القاعدہ، داعش افغانستان میں قدم جما رہے ہیں، اقوام متحدہ

اپ ڈیٹ 21 جولائ 2022
افغان شہری ثنا اللہ غفاری عرف شہاب المہاجر جون 2020 سے داعش خراسان گروپ کی قیادت کر رہے ہیں— فائل فوٹو: اے پی
افغان شہری ثنا اللہ غفاری عرف شہاب المہاجر جون 2020 سے داعش خراسان گروپ کی قیادت کر رہے ہیں— فائل فوٹو: اے پی

اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ بین الاقوامی دہشت گرد گروپس القاعدہ اور داعش طالبان کے زیر اقتدار افغانستان میں قدم جما رہے ہیں اور بیرونی دنیا کے لیے ممکنہ طور پر خطرہ بن سکتے ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 1526 اور 2253 قرارداد کے تحت قائم کردہ تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی 30ویں رپورٹ میں القاعدہ، داعش اور افغانستان سمیت پورے خطے میں دیگر دہشت گرد گروپوں کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا گیا۔

رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ القاعدہ اور داعش کا خطرہ تنازعات سے متاثرہ علاقوں اور پڑوسی ممالک میں زیادہ ہے تاہم یہ دونوں دہشت گرد گروہ تنازعات سے محفوظ علاقوں میں بھی حملہ آور ہونے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

اس رپورٹ میں دنیا کے مختلف حصوں میں دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں کا احاطہ کیا گیا لیکن طالبان کے قبضے کے پیش نظر اس رپورٹ میں افغانستان خصوصی دلچسپی کا حامل رہا ہے جو داعش کے سب سے زیادہ فروغ پزیر نیٹ ورکس اور القاعدہ کی میزبانی کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: طالبان نے داعش کے 3 ’اغوا کاروں‘ کو ہلاک کردیا

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کی صورتحال اب بھی پیچیدہ ہے، وہاں مقیم دہشت گرد گروہ طالبان کی عسکری فتح کو پڑوسی ممالک اور دنیا کے دیگر حصوں میں پروپیگنڈے کے لیے ایک حوصلہ افزا عنصر کے طور پر دیکھتے ہیں۔

القاعدہ اور داعش کے سبب بین الاقوامی امن کے لیے مختلف سطح کے خطرات لاحق ہیں، افغانستان میں مقیم داعش-خراسان گروپ کو مختصر اور درمیانی مدت میں ایک بڑے خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جبکہ القاعدہ کا خطرہ طویل مدت سے موجود ہے۔

ثنا اللہ غفاری عرف شہاب المہاجر ایک افغان شہری ہیں جو جون 2020 سے داعش خراسان گروپ کی قیادت کر رہے ہیں۔

تاہم داعش کے مرکزی گروپ نے اپنے علاقائی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے شیخ تمیم الکردی عرف ابو احمد المدنی کے زیرسایہ ’الصدیق آفس‘ کے نام سے ایک علیحدہ ڈھانچہ قائم کیا ہے۔

مزید پڑھیں: ’افغانستان میں موجود داعش۔خراسان پاکستانیوں اور افغانوں دونوں پر حملے کررہی ہے’

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ داعش کی جانب سے اپنے خلافت کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے افغانستان کو خطے میں توسیع کے لیے ایک اڈے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

اس سلسلے میں مرکزی قیادت سے لاتعلق طالبان جنگجوؤں اور غیر مطمئن مقامی نسلی اقلیتوں کو راغب کرنے کے علاوہ دیگر دہشت گرد گروہوں میں موجود جنگجوؤں کو بھرتی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

علاوہ ازیں یہ گروپ جنگجوؤں کو وہاں کام کرنے والے دیگر عسکریت پسند گروہوں کے مقابلے میں زیادہ اجرت کی پیشکش کر کے اپنی جانب راغب کرتا ہے۔

رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ داعش خراسان نے شمال اور مشرقی افغانستان میں اپنی موجودگی بڑھا دی ہے، یہ وہ گروپ ہے جس نے ابتدا میں تحریک طالبان پاکستان اور افغان طالبان کے ارکان کو بھرتی کر کے آغاز کیا تھا اور اب اس کی صفوں میں وسطی ایشیا سے تعلق رکھنے والے جنگجو ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان، داعش خراسان کے سربراہ کو پکڑ کر انعام حاصل کرسکتے ہیں، امریکا

رپورٹ کے مطابق گروپ نے شمال میں اپنی سرگرمیاں بڑھا دی ہیں جس کی سرحدیں وسطی ایشیائی ریاستوں تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان سے ملتی ہیں۔

اپریل میں داعش-خراسان نے تاجکستان اور ازبکستان میں راکٹ فائر کرنے کا دعویٰ کیا تھا، دونوں ممالک نے ان راکٹوں کو نشانہ بننے کی تردید کی لیکن رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ایسے حملوں کا خطرہ بدستور موجود ہے۔

ایک نامعلوم رکن ریاست کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں مزید خبردار کیا گیا ہے کہ اگر داعش-خراسان گروپ مشرق کی جانب بڑھتا ہے جہاں اس کی سرحد پاکستان سے ملتی ہے تو یہ افغانستان میں موجود عالمی خطرہ بن سکتا ہے۔

دریں اثنا القاعدہ کی جانب سے طالبان کے دور حکومت میں افغانستان میں آزادانہ قیام کا لطف اٹھایا جا رہا ہے اور اس کے کچھ سینئر ارکان وہاں کی حکومت کو مشاورتی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: داعش-خراسان گروپ، ٹی ٹی پی سے زیادہ بڑا خطرہ ہے، آئی جی خیبر پختونخوا

رپورٹ میں کہا گیا کہ القاعدہ کی قیادت مبینہ طور پر طالبان کے ساتھ مشاورتی کردار ادا کرتی ہے اور دونوں کے درمیان قریبی تعلقات رہتے ہیں۔

ایمن الظواہری کی افغانستان میں موجودگی کی تصدیق

علاوہ ازیں رپورٹ میں تصدیق کی گئی کہ القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری افغانستان میں مقیم ہیں اور آزادانہ روابط رکھ رہے ہیں، ان کے زندہ ہونے کا ثبوت القاعدہ کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو پیغامات سے ملتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ایمن الظواہری کی بظاہر بڑھتی ہوئی سرگرمیاں طالبان کے افغانستان پر قبضے اور ان کی انتظامیہ کے اندر القاعدہ کے اہم اتحادیوں کی طاقت کے استحکام کے لیے موافق ہے۔

افغانستان کے جنوب اور مشرقی علاقے القاعدہ کے روایتی گڑھ رہے ہیں لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ وہ مغرب میں فرح اور ہرات صوبوں اور ممکنہ طور پر شمال کی جانب اپنے قدم بڑھا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی صدر کا داعش خراسان کے اثاثوں اور قیادت کو نشانہ بنانے کا حکم

رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ محفوظ پناہ گاہ کے طور پر افغانستان میں موجود القاعدہ سے فوری طور پر کوئی عالمی خطرہ نہیں ہے کیونکہ اس کے پاس بیرونی آپریشنل صلاحیت نہیں ہے اور وہ فی الحال طالبان کو عالمی سطح پر مشکلات کا شکار یا شرمندگی کا باعث نہیں بنانا چاہتی۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو افغانستان میں غیر ملکی دہشت گرد جنگجوؤں کا سب سے بڑا گروپ سمجھا جاتا ہے جو اس وقت حکومتِ پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات کر رہی ہے۔

ایک رکن ریاست کے جائزے کے مطابق 3 ہزار سے 4 ہزار جنگجوؤں پر مشتمل ٹی ٹی پی اب زیادہ مربوط ہے اور خطے کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں