اے آر وائی نیوز کو حکومت مخالف 'نفرت انگیز مواد' نشر کرنے پر شوکاز نوٹس جاری

اپ ڈیٹ 09 اگست 2022
پیمرا نے اے آر وائی کے چیف ایگزیکٹو افسر سے 3 روز کے اندر جواب طلب کر لیا—فائل فوٹو : ڈان
پیمرا نے اے آر وائی کے چیف ایگزیکٹو افسر سے 3 روز کے اندر جواب طلب کر لیا—فائل فوٹو : ڈان

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیوز کو 'جھوٹا، نفرت آمیز اور فتنہ انگیز' مواد نشر کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔

پیمرا کی جانب سے جاری کردہ نوٹس کے مطابق مسلح افواج کے اندر بغاوت بھڑکانے کی غرض سے نجی ٹی چینل پر مکمل غلط معلومات پر مبنی نشر کیے گیے مذکورہ مواد میں قومی سلامتی کے لیے ایک واضح خطرہ موجود ہے۔

پیمرا کی جانب سے اس نوٹس کے اجرا سے قبل گزشتہ شب اے آر وائی نیوز ملک کے متعدد حصوں میں آف ایئر ہو گیا تھا۔

پیمرا کی جانب سے اس نوٹس میں گزشتہ روز اے آر وائی پر نشر ہونے والے ایک پروگرام کا حوالہ دیا گیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ حکومت کے اسٹریٹجک میڈیا سیل کو پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو فوج مخالف بیانیے کے ذریعے بدنام کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اے آر وائی کو نشریاتی حقوق دے کر پی ٹی وی اسپورٹس کا معاشی قتل کیا گیا، وزیر اطلاعات

نوٹس میں یہ اعتراض کیا گیا کہ اے آر وائی نیوز نے اپنے شو میں سابق وزیرِاعظم عمران خان کے ترجمان شہباز گل کا تبصرہ نشر کیا جو پیمرا کے بقول 'مسلح افواج کی صفوں کو بغاوت کی جانب اکسائے جانے کے مترادف تھا'۔

اے آر وائی کے ساتھ گفتگو کے دوران ڈاکٹر شہباز گل نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومت فوج کے نچلے اور درمیانے درجے کے لوگوں کو تحریک انصاف کے خلاف اکسانے کی کوشش کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'فوج میں ان عہدوں پر تعینات اہلکاروں کے اہل خانہ عمران خان اور ان کی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں جس سے حکومت کا غصہ بڑھتا ہے'۔

انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کا ’اسٹریٹجک میڈیا سیل‘ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور مسلح افواج کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کے لیے غلط معلومات اور جعلی خبریں پھیلا رہا ہے۔

مزید پڑھیں: اے آر وائی ہتک عزت کیس: سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کردیا

شہباز گل نے کہا تھا کہ جاوید لطیف، وزیر دفاع خواجہ آصف اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق سمیت دیگر حکومتی رہنماؤں نے ماضی میں فوج پر تنقید کی تھی اور اب وہ حکومتی عہدوں پر ہیں۔

پیمرا کی جانب سے نوٹس میں کہا گیا کہ اے آر وائی نیوز پر مہمان کا دیا گیا بیان آئین کے آرٹیکل 19 کے ساتھ ساتھ پیمرا قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے، ۔

نوٹس میں کہا گیا کہ 'آپ کے نیوز چینل پر اس طرح کے مواد کو نشر کرنا مواد پر کمزور ادارتی کنٹرول ظاہر کرتا ہے یا لائسنس یافتہ ادارہ جان بوجھ کر ایسے افراد کو اپنا پلیٹ فارم فراہم کرنے میں ملوث ہے جو اپنے ذاتی مفادات کے لیے ریاستی اداروں کے خلاف بغض اور نفرت پھیلانے کا ارادہ رکھتے ہیں'۔

پیمرا نے مزید کہا کہ اے آر وائی پر نشر کیے جانے والے مذکورہ تبصرے پیمرا آرڈیننس 2002 کے سیکشن 20 اور الیکٹرانک میڈیا (پروگرامز اور اشتہارات) کوڈ آف کنڈکٹ 2015 کے ساتھ ساتھ 2018 کے از خود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کے احکامات کی سراسر خلاف ورزی ہیں۔

پیمرا نے کہا کہ 'ان غیر معمولی حالات میں پیمرا، اے آر وائی نیوز پر ایسے مواد کی نشریات پر پابندی لگانے کے لیے مجبور ہے جو کہ آئین کی خلاف ورزی ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: اے آر وائی نیٹ ورک میاں منشا کو بھاری جرمانہ ادا کرنے کیلئے آمادہ

پیمرا نے اے آر وائی کمیونیکیشن پرائیویٹ لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو افسر سے 3 روز کے اندر اس وضاحت کے ساتھ جواب طلب کر لیا ہے کہ چینل کے خلاف مناسب قانونی کارروائی کیوں شروع نہ کی جائے ہے۔

پیمرا نے اے آر وائی نیوز کے چیف آپریٹنگ آفیسر (سی ای او) سلمان اقبال کو کل دوپہر 2 بجے پیمرا اسلام آباد کے علاقائی دفتر میں تحریری جواب کے ساتھ ذاتی طور پر حاضر ہونے کی ہدایت کی۔

نوٹس میں خبردار کیا گیا کہ عدم تعمیل کی صورت میں پیمرا قوانین کی متعلقہ دفعات کے مطابق آر وائی کمیونیکیشن پرائیویٹ لمیٹڈ (اے آر وائی نیوز) کے خلاف یک طرفہ قانونی کارروائی کی جائے گی۔

ملک کے کچھ حصوں میں 'اے آر وائی نیوز' کی نشریات معطل

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ شب اے آر وائی نیوز کی نشریات ملک کے مختلف حصوں میں معطل کردی گئی۔

مقامی کیبل آپریٹرز نے اے آر وائی نیوز سلاٹ کو دوسرے چینلز سے تبدیل کر دیا جبکہ 'نیاٹیل' سروس کے صارفین کو اے آر وائی چینل کی جگہ ایک جامد سکرین دکھائی دی جس پر 'یہ چینل فی الحال دستیاب نہیں ہے، تکلیف کے لیے معذرت' کا پیغام درج تھا۔

کراچی میں کچھ صارفین کو ان کے کیبل آپریٹرز کی جانب سے پیغام موصول ہوا جس میں کہا گیا کہ 'قابل قدر صارف، پیمرا کی ہدایات پر اے آر وائی نیوز کی نشریات تاحکم ثانی معطل کردی گئی ہے، تکلیف کے لیے معذرت خواہ ہیں'۔

تبصرے (0) بند ہیں