پی ٹی آئی حکومت کے آخری 10 ماہ میں تیل کا درآمدی بل تقریباً دگنا ہوگیا

10 جون 2022
خام تیل کی درآمدات مالیت کے لحاظ سے 75.34 فیصد اور حجم کے لحاظ سے 1.4 فیصد بڑھی — فائل فوٹو: اے ایف پی
خام تیل کی درآمدات مالیت کے لحاظ سے 75.34 فیصد اور حجم کے لحاظ سے 1.4 فیصد بڑھی — فائل فوٹو: اے ایف پی

ملک کے تیل کا درآمدی بل گزشتہ مالی سال کے پہلے دس ماہ میں رکارڈ کیے گئے 8.69 ارب ڈالر کے مقابلے میں 95.9 فیصد بڑھ کر مالی سال 22-2021 کے پہلے دس ماہ میں 17.03 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کو جاری ہونے والے پاکستان اقتصادی سروے کے مطابق عالمی منڈیوں میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور پاکستانی روپے کی قدر میں تیزی سے گراوٹ کی وجہ سے تیل مزید مہنگا ہوگیا ہے جس سے بیرونی شعبے پر دباؤ پڑا اور تجارتی خسارے میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ تیل کی زیادہ طلب کو بھی درآمدی بل میں اضافے کی وجہ قرار دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: 'سیاسی غیر یقینی ایندھن پر دی گئی سبسڈی کے نقصان کو بڑھا رہی ہے'

پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد میں مالیت کے لحاظ سے سال بہ سال 121.15 فیصد اور مقدار کے حساب سے 24.18 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

خام تیل کی درآمدات مالیت کے لحاظ سے 75.34 فیصد اور حجم کے لحاظ سے 1.4 فیصد بڑھی جبکہ مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی درآمدات میں 82.9 فیصد اور مائع پیٹرولیم گیس (ایل پی جی) کی درآمدات میں 39.86 فیصد اضافہ ہوا۔

مقامی قدرتی گیس کے ذخائر ختم ہونے کی وجہ سے حالیہ برسوں میں ملک کا انحصار ایل این جی پر بڑھ گیا ہے۔

گزشتہ تین برسوں میں گیس کے شعبے میں گردشی قرضہ تقریباً دوگنا ہو کر 650 ارب روپے ہوگیا ہے جو کہ 2018 میں 350 ارب روپے تک تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’سیاسی غیر یقینی ایندھن پر دی گئی سبسڈی کے نقصان کو بڑھا رہی ہے'

پاکستان اقتصادی سروے کے مطابق گیس کے شعبے کو درپیش مسائل پر حکومت کی لاپرواہی نے نجی شعبے کی طرف سے ایل این جی کی درآمد میں مسائل پیدا کر دیے ہیں جس کی وجہ سے خاص طور پر گزشتہ موسم سرما میں ملک میں گیس کا بحران پیدا ہوا ہے۔

اس مدت کے دوران کوئلے سے بجلی کی پیداوار 5 ہزار 280 میگاواٹ تک پہنچ گئی جس میں تھر کے کوئلہ کا حصہ 1 ہزار 320 میگاواٹ اور درآمد کیے گئے کوئلے کا حصہ 3 ہزار 960 میگاواٹ یا 75 فیصد ہے۔

سروے کے مطابق درآمدی کوئلے پر زیادہ انحصار ختم ہونے کا امکان ہے کیونکہ تھر کے کوئلے پر چلنے والے پاور جنریشن یونٹس کو بتدریج بجلی پیدا کرنے والے پروگرام میں شامل کیا جاتا ہے۔

تقریباً 60 ہزار میگاواٹ ہائیڈرو پاور بجلی کی صلاحیت کے مقابلے میں ابھی تک صرف 16 فیصد استعمال کی جارہی ہے۔

سروے میں بتایا گیا ہے کہ ہائیڈرو پاور پلانٹس کی تنصیب، بجلی کی ترسیل کے نیٹ ورکس میں اضافہ اور متاثرہ آبادی کی آبادکاری کے لیے اعلیٰ سرمایہ کاری جیسی چند وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہائیڈرو پاور بجلی کی پوری صلاحیت سے فائدہ حاصل نہیں کیا جا رہا۔

مزید پڑھیں: آئی ایم ایف حکام مئی میں پیٹرول، بجلی کی سبسڈی پر بات کریں گے، وزارت خزانہ

اس وقت نصب کیے گئے ہائیڈرو پاور پلانٹس کی پیداواری صلاحیت 10 ہزار 251 میگاواٹ ہے جو ملک کی کُل نصب شدہ صلاحیت کا تقریباً 25 فیصد ہے۔

مالی سال 2021 میں نیوکلیئر پاور پلانٹس کی مجموعی پیداواری صلاحیت 2 ہزار 530 میگاواٹ تھی جس سے قومی گرڈ کو تقریباً 70 کروڑ 76 لاکھ یونٹ بجلی فراہم کی جا رہی تھی، یہ ختم ہونے والے مالی سال میں 39 فیصد بڑھ کر 3 ہزار 530 میگاواٹ ہو گئی ہے۔

اس مدت کے دوران نیوکلیئر پلانٹس نے قومی بجلی گھر کو ایک ارب 28 کروڑ 85 لاکھ یونٹس فراہم کیے۔ ملک کی بجلی پیداوار میں تھرمل پاور کا اب بھی سب سے زیادہ حصہ ہے۔

ختم ہونے والے مالی سال کے پہلے دس ماہ میں بھی بجلی کے استعمال میں معمولی تبدیلیاں ہوئیں۔

بجلی کی کھپت میں گھرانوں کا شیئر مالی سال 2021 میں 49.1 فیصد سے مالی سال 2022 میں کم ہوکر 47 فیصد تک ہوگیا۔

تجارتی شعبے میں بجلی کی کھپت میں بھی معمولی کمی آئی ہے جو کہ مالی سال 2022 میں 7 فیصد تک کم ہو کر مالی سال 2022 میں 71 فیصد تک آگئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں