لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔
لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔

کیا پاکستان بے قابو ہوتا جارہا ہے؟ کئی حوالوں سے ایسے اشارے مل رہے ہیں۔ پاکستان کی ہنگامہ خیز تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو سیاسی طور پر آنے والے وقفوں کی وجہ سے حکمرانی سے متعلق مسائل سر اٹھاتے رہے ہیں۔ لیکن پرانے مسائل کے علاوہ کچھ نئی وجوہات بھی ہیں جس کی وجہ سے حکمرانی کے مسائل سنگین صورت اختیار کرچکے ہیں۔

ظاہر ہے کہ موجودہ سیاسی اختلافات بھی اس کی ایک نئی وجہ ہے۔ پاکستان میں سیاسی اختلافات کی تاریخ میں اس سطح تک پہنچنے والے اختلافات کی مثال نہیں ملتی۔

آج سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ معاشرہ اور خاندان اپنی سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے تقسیم کا شکار ہوں اور اپنے علاوہ کسی اور نقطہ نظر قبول کرنے سے انکاری ہوں۔ سابقہ حکمران جماعت کے مؤقف نے اس تقسیم کو مزید گہرا کردیا ہے۔ یوں کسی درمیانی راستے کا امکان ختم ہوگیا ہے اور سیاسی افہام و تفہیم بھی اب ناممکن ہی نظر آتی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور دیگر جماعتوں کے درمیان ہونے والی محاذ آرائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارلیمنٹ میں اب اپوزیشن نہیں رہی اور اس دوران جو قوانین منظور ہوئے ہیں وہ اتفاق رائے سے محروم رہے۔ یہ اختلافات انتہائی شدید ہیں جس کی وجہ سے ان کا سیاسی حل نکلنا خارج از امکان ہے۔

پی ٹی آئی چاہتی تھی کہ جب تک قبل از وقت انتخابات کا اعلان نہیں ہوتا تب تک وہ نظام کو مفلوج کردے، اس کے طرزِ عمل نے عدم استحکام کی ایسی صورتحال پیدا کردی ہے جس نے ملک میں کارِ حکومت انجام دینے کو مزید مشکل بنادیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ ہمارے جمہوری نظام کا بھی امتحان ہے۔

مزید پڑھیے: آئی ایم ایف سے مذاکرات اور 'کرپٹ' اور 'نااہل' کی بحث

یہ صورتحال ہمارے ریاستی اداروں پر بھی اثر انداز ہورہی ہے اور موجودہ سیاسی جنگ میں ریاستی ادارے بھی حملوں کی زد میں آرہے ہیں۔ چاہے اسٹیبلشمنٹ ہو، عدلیہ ہو یا الیکشن کمیشن ہو، اگر ان کا کوئی عمل کسی سیاسی جماعت کے حق میں ہو تو ان اداروں کی خوب تعریفیں کی جاتی ہیں اور اگر اس سیاسی جماعت کے خلاف ہو تو ان پر متعصب ہونے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔

عمران خان الیکشن کمیشن آف پاکستان اور عدلیہ کی غیر جانبداری پر سوال اٹھاتے ہیں اور سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے ٹرولز ان اداروں کو نشانہ بناتے ہیں۔ عمران خان کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ پر تنقید بشمول ان کی حکومت کے خلاف بیرونی سازش نہ روکنے کا الزام دراصل اسٹیبلشمنٹ پر اپنا راستہ تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا ہے۔

اسی طرح عمران خان نے فوج کے ترجمان کی جانب سے متعدد وضاحتوں کو بھی رد کیا، وہ وضاحتیں اس حوالے سے تھیں کہ عمران خان کے بیرونی سازش کے دعوے کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ اس مؤقف کا مقصد اپنے حامیوں میں ریاستی اداروں کے خلاف عدم اعتماد پیدا کرنا ہے۔ اس سے معاشرے میں منفی رویے اور دُوریاں فروغ پاتی ہیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت ریاستی اداروں کو تنازعات میں الجھانے کے منفی اثرات سے واقف ہو یا نہ ہو بہرحال اس سے حکمرانی سے متعلق چیلنجز میں اضافہ ضرور ہوتا ہے۔

عدلیہ یا الیکشن کمیشن کے فیصلوں سے انحراف کرنا یا انہیں مسترد کرنا قوانین پر مبنی نظام کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ اداروں پر اعتماد ناصرف جمہوریت اور نظامِ حکومت کی بنیاد ہے بلکہ یہ پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے بھی ضروری ہے۔

ایک ایسے سیاسی منظرنامے میں جہاں گفتگو کی گنجائش نہ ہو وہاں قومی مسائل پر بحث کے بجائے بس الزامات کا تبادلہ ہی ہوتا ہے۔ پبلک پالیسی پر ہونے والی بحث کی جگہ حقائق سے قطع نظر اپنے سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس وجہ سے حکومت کی توجہ حکومت کرنے اور اپوزیشن کی توجہ مسائل سے ہٹ جاتی ہے۔ جب سیاسی گفتگو کا محور صرف اس نکتے پر ہو کہ دوسری جماعت کتنی کرپٹ ہے تو قومی مسائل پر نہ ہی سنجیدگی سے گفتگو ہوسکتی ہے اور نہ ان کا کوئی حل پیش کیا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھیے: موجودہ سیاسی تصادم میں اصل نقصان کس کا ہے؟

ریاستی اداروں میں ایک عرصے سے موجود خرابیوں اور ان کے نتیجے میں عوامی خدمات کے گرتے ہوئے معیار نے کارِ حکومت کو مشکل بنادیا ہے۔ ان اداروں کے کمزور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کسی بہترین پالیسی کو بھی عملی طور پر نافذ کرنا پہلے سے زیادہ مشکل ہوجائے گا۔ اصلاحات میں تاخیر کرنا، سہل پسندی اور سول سروسز کو غیر سیاسی کرنے کی کوشش نہ ہونے کے باعث وقت کے ساتھ ساتھ حکومتی مشینری کمزور ہوگئی ہے۔ یوں حکومتی اداروں پر سے عوام کا اعتماد کم ہوگیا ہے اور ملک کا انتظام چلانا مزید مشکل ہوگیا ہے۔

اس مشکل کی ایک اہم وجہ وہ غیر فعال معاشی پالیسیاں ہیں جو بہت عرصے سے جاری ہیں۔ 1980ء کی دہائی سے اب تک آنے والی ہر حکومت نے مالی لحاظ سے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور معیشت کو گزشتہ حکومت کے مقابلے زیادہ بُری حالت میں چھوڑا۔

یہاں اسٹرکچرل معاشی مسائل کو مزید خراب ہونے دیا گیا جس کی وجہ سے ملک بار بار مالی بحران کا شکار ہوا اور یہ بحران ملک کے لیے ایک دائمی بیماری بن گیا۔ گزشتہ 4 دہائیوں میں مقامی ذرائع کے استعمال میں ناکامی اور بچت اور سرمایہ کاری میں کمی کی وجہ سے ملک خسارے کا سامنا کرتا گیا۔ بجٹ اور ادائیگیوں کے توازن میں آنے والے خسارے کو زیادہ نوٹ چھاپ کر اور بیرونِ ملک سے قرض لے کر یا ترسیلاتِ زر کے ذریعے فنانس کیا گیا۔

مقامی اور غیر ملکی قرضوں اور بیل آؤٹس پر انحصار سے پاکستان قرضوں کے جال میں جکڑ گیا اور یوں ملک کو قرضے اتارنے کے لیے بھی مزید قرضے لینے کی ضرورت پڑی۔ اس کے علاوہ مقامی طور پر بینکوں سے قرضہ لینا بھی ایک سخت قدم ثابت ہوا کیونکہ یوں اس عام آدمی کی بچت بھی حکومت کے پاس چلی گئی جو پہلے ہی بمشکل مہنگائی کا بوجھ اٹھا رہا تھا۔ یہ غریبوں کے لیے بہت ہی مشکل صورتحال تھی۔

ہماری معاشی انتظام کاری کا انحصار قرضوں پر تھا جس کی وجہ سے ہماری حکمران اشرافیہ نے ضروری اصلاحات نہیں کیں، ان میں ٹیکس کے حوالے سے اصلاحات بھی شامل تھیں جو ملکی معیشت کو درست راستے پر لاسکتی تھیں۔ یہ ایک غیر مساوی نظام کے ذریعے عائد کی گئی پالیسیوں پر عمل نہ کرنے کی عوامی خواہش کی بھی وضاحت کرتا ہے۔

مزید پڑھیے: سیاسی جماعتیں بعد از انتخابات صورتحال کی تیاری کس طرح کریں؟

اس قسم کی معاشی انتظام کاری کو ماضی میں آنے والی سول و فوجی حکومتوں نے اختیار کیے رکھا۔ یوں حکمران اشرافیہ نے قرض لے لے کر پوری معیشت کو مقروض کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے مالی عدم توازن کی اصل وجوہات پر توجہ ہی نہیں دی گئی۔ ان وجوہات میں غیر منصفانہ ٹیکس نظام، تونائی کے شعبے میں موجود گردشی قرضہ، دیوالیہ ہوچکے سرکاری ادارے، پبلک فنانس منیجمنٹ کا ناقص نظام، روپے کی گرتی ہوئی قدر، بھاری ریگولیٹری بوجھ اور کم برآمدات شامل ہیں۔

ہمیں ایک بار پھر معاشی بحران کا سامنا ہے۔ زرِمبادلہ کے ذخائر کم ہوچکے ہیں، مہنگائی اب تک کی بلند ترین سطح پر ہے، بجلی کی بندش لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کررہی ہیں اور ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ لینے کی کوششیں جاری ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ کورونا وائرس اور عالمی معاشی حالات، پاکستان کی معیشت کے بگڑنے کی اہم وجہ ہیں۔ عالمی سطح پر تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ادائیگیوں کے توازن کے بحران اور مہنگائی پر اثر انداز ہورہی ہیں جبکہ عالمی سطح پر ایل این جی کی قلت سے ملک میں توانائی کا بحران پیدا ہورہا ہے۔

ہماری معیشت بہت کمزور ہے جو اس طرح کے حالات کو برداشت نہیں کرسکتی۔ اس معیشت کی وجہ ہماری اصلاحات مخالف حکمران اشرافیہ اور اس کی ناقص معاشی انتظام کاری ہے۔ یہ اشرافیہ عوامی مفاد سے زیادہ اپنی طاقت کو محفوظ رکھنے کے لیے کام کرتی ہے۔ سیاسی اختلاف اور معاشی بدحالی کا ملاپ پاکستان کو ان خطرناک حالات کی جانب لے جارہا ہے جن میں ملک کا انتظام ناممکن ہوجائے گا۔


یہ مضمون 20 جون 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں