اگرچہ آپ کو پتا ہوگا لیکن پھر بھی بتادیں کہ بقر عید مسلمانوں کا تہوار ہے، اب آپ کہیں گے جو ہم جانتے ہیں وہ بتانے کا کیا فائدہ؟ تو بھیا آپ تو یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ آپ کا پاکستان ہے، پھر بھی بتایا جاتا ہے ناں کہ ‘یہ میرا پاکستان ہے یہ تیرا پاکستان ہے’۔ آپ کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں ایک جمہوری حکومت قائم ہے، پھر بھی ہر جمہوری حکومت بار بار جتاتی ہے کہ ‘دیکھو میں جمہوری حکومت ہوں، اور میں قائم ہوں’۔

دنیا بھر میں یہ امر طے شدہ ہے کہ حکومت اور ریاست کے ادارے ایک صفحے پر ہوتے ہیں، لیکن آپ کو تواتر سے سننا پڑا ہے کہ ‘ہم ایک پیج پر ہیں’، تو اگر ہم نے یہ یاد دلا دیا کہ بقر عید مسلمانوں کا تہوار ہے تو اس میں بُرا ماننے کی کیا بات ہے؟

ہاں تو ہم آپ کو بقر عید کے بارے میں بتارہے تھے۔ یوں تو اس کا اصلی نام عیدالاضحیٰ ہے، لیکن ہم مسلمان گائے سے لگاﺅ کے باعث اسے بقر عید کہتے ہیں۔ گائے کو تو چاہیے کہ مسلمانوں کی یہ محبت دیکھتے ہوئے ازخود قربان ہوجائے، لیکن وہ آخر وقت تک پچھاڑیں کھاتی اور لاتیں چلاتی رہتی ہے۔ یقیناً گائے کے علم میں نہیں کہ یہ اُمت مغفور اس سے کتنا پیار کرتی ہے، ورنہ بقر عید نزدیک آتے ہی وہ خود آپ کے دروازے پر آکھڑی ہو، اور جوں ہی آپ دروازہ کھولیں وہ جھوم جھوم کر گانا شروع کردے، ’تجھ پہ قربان، شیر دل خان، میں تیری تو میرا جاں ناں ناں وئی‘۔

آپ گھبرا کر کہیں، ’کیا کرتی ہو، بیگم ناجانے کیا سمجھ بیٹھیں’، پھر وہ آپ کو سمجھائے، ’بھائی صاحب! میں کوئی ایسی ویسی نہیں ہوں، کسی خوش فہمی میں نہ رہیں، میں آپ پر نہیں آپ کے ہاتھوں قربان ہونے آئی ہوں، عید پر قربانی نہیں کرنی کیا؟’

سوچیے یہ سُن کر آپ کا کیا حال ہوگا؟ اور جب بروزِ عید وہ خود دھیرج سے لیٹ کر اپنا گلا چُھری کو پیش کر رہی ہوگی تو ‘میں نے اس کے ہاتھ میں پہلے تو خنجر رکھ دیا پھر کلیجہ رکھ دیا، دل رکھ دیا، سر رکھ دیا’ کا منظر ہوگا، اور آپ ‘گائے کی قربانی کی ہے’ کے بجائے کہہ رہے ہوں گے ‘گائے نے قربانی دی ہے‘۔

ہماری قوتِ تخیل کچھ زیادہ ہی پرواز کرگئی، ورنہ وہ گائے ہے پاکستانی نہیں کہ یوں خود اور آسانی سے قربان ہوجائے۔

سوچیے اگر گائے مسلمانوں کی محبت دیکھ کر خود ہی آپ کے دروازے پر آکھڑی ہو— تصویر: رائٹرز
سوچیے اگر گائے مسلمانوں کی محبت دیکھ کر خود ہی آپ کے دروازے پر آکھڑی ہو— تصویر: رائٹرز

بقر عید کو نمکین عید بھی کہتے ہیں۔ ہم برِصغیر کے مسلمانوں کے چٹورے پن کی انتہا دیکھیے کہ ہم نے اپنے تہواروں کے نام بھی ‘میٹھی عید’ اور ‘نمکین عید’ رکھ چھوڑے ہیں۔ جن کے حلق سے ‘قاف’ نہیں نکلتا اور وہ ‘ق’ اور ‘ک’ کا فرق کُتے والا کاف اور ‘کینچی’ (قینچی) والا ‘کاف’ سے کرتے ہیں، وہ اس تہوار کو ‘بکرا عید’ کہہ کر اس کی نسبت گائے سے لے کر بکرے کو منتقل کردیتے ہیں۔

گائے کی طرح بکرے کو بھی اپنی اس عزت افزائی کا علم نہیں، ورنہ وہ ہمارے دلوں میں اپنی محبت دیکھ کر مزید بکرا بن جاتا، اور جب آپ مویشی منڈی میں گائے کی قیمتیں سُن اور جیب میں موجود رقم گِن کر واپسی کا راستہ چُن رہے ہوتے تب اچانک کوئی منحنی سا بکرا دوڑا ہوا آتا اور آپ کے قدموں میں گر کر کہتا حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے، ‘بکرا’ ہوں اگرچہ میں ذرا سا۔

گایوں بکروں کے جذبات و احساسات کے بارے میں ہم قیاس آرائی ہی کرسکتے ہیں، ویسے لوگ باگ کہتے ہیں کہ قربانی کے جانوروں کو قربان ہونے سے ایک دن پہلے چُھریاں نظر آرہی ہوتی ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے پاکستانیوں کو بجٹ آنے سے پہلے دکھائی دے رہی ہوتی ہیں۔ اس مثال سے گایوں بکروں کی جذباتی کیفیت سمجھنا آسان اور ان سے ہمدردی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

بکرے کو اس عزت افزائی کا علم ہو تو وہ مزید بکرا بن جائے
بکرے کو اس عزت افزائی کا علم ہو تو وہ مزید بکرا بن جائے

بقر عید وہ تہوار ہے جس کے اپنے ہی محاورے، استعارے اور مخصوص الفاظ ہیں، جیسے ‘جانور آگیا؟’، بعض بھولی بھالی خواتین یہ سوال سُن کر پورے بھول پن سے جواب دیتی ہیں، ’نہیں، ابھی دفتر ہی میں ہیں'۔

اسی طرح ‘منڈی چڑھی ہوئی ہے’ کی اطلاع سُنتے ہی ذہن میں کہیں یہ خیال نہیں ہوتا کہ یہ ذکر سبزی منڈی یا ‘کسی اور منڈی’ کا ہورہا ہے، ورنہ ترنت کہا جاتا ‘ایک چھاپا پڑ جائے تو منڈی اُتر آئے گی'۔

‘اس بار کیا کر رہے ہو؟’ کا استفسار بھی عیدالاضحیٰ سے مخصوص ہے۔ جواباً منہ کھول کر ‘کیا’ کہا جائے تو کہنے والا اللہ میاں کی گائے قرار پائے گا۔ ایسے ہی ‘کب لارہے ہو؟’ بھی خاص ‘بقر عیدی’ سوال ہے، ہم جیسے سیدھے سادے لوگ اس کے جواب میں شرما کر کہتے ہیں، ’اماں لڑکیاں دیکھ رہی ہیں'۔ یہ سُن کر سننے والا سمجھ جائے گا کہ قربان کرنے کا پوچھا گیا تھا جسے سُننے والا قربان ہونے کی بابت سوال سمجھا۔

جہاں تک سوالوں کا تعلق ہے تو اس تہوار کے 2 اہم ترین سوال ہیں ‘کتنے کا لیا؟’ اور ‘کتنا گوشت نکلے گا؟’، قیمت سُن کر 3 طرح کے ردِعمل سامنے آتے ہیں،

  • پہلا تعریفی ‘واہ، صحیح مل گیا’،
  • دوسرا مروتاً، ’اچھا جانور لے آئے’ اور،
  • تیسرا کدورتاً، حقیقتاً یا شرارتاً ‘مہنگا لے آئے بھائی جی۔

یہ تیسرا ردِعمل سُن کر دل چاہتا ہے کہ کہنے والے کے گلے پر بغدا چلا دیا جائے، لیکن پھر جلنے والے کا منہ کالا کہہ کر دل کو تسلی دے لی جاتی ہے۔ رہا ‘کتنا گوشت نکلے گا’ کا اندازہ تو اس کا تعلق ‘قیمت وصول ہوجائے گی’ کے اطمینان بخش تصور سے ہے، جو لبالب بھرے ڈی فریزر کے ساتھ ذہن میں ابھرتا ہے۔

گائے بکرے لانے والے محلے میں بساند تو پوری تقسیم کرتے ہیں لیکن بوٹیان گن کر دیتے ہیں— تصویر: آن لائن
گائے بکرے لانے والے محلے میں بساند تو پوری تقسیم کرتے ہیں لیکن بوٹیان گن کر دیتے ہیں— تصویر: آن لائن

بقر عید کا حسِ شامَّہ سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ اس تہوار کی ڈھلتی شام کے بعد طرح طرح کے پکوانوں کی خوشبو پانے کی خاطر کئی دن تک گایوں، بکروں کی ‘عطاکردہ’ بساند، چارے کی بُو اور آخر میں گوشت اور خون سے اٹھتی متلی آور مہک سونگھنے کے بعد کہیں جاکر بریانی، پائے، نہاری، کباب وغیرہ کی خوشبو نصیب ہوتی ہے۔ ظلم یہ ہے کہ گائے بکرے لانے والے بساند تو پورے محلے میں برابر تقسیم کرتے ہیں، لیکن گوشت کے حصے بانٹتے وقت بوٹیاں گن گن کر دیتے ہیں۔

ہماری آپ سے درخواست ہے کہ اگر آپ کے علم میں بدبو ناپنے والا کوئی سائنسی آلا ہو تو ہمیں آگاہ کیجیے، ہم یہ آلا خرید کر اہلِ محلہ کے لائے ہوئے جانوروں کی پھیلائی ہوئی بدبو ناپیں گے، اور پھر ان سے کہیں گے کہ بھیا! جس حساب سے بدبو دی ہے اسی حساب سے گوشت دینا۔

تبصرے (3) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Jul 12, 2022 03:07am
عثمان صاحب نے خیالی ’اللہ میاں کی گائے‘ کا ذکر کیا ہے، ایسا ہو جائے تو کیا بات ہے، بلکہ اگر گائے قصائی کو بھی ساتھ لیتی آئے تو اور اچھا۔ لیکن اس بار تو سنا ہے کہ ایک گائے نے قصائی کے گلے میں پڑی رسی ایسی کھینچی کہ گائے کی بجائے (بیچارہ) قصائی قربان ہو گیا۔ اس بار بارش، مہنگائی اور گمڑا کھال بیماری، جسے سب انگریزی میں لمپی اسکن بڑے مزے لے کر کہتے ہیں، نے عید قرباں کو یادگار بنا دیا ہے۔
Masood Ahmed Jul 12, 2022 11:28am
یہ تو آپ کا حسنِ ظن ہے کہ بدبو کے حساب سے بوٹیاں مانگ رہے ہیں ورنہ تو ایسے بھی لوگ ہیں جو تین گائے قربان کرنے کے باوجود ایک بوٹی بھی پڑوسیوں کو نہیں بھجواتے۔
adnan Jul 13, 2022 01:13pm
بھیا! جس حساب سے بدبو دی ہے اسی حساب سے گوشت دینا۔ واہ کیا بات یے لیکن یہ کوئی سنے گا نہیں