنجیدہ لے رہا ہے اور کوئی غیر معمولی قدم اٹھانے سے بھی گریز نہیں کر رہا۔ اب تک جن عہدیداروں نے اس تقرری کے حوالے سے بات کی ہے وہ اپنے فیصلے سے بہت مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اطمینان کتنے دن برقرار رہتا ہے؟ کیا میک کولم واقعی ناممکن کو ممکن بنا سکتے ہیں؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں