دہلی ریپ کیس: سپریم کورٹ نے فیصلے کی راہ ہموار کر دی
نئی دہلی: ہندوستان کی سپریم کورٹ نے گزشتہ دسمبر کے دوران ایک طالب علم کی بھیانک گینگ ریپ کے الزام قید ایک نوجوان کے حوالے سے فیصلہ کرنے کے لئے بچوں کی ایک عدالت کے لئے رہ ہموار کردی ہے۔
احتجاججوینائل کورٹ ایک قانونی پیچیدگی کی وجہ سے اس نوجوان کے حوالے سے چار بار تاخیر کر چکی ہے- یہ نوجوان ان چھ ملزمان میں شامل ہے جن پر اس جان لیوا حملہ کرنے کا الزام ہے- اس حملے نے پورے ہندوستان میں کھلبلی مچا دی تھی اور اس کے نتیجے میں ہونے والا کئی ہفتوں تک جاری رہا تھا-
تاہم ہندوستانی سپریم کورٹ نے جمعرات کو واضح کر دیا ہے کہ بچوں کی عدالت، اس پٹیشن کو خاطر میں لائے بغیر اپنا کام جاری رکھے جس میں بچوں کے حوالے سے قانون میں ترمیم کی استدعا کی گئی ہے-
چیف جسٹس پی ستھاسوم نے کہا 'جوینائل بورڈ اپنی کارروائی آگے بڑھا سکتا ہے اور اس کے مطابق فیصلہ صادر کر سکتا ہے'-
اپوزیشن لیڈر، سبرامنیم سوامی نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جس میں سنگین جرائم میں ملوث سولہ سال سے زائد ملزمان پر بالغوں کی عدالت میں مقدمے چلانے کی استدعا کی گئی ہے-
مذکورہ نوجوان کی عمر اس وقت سترہ سال تھی جب سولہ دسمبر کو چلتی بس میں ہونے والے اس حملے کے نتیجے میں پہنچنے والی اندرونی چوٹوں کی وجہ سے ایک تئیس سالہ لڑکی ہلاک ہو گئی تھی-
اس بات کا امکان ہے کہ عدالت اپنا فیصلہ 31 اگست کو ہونے والی اگلی سماعت میں سنائے گی-
واقعے کے نتیجے میں اٹھنے والے عوامی غم و غصہ اور احتجاج کی وجہ سے پارلیمنٹ کو بھی ریپ میں ملوث افراد کے خلاف قوانین میں سختی کرنا پڑی۔
واضح رہے کہ واقعہ میں ملوث دوسرے بالغ ملزمان کے خلاف ایک علیحدہ عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے، جس کے بارے میں خیال ہے کہ اسے چند ماہ میں نمٹا دیا جائے گا۔ ان چار ملزمان میں سے ایک نے مارچ میں جیل کے اندر مبینہ طور پر خودکشی کر لی تھی۔
گیارہ سال کی عمر میں گھر سے بھاگ جانے والے مذکورہ ملزم کو سزا کے طور پر زیادہ سے زیادہ تین سال کے لیے کسی اصلاحی ادارے میں بھیجا جا سکتا ہے جبکہ بقیہ چاروں بالغ ملزمان کو الزام ثابت ہونے پر سزائے موت ہو سکتی ہے۔
اطلاعات کے مطابق یہ کم عمر ملزم اپنے چھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہے۔
جرم میں ملوث ہونے سے انکاری یہ نوجوان مبینہ طور پر اُس بس کی صفائی کا کام کرتا تھا جس پر واردات کی گئی۔
بھیانک جنسی جرائم اب بھی ہندوستانی اخباروں میں روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ کئے جا رہے ہیں اور خواتین کی کے خلاف ہونے والے جرائم کی درج تعداد میں دسمبر سولہ کے اس واقعے کے بعد سے اضافہ ہوا ہے-
ایک مہم کار کا کہنا ہے کہ اس کیس کے نتیجے میں خواتین اپنے خلاف جرائم کی رپورٹ کرنے کے لئے زیادہ با حوصلہ محسوس کرنے لگی ہیں جبکہ پولیس پر ہونے والی تنقید کی وجہ سے پولیس افسران بھی ان معاملات سے نمٹنے میں زیادہ حساس ہو گئے ہیں-
تبصرے (1) بند ہیں