لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں
لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں

اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور اتحادی حکومت کے درمیان محاذ آرائی اب ختم ہونے والی ہے تو اسے قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابھی اس محاذ آرائی کے ختم ہونے کا امکان نظر نہیں آرہا۔

دونوں جانب سے آنے والے بیانات سے تو یہی لگ رہا ہے کہ عمران خان کے ناکام 'لانگ مارچ' کے بعد شروع ہونے والا تناؤ اب لفظی جنگ سے آگے بڑھ جائے گا۔

جب ڈی چوک پر پی ٹی آئی کے حامی توقع سے کم تعداد میں جمع ہوئے اور پولیس کے سخت ایکشن بشمول آنسو گیس کے استعمال کا مقابلہ نہیں کرسکے تو عمران خان نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ اگرچہ سابق وزیرِاعظم نے حکومت پر مارچ کو روکنے کے لیے طاقت کے استعمال کا الزام عائد کیا ہے لیکن وہ یہ بھی تسلیم کرچکے ہیں کہ ان کی جماعت کسی ایسی کوشش کے لیے پوری طرح تیار نہیں تھی جس کے نتیجے میں حکومت پر قبل از وقت انتخابات کروانے کے لیے دباؤ ڈالا جاسکے۔

مزید پڑھیے: سیاسی جماعتیں بعد از انتخابات صورتحال کی تیاری کس طرح کریں؟

وہ مختلف اوقات میں مختلف وضاحتیں پیش کرتے رہے اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ 'آزادی مارچ' کشیدگی کے خطرے کی وجہ سے جلد ختم کردیا گیا کیونکہ ان کے کچھ لوگ مسلح تھے۔

لیکن اس ناکام مارچ نے بھی عمران خان یا ان کے حامیوں کو ایک اور مارچ کی منصوبہ بندی سے نہیں روکا۔ عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ اگر فوری طور پر انتخابات کا اعلان نہیں کیا گیا تو 'لاکھوں' لوگوں پر مشتمل یہ مارچ اسلام آباد کا رخ کرے گا۔

خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ محمود خان نے تو ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے دھمکی دی کہ اگر مارچ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی گئی تو وہ صوبائی پولیس کا استعمال کریں گے۔ اس بیان پر وفاقی کابینہ نے سخت ردِعمل دیا اور اعلان کیا گیا کہ مستقبل میں ہونے والے کسی بھی مارچ کو 'پوری قوت' کے ساتھ روکا جائے گا۔ وفاقی وزیرِ داخلہ نے مزید گرفتاریوں کے بارے میں بھی خبردار کیا۔

اسلام آباد میں مستقبل قریب میں کوئی مظاہرہ ہو یا نہ ہو لیکن عمران خان سمجھتے ہیں کہ سڑکوں پر عوامی قوت کا مظاہرہ کرکے ہی حکومت کو جلد انتخابات کے لیے مجبور کیا جاسکتا ہے اور عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالا جاسکتا ہے۔ وہ براہِ راست عدالتِ عظمیٰ اور اسٹیبلشمنٹ کے سامنے اپنے مطالبے رکھتے ہیں۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اس طرح دباؤ ڈالنا چھوڑ دیں تو ان کے قبل از وقت انتخابات کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہوگا۔

عمران خان یہ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ اس طرح وہ اپنے حامیوں کو متحرک رکھ سکیں گے جس سے انہیں اپنی سیاسی قوت کے اظہار میں مدد ملے گی اور ان کے حامی بھی پُرجوش رہیں گے۔

دوسری جانب حکومت کی توقع یہ ہوگی کہ اگر عمران خان سے بزورِ قوت نمٹا جائے تو ان کی طاقت ختم ہوجائے گی۔ یہ سمجھا جارہا ہے کہ مسلسل تناؤ برقرار رکھنے سے ان کے حامی تھک جائیں گے۔ ایسا خاص طور پر اس وقت ہوگا جب انہیں اسلام آباد کے مارچ کی طرح مزید ناکامی کا سامنا ہوگا۔

مزید پڑھیے: وہ عوامل جو عمران خان حکومت کے خاتمے کی وجہ بنے؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں اور رہنماؤں پر ایف آئی آر اور گرفتاریاں اور عمران خان سے قریب رہنے والے رہنماؤں پر کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات بھی اسی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔ سرکاری ترجمان کی جانب سے کی جانے والی پریس کانفرنسوں میں حکومتی ایجنڈے یا 'اتحادی حکومت' کی کارکردگی پر بات کرنے کے بجائے ان الزامات پر ہی زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔

شاید دونوں جانب یہ احساس ہوچکا ہے کہ سیاسی محاذ آرائی کا جاری رہنا ہی ان کے فائدے میں۔ لیکن کچھ وجوہات ایسی ہیں جن کی بنا پر انہیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کہیں یہ حکمتِ عملی ان کے لیے نقصان کا باعث نہ بن جائے۔

کیا پی ٹی آئی امن عامہ کے ساتھ کھیل کر قبل از وقت انتخابات ممکن بنا سکے گی؟ یا پارٹی قیادت کے لیے یہ بہتر نہیں ہے کہ وہ اپنی توانائیاں ان انتخابات کے لیے صرف کریں جن کا انہیں انتظار ہے؟ ظاہر ہے کہ بڑے بڑے جلسے خود بخود ووٹوں میں نہیں بدلتے اور نہ ہی انتخابات کے لیے ضروری تمام کام ایک دن میں کیے جاسکتے ہیں۔

پاکستان میں حلقوں کی بنیاد پر ہونے والے انتخابات میں جماعت کی تنظیم، فنڈ جمع کرنا، مقامی سیاست کو سمجھنا، الیکٹیبلز کو ڈھونڈنا اور درست لوگوں کو ٹکٹ دینا کامیابی کی کنجی ہوتے ہیں اور ان تمام کاموں میں وقت اور محنت لگتی ہے۔

محنت کرکے حلقوں کی بنیاد پر حکمتِ عملی تیار کیے بغیر لوگوں کو بس جلسوں میں جمع کرلینے سے جماعت کو بہت زیادہ فائدہ نہیں ہوگا۔ عمران خان کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ان کی جماعت کے پاس جماعت کو منظم کرنے والا ایسا کوئی شخص نہیں ہے جس کے پاس جہانگیر خان ترین جیسی مہارت اور تجربہ ہو۔ 2018ء میں پی ٹی آئی کی کامیاب حکمتِ عملی کا سہرا بھی انہی کے سر تھا۔ اسی وجہ سے انہیں چاہیے کہ اپنی جماعت کے رہنماؤں کی توانائیاں اس مقصد کے لیے استعمال کریں۔

محاذ آرائی کی سیاست نے ان کی جماعت کو اس تنظیمی کام سے دُور کردیا جو آگے چل کر مؤثر انجینیئرنگ کے لیے ضروری تھا۔ اگر وہ اسمبلیوں میں بیٹھے رہتے تو شاید کوئی بہتر کردار ادا کرسکتے تھے لیکن ان کے اراکین اسمبلی نے ایسا نہ کرنے کا انتخاب کیا۔ اس کی وجہ کوئی حکمتِ عملی نہیں بلکہ غصہ تھا حالانکہ جماعت کے اندر اس حوالے سے سخت اختلاف موجود تھا۔

اگرچہ اس محاذ آرائی کی مکمل ذمہ داری پی ٹی آئی اور اس کے طرزِ سیاست پر ہے لیکن حکومت کو بھی عمران خان کی جانب سے بنائی گئی کشیدہ صورتحال کو مزید خراب کرنے کے بجائے معمول پر لانا چاہیے۔ عمران خان کا مقابلہ کرنا الگ بات ہے لیکن اس میں بہت زیادہ مشغول ہوجانا اور اس بیانیے کو اپنا لینا جس پر وہ غالب ہیں کسی صورت نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوگا۔

اس طرزِ عمل کے نتیجے میں اتحادی قیادت کی توجہ امورِ حکومت سے ہٹ جائے گی۔ حکومت کو بہرحال یہ دکھانا ہے کہ انہیں انتخابات سے قبل اقتدار میں کیوں آنا تھا اور یہ بھی کہ وہ حکومت چلاسکتے ہیں۔ اگر عوام یہ دیکھیں کہ حکومت عمران خان سے نمٹنے میں ہی مصروف ہے تو اس سے یہ سوچ پیدا ہوگی کہ شاید ان اتحادیوں کو صرف اقتدار حاصل کرنے سے ہی مطلب تھا۔

مزید پڑھیے: نئی حکومت کے لیے ’آگے کنواں، پیچھے کھائی‘

سی این این کو دیے گئے حالیہ انٹرویو میں وزیرِ خزانہ مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ حکومت ضرور انتخابات کی جانب جاتی لیکن معاشی صورتحال دیکھتے ہوئے حکومت کی پہلی ذمہ داری معیشت کو درست کرنا تھی۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر حکومت کی پہلی ترجیح معاشی پالیسی ہونی چاہیے۔

پیٹرول کی قیمتوں میں ہونے والے حالیہ اضافے سے شاید آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے اور فوری فنانسنگ کے امکانات میں اضافہ ہوجائے لیکن حکومت کو چاہیے کہ معاشی استحکام کے حصول کے لیے مزید اقدامات کرے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تصادم جتنا شدید ہوگا، پالیسی اقدامات پر عمل درآمد بھی اتنا ہی مشکل ہوگا۔

ملک کو اس سیاسی تصادم کی سب سے بھاری قیمت یہ اٹھانی پڑے گی کہ اس سے ایک ایسی غیر یقینی اور غیر مستحکم صورتحال پیدا ہوگی جو معیشت کو درست کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچائے گی اور ڈوبتی ہوئی معیشت کسی کے بھی حق میں نہیں ہے۔

حکومت اور اپوزیشن اس بات کو تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن ان کی سیاسی حکمتِ عملی کے نقصانات اس کے فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ بہرحال ملک اس نہ ختم ہونے والے سیاسی تصادم کی قیمت ادا کرے گا۔


یہ مضمون 06 جون 2022 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں