جسٹس سجاد علی شاہ کا سندھ کے نامزد امیدواروں کے خلاف ریمارکس پر چیف جسٹس کو خط

05 اگست 2022
جسٹس سجاد علی شاہ کا خط گزشتہ ہفتے جے سی پی اجلاس کے بعد سے چیف جسٹس کو لکھا گیا چوتھا خط ہے—فائل فوٹو:سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس سجاد علی شاہ کا خط گزشتہ ہفتے جے سی پی اجلاس کے بعد سے چیف جسٹس کو لکھا گیا چوتھا خط ہے—فائل فوٹو:سپریم کورٹ ویب سائٹ

پاکستان کے 9 رکنی جوڈیشل کمیشن کے رکن جسٹس سجاد علی شاہ نے 28 جولائی کو جے سی پی کے اجلاس کے دوران سندھ سے نامزد 2امیدواروں کی دیانتداری سے متعلق کیے گئے تبصروں پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کو 30 جولائی کو لکھے گئے خط میں جسٹس سجاد علی شاہ نے کمیشن کے ایک رکن کے اس دعوے پر افسوس کا اظہار کیا جس میں رکن نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے صوبے کے ایک، دو وکلا کے ذریعے سندھ سے نامزد ججوں کی قابلیت اور اہلیت سے متعلق معلومات حاصل کیں۔

جسٹس سجاد علی شاہ کا یہ خط گزشتہ ہفتے جے سی پی اجلاس کے بعد سے چیف جسٹس کو لکھا گیا چوتھا خط ہے۔

یہ بھی پڑھیں : چیف جسٹس غیر جمہوری عمل کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس سے چلے گئے، جسٹس طارق مسعود

اس سے قبل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود اور اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے بھی چیف جسٹس کو خطوط لکھے تھے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ایسی معلومات کی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جے سی پی میں پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے نمائندے اختر حسین نے ججوں کے کردار،ا ن کی دیانتداری پر سوال نہیں اٹھایا بلکہ صرف اتنا کہا کہ انہیں صرف جسٹس شفیع صدیقی اور جسٹس حسن اظہر رضوی کی سنیارٹی کی بنیاد پر ان کی نامزدگی پر تحفظات ہیں لیکن اس کے علاوہ کسی اور بات پر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ انتہائی عاجزی اور احترام کے ساتھ ریکارڈ پر لانے کے لیے کہوں گا کہ قابل احترام رکن کو اپنے ساتھی ججوں پر اعتماد نہیں ہے کہ وہ اس معاملے پر ان سے مشورہ کر سکیں۔

اپنے خط میں جسٹس سجاد علی شاہ نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جے سی پی کے 2 ارکان نے نہ صرف سندھ ہائی کورٹ (ایس ایچ سی) میں ایک دہائی سے زائد عرصے تک بطور جج خدمات انجام دیں بلکہ انہیں اس کا چیف جسٹس بھی مقرر کیا گیا۔

مزید پڑھیں: چیف جسٹس نے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں فیصلے ڈکٹیٹ نہیں کرائے، جسٹس فائز عیسیٰ کا خط

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ جے سی پی ممبران کے علاوہ اس وقت سپریم کورٹ میں خدمات انجام دینے والے 2 مزید ججز نے ایک دہائی تک سندھ ہائی کورٹ میں خدمات انجام دی ہیں اور ان سے سندھ کے دونوں نامزد امیدواروں کی اہلیت و قابلیت کے بارے میں مشورہ کیا جا سکتا تھا۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ وہ سندھ ہائی کورٹ کے 2 ججوں کے ساتھ کئی برسوں تک کام چکے ہیں، اس لیے وہ ان کی دیانتداری اور کردار کی گواہی دے سکتے ہیں۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے اپنے خط میں مزید کہا کہ میں کہنا چاہتا ہوں کہ کسی گمنام، نامعلوم ایک، دو وکیلوں کی جانب سے سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر ججوں کی دیانت اور ان کے کردار پر سوال اٹھانا افسوسناک ہے۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ کچھ عناصر نے دونوں نامزد افراد کو بدنام کرنے کی کوشش کی، انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس کو ان نامزد افراد کی ساکھ بحال کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں : سپریم کورٹ میں 5 ججوں کی تعیناتی چیف جسٹس کی حمایت کے باوجود کثرت رائے سے مسترد

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ہمیں ان حقائق سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے کہ ان نامزد افراد نے اس عہدے کے لیے درخواست نہیں دی بلکہ انہیں ان کی قابلیت کی بنیاد پر ان عہدوں کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے مزید کہا کہ اٹارنی جنرل پاکستان نے جے سی پی میٹنگ کے دوران کسی بھی نامزد جج کی اہلیت سے متعلق کوئی بات نہیں کی۔

انہوں نے خط میں اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس کے برعکس، جب کمیشن کے عدالتی اراکین میں سے ایک رکن نے ان نامزدگیوں کو مسترد کرنے کا مطالبہ کیا تو اے جی پی نے امیدواروں کے انتخاب کے معیار کو طے کرنے تک اجلاس ملتوی کرنے کا کہا۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ میں چند روز بعد (14 اگست) کو عہدے سے ریٹائر ہوجاؤں گا اور جے سی پی کے آئندہ اجلاس میں شرکت نہیں کرسکوں گا، اس لیے چیف جسٹس سے اس خط کو ریکارڈ پر رکھنے کی درخواست کرتا ہوں۔

جسٹس سجاد علی شاہ کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ عدالتی کمیشن کے ارکان کے درمیان اختلاف غیر معمولی نہیں لیکن ماضی میں اس طرح کے اختلاف کے بارے میں اعتراضات کی نوعیت اتنی سنجیدہ اور شدید نہیں تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں