لکھاری ایک آرکیٹیکٹ ہیں۔
لکھاری ایک آرکیٹیکٹ ہیں۔

ماروی مظہر ایک آرکیٹیکٹ ہیں، انہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے توجہ دلوائی کہ کراچی کے فریئر ہال گارڈن پر ایک دروازہ تعمیر کیا جارہا ہے۔ انہوں نے تصاویر اور اسکیچز کے ذریعے اس جانب بھی توجہ دلوائی کہ یہ دروازہ اس اہم عمارت کو دیکھنے میں رکاوٹ بنے گا۔

فریئر ہال شاید ایمپریس مارکیٹ کے بعد کراچی کی سب سے اہم عمارت ہے۔ یہ عمارت اور اس کا سبزہ زار سندھ کلچرل ہیریٹیج (پریزرویشن) ایکٹ، 1994ء کے تحت آتے ہیں۔ اس پورے واقعے کے کچھ دن بعد ہی سندھ ہائی کورٹ نے اس دروازے کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے گرانے کا حکم دیا اور کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) نے اس پر عمل بھی کیا۔

آج سے 10 سال قبل بھی فریئر ہال پر دروازہ نصب کرنے کی بات ہوئی تھی اور یہ ممکن ہے کہ آج سے 10 سال بعد بھی ایسا ہوجائے۔ ایسا اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک ہمارے بلدیاتی نظام میں تبدیلی نہیں آتی اور جب تک ہماری آرکیٹیکٹ برادری پیشہ وارانہ اخلاقیات کو نہیں اپناتی۔

مزید پڑھیے: ایمپریس مارکیٹ کو کیوں چھپا دیا گیا؟

اس دروازے کی تعمیر کے حوالے سے کئی وجوہات بیان کی جاسکتی ہیں۔ ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ یہاں آنے والوں سے پارک کی مرمت کے لیے فیس لی جاسکے۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس طرح پارک میں چوری اور توڑ پھوڑ کو روکا جاسکے گا کیونکہ نشے کے عادی افراد پارک کا فرنیچر چُرا لیتے ہیں اور اسے فروخت کرکے نشہ خریدتے ہیں۔

فیس لینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس طرح بھیڑ سے بچا جاسکتا ہے جس سے یہاں کا سماجی ماحول خراب ہوتا ہے اور جو خواتین کو ہراساں کرنے کا سبب بھی بنتا ہے۔ پھر ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ اس طرح پھیری والوں کی لائسنسنگ اور پارک میں ان کے داخلے کا انتظام مزید آسان ہوجائے گا۔

ان تمام وجوہات کے جوابات بھی موجود ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ فلاحی اداروں کے تعاون یا لوگوں سے فیس لینے کے علاوہ بھی فنڈ جمع کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ اس حوالے سے ایک سنجیدہ بحث کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں کراچی کے تمام پارکوں میں فیس کے بغیر داخلہ ممکن بنایا جاسکے۔

دنیا کے کئی ممالک میں پارکوں میں توڑ پھوڑ اور چوریاں ہوتی ہیں جنہیں خاص قسم کا فرنیچر لگا کر روکا جاتا ہے، یہی کام ہم بھی کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہتر نگرانی بھی کی جاسکتی ہے لیکن یہ اس وقت تک نہیں ہوسکے گی جب تک پارک کا ٹھیکے دار چوکیدار کو ماہانہ 1200 روپے دیتا رہے گا۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ جس دوران امریکی قونصل خانے کی حفاظت کے پیش نظر اس پارک میں داخلہ منع تھا اس دوران یہاں کوئی چوری نہیں ہوئی۔

پھر اگر بھیڑ اور آوارہ گردوں کے پارک میں داخلے کی بات کی جائے تو کیا جو لوگ داخلہ فیس نہیں دے سکتے انہیں پاکستانی نہیں سمجھا جائے گا؟ جہاں تک پھیری والوں کا تعلق ہے تو جو کوئی بھی یہ جانتا ہے کہ پھیری والوں کا نظام کس طرح چلتا ہے وہ یہ بھی جانتا ہوگا کہ وہ اپنے امور کے انتظام، کھاتوں اور رکنیت کے رجسٹر ترتیب دے سکتے ہیں۔ وہ لوگ یہ سب پارک میں بھی کرسکتے ہیں بس شرط یہ ہے کہ ان سے مشورہ کیا جائے اور انہیں پارک کے کاموں میں شامل کیا جائے۔

مزید پڑھیے: پارکس بھی ضروری ہیں، لیکن میدان کو ختم کیوں کیا جارہا ہے؟

فریئر ہال کی تعمیر آج سے تقریباً 150 سال قبل ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے یہاں کبھی کوئی دروازہ نہیں رہا یہاں تک اس وقت بھی جب اسے بھلا دیا گیا تھا۔ یہاں شروع سے ایک باڑ ضرور رہی ہے لیکن وہ بہت نیچی تھی اور کسی بھی طرح گوتھک ریوائیول (Gothic Revival) انداز میں تعمیر ہونے والی اس عمارت کے نظارے میں خلل نہیں ڈالتی تھی۔ اس نیچی باڑ کی وجہ سے عبداللہ ہارون روڈ اور فاطمہ جناح روڈ بھی فریئر گارڈنز میں شامل ہوجاتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ ایک ہی جگہ کا حصہ ہیں۔

ایوب خان کے دور کے بعد کراچی میں باغات کا نقشہ، یہاں کے راستے اور تعمیرات کا سامان سب کچھ تبدیل ہوگیا اور اپنی مرضی سے لگائے جانے والے درختوں کی وجہ سے عمارتیں چھپ گئیں۔ اس کے علاوہ سول لائنز (جہاں فریئر ہال واقع ہے) کے کسی بھی منصوبے میں کثیر المنزلہ عمارتیں شامل نہیں ہیں، تاہم اس علاقے میں ایسی عمارتیں تعمیر ہورہی ہیں جو آہستہ آہستہ یہاں کی قدیم عمارتوں اور کھلی جگہوں پر غالب آرہی ہیں۔

مزید پڑھیے: ’40 سال پہلے کا کراچی واپس لانا اب ممکن نہیں‘

اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ فریئر ہال گارڈنز کے موجودہ استعمالِ اراضی اور اس کے دیگر عناصر کو درست انداز میں دستاویزی صورت میں لایا جائے اور آنے والے وقتوں کے لیے اس کا ایک ماسٹر پلان ترتیب دیا جائے۔

اس ماسٹر پلان کے لیے ترتیب دی جانے والی کمیٹی میں سول سوسائٹی کے نمائندوں کو بھی شامل کیا جانا چاہیے تاکہ اس منصوبے میں ان کی شمولیت کو یقینی بنایا جاسکے۔

عوامی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے لگاتار 2 اتوار تک ایک ہزار افراد سے سروے کرکے ان سے پارک میں آنے کی وجہ اور مستقبل کے حوالے سے ان کی ترجیحات کو جانا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد فریئر ہال میں بھی ان منصوبوں اور یہاں آنے والوں کی آرا پر مشتمل ایک نمائش کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ آخر میں ان تمام چیزوں کو حکومتِ سندھ کے محکمہ ثقافت کے سامنے رکھا جائے اور مستقبل کے لیے حتمی شکل دی جائے۔

اس طریقہ کار کو ناصرف فریئر ہال کے لیے استعمال کرنا چاہیے بلکہ مستقبل میں کراچی کے تمام عوامی مقامات کے حوالے سے بھی اسے اختیار کیا جانا چاہیے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ عوامی مقامات کے گرد موجود اونچی دیواروں کو ہٹا دیا جائے اور جہاں ضروری ہو وہاں ان دیواروں کی جگہ باڑ لگا دی جائے تاکہ یہ جگہیں سڑک سے نظر آسکیں۔

ایسا ہی کچھ برنس گارڈن اور وائے ایم سی اے گراؤنڈ میں کیا گیا ہے اور اس کا اثر محسوس بھی ہورہا ہے۔ ایسا کرنے سے کراچی کے جیل جیسے حبس زدہ ماحول کو شہریوں کے لیے آزادی اور خوشیوں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

تو کیوں نہ ہم سب مل کر اسے ممکن بنائیں؟


یہ مضمون 25 جون 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Kahsif Ajaz Jun 29, 2022 08:00am
PPP ki hukoomat mein Sindh ki tarraqi na mumkin hai.